Ali HassanColumn

مشرقی پاکستان، سیاسی یا فوجی ناکامی .. علی حسن

علی حسن

 

(حصہ اول)
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 24 نومبر کو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل یوم شہدا کے موقع پر قومی خطاب کیا جو ایک نئی روایت تھی۔اس میں انہوں نے کہا کہ سابقہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانک شا نے بھی کیا۔ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو بہت بڑی زیادتی ہے۔ پچاس سال سے زائد عرصے بعد کسی فوجی سربراہ نے پہلی بار وضاحت اور شکایت کی ہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں کیا ہوا، کیا نہیں ہوا، کیا کیا گیا، کیا کچھ نہیں کیا جاسکا، اب تو سینکڑوں کتابوں میں اس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ لکھنے والے ہر شخص نے اپنی معلومات، مشاہدہ، تجربات پر قلم چلایا ہے۔ راقم نے تو اس عنوان سے کہ فوج مارشل لاء کیوں نافذ کرتی ہے، سترہ چیدہ چیدہ فوجی افسران سے 1986، 1987میں انٹر ویو کئے تھے ۔ جن افراد سے انٹر ویو کئے گئے ان میں بری اور ہوائی فوج کے نامور جنرل اور ایئر مارشل شامل ہیں اور راقم کی کتاب ’’ پاکستان ، جرنیل اور سیاست‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بعض انٹرویو میں سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان کی شکست کا تذکرہ بھی موجود ہے، جن کے اقتساب درج ذیل ہیں۔
ائیر مارشل ریٹائرڈ ذوالفقار علی خان سابق سربراہ پاکستان ائیرفورس ، سابق سفیر متعین امریکہ۔ کہا جاتا ہے کہ 1971ء کی جنگ میں سیاستدانوں کی وجہ سے شکست ہوئی جبکہ سیاستدان فوج اور ہوائی فوج کو مورود الزام ٹھہراتے ہیں، کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ خود تجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سیاستدانوں کا کوئی دخل ہی نہیں کیونکہ طویل فوجی رول نے ایسے حالات پیدا کردیئے تھے جن کے نتائج اس صورت میں نکلے، مشرقی پاکستان میں (بیگانگی) ہوچکا تھا۔ میں آپ کو ایک بات صاف صاف اور واضح الفاظ میں بتاتا ہوں کہ فوج کی قوت کا بنیادی دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے عوام کا تعاون او رمعاونت کس حد تک حاصل ہے۔ اگر عوام کی معاونت نہیں ہے تو فوج جنگ نہیں لڑسکتی۔ آپ ویتنام میں دیکھیں امریکہ نے پانچ لاکھ فوج بھیجی تھی اور ساؤتھ ویت نام کی فوج بھی تعاون کررہی تھی لیکن عوام کا تعاون نہیں تھا۔ اسی طرح الجیریا میں تین لاکھ فوج بھیجی گئی تھی کیا نتیجہ نکلا ، یہ کہنا کہ ائیرفورس کی غلطی تھی یا سیاستدانوں کی غلطی تھی یکسر غلط ہے، درحقیقت 1958ء میں آپ کے ملک میں فوجی حکومت تھی اور ملک 1971ء میں ٹوٹ گیا، آپ کو تو اس شخص پر الزام عائد کرنا چاہیے جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا باقی جو مرضی آئے کہتے رہیں ۔ اس کی مثال اس طرح لیں کہ میں ائیرفورس کا سربراہ تھا ، اگر کسی اچھائی کا کریڈٹ میں لے رہا ہوں تو خرابی کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی عائد ہونی چاہیے۔ بات سیدھی سی ہے کہ بنگالیوں نے طے کرلیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے ان کی اکثریت نے فیصلہ کرلیا تھا ، یہ فیصلہ اس لئے کرلیا تھا کہ انہیں کبھی صحیح نمائندگی نہیں دی گئی تھی۔
