ColumnNasir Sherazi

آنکھوں، دل و دماغ پر چڑھا پلاسٹر .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

23نومبر بروز بدھ راولپنڈی اسلام آباد میں بھونچال کی سی کیفیت تھی، اعلیٰ سول و فوجی حکام کے فون اور سیل فون کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی تھیں اچانک اطلاع آئی کہ جی ایچ کیو کے راستے صبح سے سہ پہر تک عام شہریوں کے لیے بند رہیں گے پھر دوسری اطلاع ملی کہ اس عرصہ میں موبائل فون نیٹ ورک بھی بند رہے گا۔ مجھے زندگی بھر ایک دن میں اتنے فون نہ آئے جتنے اس روز ایک گھنٹے میں آئے، سب کا ایک ہی سوال تھا، کیا ٹیک اوور ہونے لگا ہے، میں نے سب سے کہا،ٹیک اوور ’’آفٹر دی لاسٹ لائٹ‘‘ یعنی نصف شب کے بعد ہوتا ہے لیکن جنرل مشرف نے دن کی روشنی میں کیا تھا لہٰذا اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن آج ٹیک اوور نہیں بلکہ میک اوور ہورہا ہے، کچھ دوستوں کی سمجھ میں بات آئی کچھ کی سمجھ میں نہ آئی اسی روز اچانک یوم شہدا منانے کا فیصلہ ہوا، یہ سب اسی سلسلے کی کڑی تھی، تقریب نہایت عجلت میں منعقد کی گئی لہٰذا تقریب کے لیے مخصوص جگہ پر عموماً تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی، اس مرتبہ اتنی جگہ خالی تھی کہ بستر بچھاکر اُس پر لیٹ کر تقریب سے لطف اندوز ہوا جاسکتا تھا، یوں سمجھئے تقریب میں ’’اڑھائی ٹرٹروہی تھے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اِس تقریب سے اپنی زندگی کا تیز ترین خطاب کیا، یوں لگا جیسے کلاس ٹو کا بچہ، ٹو کا اچھی طرح سے یاد کیا ہوا ٹیبل سنا رہا ہے۔ وہ بہت عجلت میں نظر آئے، شاید انہیں کہیں اور ضروری جانا تھا۔ مجھے بچپن کا وہ زمانہ یاد آگیا، کلاس ٹیچر نہایت انہماک سے بچوں کا ہوم ورک چیک کررہی ہوتی تھیں اچانک ایک بچہ ان کے قریب آکر ہاتھ کی چھوٹی انگلی کھڑی کرکے ایک ضروری کام کی اجازت طلب کرتا، ٹیچر توجہ نہ دیتیں تو وہ زور سے کہتا مس پلیز جلدی سے اجازت دیں ورنہ وہ ضروری کام یہیں ہوجائے گا، ٹیچر گھبرا کر اُسے دیکھتیں اور کہتیں چلو جائو جلدی سے دفع ہوجائو، بچہ چھلانگیں لگاتا نظروں سے اوجھل ہوجاتا، ضروری کام سے فارغ ہوکر وہ کھیل کود کر نصف پیریڈ گزار کر خاموشی سے کلاس میں آکر بیٹھ جاتا۔
یہ تقریب ایسے وقت میں منعقد کی گئی جب خان اور حکومت کے درمیان سیاسی میچ ایکسٹرا ٹائم میں پہنچ چکا تھا، لہٰذا خدشات اور بدگمانیاں پیدا ہوئیں، ایک خاص طبقہ اسی کام پر مامور کیاگیا تھا جو اپنے خیالات و خواہشات کو بروں کی شکل دیتا رہا۔
اس موقعہ پر شرفا نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا حالانکہ انہیں صبح، دوپہر، شام تین مرتبہ ڈرایا جاتا تھا لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا ہمارا فیصلہ اٹل ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، چاہے ہماری حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے اورمارشل لا ہی کیوں نہ لگ جائے ۔
دودھ نکالنے والے اپنے کام میں ماہر نکلے انہوں نے متبادل انتظام بھی کررکھا تھا وہ دودھ نکالنے میں کامیاب رہے لیکن مینگیاں ڈالنے والوں نے کچھ کم نہ کیا، خدا کا شکر کہ مینگیاںدستیاب نہ ہوئیں ورنہ دودھ پلید کرنے کی تیاری تو کررکھی تھی۔
قوم نے نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے تقرر کا جس والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا ہے اس کی اس سے پہلے صرف ایک مثال ہے، جنرل راحیل شریف اس عہدے پر فائز ہوئے تو قوم کے چہرے کھل اٹھے تھے، اس کے بعد آج یہ دوسرا موقعہ ہے، کراچی سے خیبر تک اس عہدے پر تقرر کو سراہا جارہا ہے۔
جنرل سید عاصم منیر ہر اعتبار سے اس اہم عہدے کے میرٹ پر پورے اترتے ہیں، ان کی تعیناتی پربھارت اور بھارت نواز حلقوں میں سوگ کی کیفیت ہے، ہر بات میں کیڑے ڈالنے اور کیڑے نکالنے والے سرجوڑے بیٹھے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے، اب کیا کیا جائے۔
