CM RizwanColumn

غیر سیاسی تقرریاں ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

ایک تھکا دینے والی اور ہیجان خیز تاخیر کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تعیناتی کا مرحلہ بالآخر وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے جی ایچ کیو کی جانب سے جاری کئے گئے آرمی چیف اور چیف آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی پوسٹوں کیلئے اہل دو سرفہرست سینئر افسران کی تعیناتی کر کے ایک ایڈوائس کی صورت میں صدر مملکت عارف علوی کو بھیج کر مکمل کر دیا اور پھر اسی روز شام کے وقت صدر موصوف نے بھی اس ایڈوائس پر بغیر کسی سیاسی نفع نقصان کے من وعن منظوری دے کر ثابت کردیا کہ ملک کی موجودہ سول قیادت ان خالصتاً ادارہ جاتی تعیناتیوں پر کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں کررہی۔ ان تعیناتیوں پر وطن عزیز کا ہر سیاسی و انتظامی شعور رکھنے والا شہری مطمئن ہے کہ پیشہ ورانہ قابلیت اور اہلیت و صلاحیت کے مطابق تقرریاں کر کے اتحادی حکومت نے اپنے تجربے اور خلوص کا اظہار کیا ہے جبکہ دوسری طرف سے صدر مملکت نے تاخیری حربے سے اجتناب کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ادارے کے پیشہ ورانہ معاملات میں حائل نہیں ہونا چاہتے اور ملک کو کسی ہیجانی کیفیت سے ہر گز دوچار کرنے کے حق میں نہیں۔
فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کو یوم دفاع و شہداء پاکستان سے معنون منعقدہ ایک تقریب سے طویل اور غیر معمولی خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ بات دہرائی تھی کہ اب فوج غیرسیاسی ہو گئی ہے اور یہ فیصلہ فوجی قیادت نے گزشتہ برس فروری میں کافی سوچ بچار کے بعد کیا تھا کہ آئندہ فوج ملک کے کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ سابقہ 70 برس سے فوج کی سیاست میں مداخلت رہی ہے جو کہ نہ صرف غیرآئینی تھی بلکہ اس سے فوج تنقید کی زد میں بھی آتی رہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بار اس موقف پر عملدرآمد ہوتا ہوا بھی نظر آئے گا۔ جنرل قمر باجوہ کے عزم و ارادے اور فیصلے پر سردست اگر شک نہ بھی کیا جائے تو سچ تو یہ ہے کہ ابھی بھی فوج کا سیاسی کردار موجود ہے۔ لمحہ موجود تک فوج غیر سیاسی نہیں کیونکہ جب تک ریاست کا پاور سٹرکچر تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ چونکہ سیاست کا تعین تو پاور سٹرکچر سے ہوتا ہے جب یہ ہی تبدیل نہ ہو تو سیاست کیسے بدل سکتی ہے۔ پھر یہ کہ جنرل باجوہ نے جن متعدد شعبوں میں فوج کے کردار کا ذکر کیا ہے وہ سب سیاسی امور سے متعلقہ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی امور اور فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا فاٹا کا انضمام، سرحد پر باڑ لگانا ہو یا قطر سے سستی گیس منگوانا، دوست ملکوں سے قرض کا اجرا ہو یا کوویڈ کا معاملہ، سیلاب کے دوران امدادی کام ہو یا کچھ اور فوج نے ہمیشہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کیا ہے، لہٰذا سیاست میں فوجی مداخلت پر کی جانے والی تقریر درست تصویر نہیں دکھا سکتی بلکہ اس کیلئے نئی تعیناتی کے بعد جو ہو گا وہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہوسکتا ہے نئے آنے والے فوجی سربراہ اپنی مرضی سے اپنی ٹیم تشکیل دیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ادارے میں بڑے پیمانے پر تقرریاں اور تبادلے بھی ہوتے نظر آئیں۔ اس مرحلے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
جنرل باجوہ کی اس تقریر میں ظاہر کئے گئے استدلال کے مطابق ان کی نظر میں فوج پر تنقید کی بڑی وجہ گزشتہ 70 سال کی فوج کی سیاست میں مداخلت ہے۔ فوج نے تو اپنا کتھارسس شروع کر دیا ہے اور امید ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گی۔ ان کا یہ موقف بھی اصولی تھا کہ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔ حالانکہ جنرل قمر باجوہ نے اپنی تعیناتی کے چھ برس میں سے چار برس بھرپور سیاسی مداخلت کے گزارے۔ یعنی وہ جنوری تک سیاسی تھے اور پھر فروری میں غیر سیاسی ہو گئے تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جنوری 2021 سے قبل تک تحریک انصاف کہتی تھی کہ فوج نیوٹرل ہے جبکہ دیگر جماعتیں ان کے سیاسی کردار پر انگلیاں اٹھاتی تھیں۔ پھر جب وہ غیر سیاسی ہو گئے تو تحریک انصاف کے رہنما بھی کہنے لگے کہ فوج سیاسی ہو گئی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے قریب ان کی یہ تقریر اور استدلال روایتی ہے کیونکہ اب جو بھی کرنا ہے نئے فوجی سربراہ نے ہی کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جنرل باجوہ کے خطاب میں نئے آنے والوں کیلئے مشورے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کا لہجہ بھی نئی تقرریوں تک تلخ رہا اور فوج کی جانب سے اس کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا تھا مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کی تنقید کے پیچھے چھپے مفادات اور نقصانات کا جواز درست ہے یا وقتی مقاصد کے تحت یہ ہرزہ سرائی کی جاتی رہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا تھا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹیوں کو امپورٹڈ کا لقب دیا تھا۔ ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے۔ تاہم یہ سیاسی نوعیت کے الزامات ہیں تو اس کیلئے سیاسی رہنماؤں سے بہتر جواب شاید کوئی نہ دے سکے۔