میجر جنرل ریٹائرڈ محمد حسین انصاری ، سابق رُکن قومی اسمبلی 1988ء اور سابق ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترقیات لاہورسے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں مشرقی پاکستان میں ہماری شکست سیاسی ناکامی یا فوجی ناکامی کا نتیجہ ہے ، جواب میں انہوں نے کہا بالکل سیاسی ناکامی ہے ، 1965ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں جتنی فوج تھی وہ 1971ء کے مقابلے میں شاید ایک چوتھائی تھی لیکن ہندوستان نے حملہ تو نہیں کیا تھا ، یہاں (مغربی پاکستان )میں بڑی زبردست لڑائی ہوئی تھی ، ہر ملک یہ چاہتا ہے کہ جنگ میں کمزور علاقے میں دوسرا محاذ کھول دے تاکہ دشمن کی فوج بٹ جائے اس کے باوجود ہندوستان میں 65ء میں مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کی تھا۔ آخر کیوں نہیں کیا؟اسے معلوم تھا کہ یہاں پر فوج کشی مشرقی پاکستانیوں کے خلاف ہوگی، 1971ء میں یہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ فوج کشی مغربی پاکستان کی فوج کے خلاف ہوگی، مشرقی پاکستان نہیں بلکہ بنگلادیشیوں کی حمایت میں ہوگی ، جب ہندوستان کی فوج مشرقی پاکستان میں پہنچی تو کتنے بنگالیوں نے کوئی سوگ منایا ، کوئی احتجاج کیا بلکہ ہار ڈالے گئے، دراصل ہماری قومی یکجہتی میں بڑا شگاف پڑ گیا تھا اس شگاف کا آغاز فیلڈ مارشل ایوب خان کے وقت سے شروع ہوگیا تھا ، اگر تلہ کیس میں جب مجیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا تو سیاستدانوں نے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔
ائیرمارشل ریٹائرڈ ظفر چودھری،سربراہ پاکستان ایئر فورس نے انٹرویو میں کہا کہ میں جہاز تو نہیں چلارہا تھا لیکن جہاز میں موجود تھا کہ وزارتِ دفاع کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ میں اُن (شیخ مجیب الرحمن) کے ساتھ جاؤں اور وہاں (لندن) خیریت سے پہنچاکر آؤں۔ حکومت کو یہ اندیشہ تھا کہ کسی اور ملک کی طرف سے جہاز کو نقصان پہنچایا جائے گا تاکہ ہماری پوزیشن خراب ہو ، دوران سفر شیخ مجیب الرحمن بہت خوش تھے کہ انہیں پھانسی نہیں دی گئی اور زندہ سلامت چھوڑ دیا گیا اس لئے وہ بھٹو کے بہت مشکور تھے ۔ انہوں نے دوران سفر مجھے کئی بار کہا بھٹو عظیم آدمی ہے اس نے دو مرتبہ میری جان بچائی ہے میں اس کا ساتھ دوں گا وغیرہ وغیرہ۔دوسرا تاثر انہوں نے یہ دیا تھا کہ ہندوستانیوں سے مجھے پیچھے چھڑانا ہے کہ وہ بنگلادیش میں آکر بیٹھ گئے ہیں ، ان سے پیچھا چھڑانے کے بعد کوئی نہ کوئی راستہ نکال کر پاکستان کے ساتھ کوئی رابطہ قائم کرلوں گا ۔ میرا (ظفرچوہدری) خیال ہے کہ وہ یہ تاثر اس لئے دے رہے تھے کہ اگر انہوں نے ہم سے اپنے دل کی بات کردی تو شاید ہم انہیں لندن نہ لے جائیں ، انہیں کچھ اس طرح کا شک تھا، جب لندن پہنچ گئے تو ان کا رویہ بالکل بدل گیا تھا ۔
ائیرمارشل ریٹائرڈ رحیم خان،سابق سربراہ پاکستان ائیرفورس اور سابق سفیر کا کہنا تھا کہ انصاف کی بات یہی ہے کہ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کو دے دیا جانا چاہیے تھا لیکن میں اس وقت ملک سے باہر تھا اور جنرل یحییٰ خان مسلح افواج کی بات اتنی نہیں سن رہا تھا جتنی مسٹر بھٹو کی بات مان رہا تھا ۔ مسٹر بھٹو اس بات کیلئے تیار نہیں تھے وہ مشرقی پاکستان جانے کیلئے تیار نہیں تھے انہوں نے دھمکی دی تھی جو مشرقی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگ توڑ دی جائے گی ۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button