پاکستان آرمی سے بغض و عناد رکھنے والے مادر پدر آزاد دانش ور جن کا تعلق ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ قبیلے سے ہے، تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک بھر میں نادرا دفاتر کے باہر ایک ہجوم ہے جو اپنی ولدیت کے خانے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی بجائے اب نئے آرمی چیف کا نام لکھوانا چاہتے ہیں، اس قسم کی ہرزہ سرائی ان کی حالت غم کی نشاندہی کرتی ہے جو غم ایک صلاحیتوں سے مالا مال نیک چلن اور صاحب کردار آرمی چیف کے تقرر سے ان کو پہنچا ہے۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ افواج پاکستان کا ہر سپاہی اور ہر افسر اہل پاکستان کو اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ اپنے والدین ہوتے ہیں ہر دل میں ان کا اتنا ہی احترام ہے۔
جنرل سید عاصم منیر کا تعلق راولپنڈی سے ہے، ازخود اختیارات کے تحت فرزند راولپنڈی کے مرتبے پر فائز سنگل سیٹ پارٹی کے سربراہ شیخ رشید یقیناً بہت خوش ہوں گے آنے والے ایام میں وہ نئے آرمی چیف سے کوئی نہ کوئی پرانا تعلق ڈھونڈ نکالیں گے اور کچھ نہ ہوا تو ان کی طرف سے یہ بیان آسکتا ہے کہ ہم دونوں نے ایک ہی قاری صاحب سے قرآن پڑھا ہے عین ممکن ہے وہ یہ دعویٰ کردیں کہ ان کی لائنیں بھی میں ہی سیدھی کرایا کرتا تھا اور کچھ ہو نہ ہو وہ آئندہ انتخابات میں حصہ ضرور لیں گے حالانکہ اس سے قبل وہ تسلسل سے کہتے آئے ہیں کہ یہ الیکشن ان کی زندگی کا آخری الیکشن ہے، ویسے ان کی اس بات کے دو مطلب نکلتے ہیں، خدا خیر کرے۔ میرے خیال میں انہیں قربانی کا بکرا بننے کی بجائے اب سیاست سے کنارہ کش ہوکر اللہ ، اللہ کرنا چاہیے یا ریشم کے کاروبار کی طرف مکمل طور پر پلٹ جانا چاہیے جہاں ہر چیز ریشمی ہوتی ہے، اگر نہ بھی ہو تو ریشم میں لپٹی ہوئی ضرور ہوتی ہے، شیخ رشید صاحب نے اقرار کرلیا ہے کہ کئی برس بعد وہ ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ استوار کررہے ہیں جبکہ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کا رابطہ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے منقطع ہوا ہی نہیں، وہ حاضر سروس ہی رہے ہیں ان کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے وہ ریٹائرمنٹ لینے پر تیار نہیں بلکہ اس عمر اور گرتی ہوئی صحت کے ساتھ بھی ایکسٹینشن لینا چاہتے ہیں، بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے ایکسٹینشنوں کا موسم بیت گیا ہے اس درخت پر تو اب پت جھڑ کا موسم ہے، ایسا نہ ہوتا تو ایک برس ایکسٹینشن لینے کے خواہش مندوںکو من کی مراد مل جاتی۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے سے محفوظ رہی لیکن اس کے باوجود اس پر کئی روز پلاسٹر چڑھا رہا، یہ پلاسٹر اسی روز اترا ہے جس روز جنرل سید عاصم منیر کے تقرر کا اعلان ہوا ہے، یوں اسے حسین اتفاق کہا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ! خان کو صحت دے انہیں مزید اپنی زندگی کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ سیاسی جدوجہد کے لیے پارلیمنٹ میں واپس آکر آئندہ الیکشن کا انتظار کرنا چاہیے، یہ یوٹرن ان کی زندگی کا سب سے عمدہ یوٹرن ہوگا، ضروری ہے وہ اپنے ساتھیوں سے کہیں کہ سب بھی اپنی آنکھوں اور اپنے دل و دماغ پر چڑھا بلاضرورت پلاسٹر اُتار دیں اور ایک نئے عزم سے مثبت سیاست کا آغازکریں، منفی سیاست بری طرح پٹ گئی ہے، مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈالی جاسکتی۔ خان کا صوبائی اسمبلیوں سے باہر آنے کا فیصلہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button