گو کہ 2008 میں فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کا اعلان جنرل کیانی نے بھی کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہو گئی ہے اور اس کے بعد تمام افسران کو سرکاری محکموں سے واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور کے اختتام پر یہ پالیسی ایک بار پھر تبدیل ہوتی نظر آئی۔ لہٰذا سیاسی امور میں عدم مداخلت والی یہ پالیسی تب ہی تسلسل سے آگے بڑھے گی جب اسے ہر سطح پر لے جایا جائے گا۔ یعنی جب آرمی ٹریننگ کے اداروں اور کاکول وغیرہ میں کیڈٹس کو یہ پڑھایا جائے گا کہ فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ملک کا بہت نقصان ہوا ہے تو پھر شاید آئندہ ایسی مداخلت کا راستہ بند ہو سکے۔جہاں تک آر ٹی ایس کا تعلق ہے تو یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ آر ٹی ایس بیٹھا تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ سب حقائق سامنے ہیں کہ بعض امیدواروں کو نتائج والے فارم 45 نہیں دیئے گئے تھے۔ گنتی کے وقت بعض پولنگ ایجنٹ بھی پولنگ سٹیشنوں کے اندر موجود نہیں تھے۔ پھر یہ کہ تحریک عدم اعتماد کو سیاسی جماعتوں نے مل کر کامیاب بنایا تھا اور اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یعنی فوج کا سیاسی کردار تو تب تصور ہوتا جب تحریک انصاف کے لوگ بھی تحریک عدم اعتماد لانے والوں کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ 2018 میں صرف آر ٹی ایس ہی نہیں بیٹھا تھا بلکہ اس الیکشن سے قبل جس طرح سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا۔ جس طرح نظام کو کمزور کیا گیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور ایسے کرداروں کے نام بھی سب کے سامنے ہیں۔
البتہ اب جبکہ نہ تو اس طرح کے فیصلے آ رہے ہیں، نہ ہی اس طرح کی فون کالز آ رہی ہیں۔ اس وقت افواج پاکستان پیشہ ور ہیں۔ ان کا جمہوریت کیلئے حصہ بھی سامنے ہے۔ اور اب فوج پر سوائے ایک پارٹی کے کوئی بھی سنجیدہ سیاستدان ایسے الزامات نہیں لگا رہا۔ عدم اعتماد کے بعد جو امپورٹڈ کا بیانیہ بنایا گیا اب تو عمران خان نے نہ صرف اپنے بیانیے سے یوٹرن لے لیا بلکہ انحراف بھی کیا ہے۔ اس خطاب میں جنرل باجوہ نے نام لئے بغیر یہ درست کہا کہ تنقید سیاسی پارٹیوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں احتیاط برتنا چاہیے۔یہ بھی درست کہا کہ ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اس جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی درست پوچھا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ بیرونی سازش پر فوج خاموش رہے۔یہ گناہ کبیرہ ہے۔ جنرل باجوہ کے مطابق فوج کی سینئر لیڈر شپ کو نامناسب القابات سے پکارا گیا۔ ہم اپنی اصلاح کر رہے ہیں، امید ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اصلاح کریں گی۔ اس پر تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے آرمی چیف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے جنرل باجوہ سے کچھ تاریخی حوالوں سے بھی ایسے اختلاف کیا جیسے وہ یونیورسٹی میں اپنی کلاس میں کسی طالب علم کو درست سبق یاد دلا رہی ہوں۔ شیریں مزاری نے ٹویٹ کیا کہ یہ سیاسی تقسیم اور سیاسی عزائم ہی تھے جن کی وجہ سے اس پارٹی کو اقتدار نہیں دیا گیا تھا جو انتخابات جیت کر آئی تھی، یاد رکھیں اس وقت اقتدار میں ایک فوجی آمر تھا اور مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی نے سرنڈر کیا تھا جس کے بعد بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی گئی جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔ شیری مزاری کا یہ استدلال اس حد تک تو درست ہے لیکن اب ایک بار پھر جبکہ ادارے کی جانب سے غیر سیاسی ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے عمران خان کیوں فوجی قیادت سے مدد اور مداخلت کا کہتے رہے ہیں۔
بہرحال نئی تقرریوں کے بعد جو تاثر سامنے آیا ہے وہ یہی ہے کہ سول قیادت اور سیاسی سٹیک ہولڈرز نے فوج کو سیاسی چکر بازیوں سے بچا کر ایک بااعتماد اور پیشہ ور قیادت فراہم کردی ہے۔ اب نئی فوجی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیشرو سالار کی فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے حوالے سے پیش بندیوں پر عمل کرتے ہوئے وطن عزیز کی سلامتی اور فلاح و بہبود کیلئے بھرپور اور جاندار کردار ادا کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button