ColumnImtiaz Ahmad Shad

کیا قوم نے فیصلہ کر لیا؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کو عقل کل اور میں نہ مانوںکے نشے میں دھت افراد کی بہتات کا سامنا ہے۔شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں معاشی پالیسی سے لیکر آئینی تبدیلی تک ہر چیز کا حل سڑکوں ،چوراہوں، چھابڑی والے اور ٹی وی سکرین پر براجمان افلاطونوںکے پاس تو ہے مگر ایوان اقتدار میں بیٹھے بے اختیار مجسموں کے پاس نہیں۔عجب تماشا ہے کسی دور میں بھی بد قسمت عوام کو سکون میسر نہیں آیا۔جب بھی ملک کو درست سمت کی جانب لانے کی کوشش کی گئی ایسے حالات بنا دیئے گئے کہ حکومتوں کو اپنے وجود کی فکر لاحق ہو گئی اور عوام بچاری منہ دیکھتی رہ گئی۔بدقسمتی سے ادیب شاعر اور مفکر جو قوم کو نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے آج ناپید ہیں اور گوگل کی پیداوار ادیبوں،شاعروں اور تجزیہ نگاروںنے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا خاتمہ ہو گیا اور چرب زبان افراد نے ہر سطح پر اپنے وجود کو منوا لیا۔تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ وارداتی سیاست دانوں نے حسب روایت بے مقصد راگ آلاپ کر پورے نظام میں ایسی ہلچل مچائی جس نے معاشی، سیاسی اور اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر لی اور ملکی انتظامی امور ٹھپ ہو کر رہ گئے۔اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ معاشرے میں بے یقینی اور ہیجان کی کیفیت ہر لمحے بڑھتی جا رہی ہے لوگ مزید برداشت کی سکت نہیں رکھتے۔
ایک تو مہنگائی اوربے روزگاری کا سونامی ہے دوسراہر ادارہ شتربے مہار ہوچکا،عوام کو جو تھوڑی بہت سہولیات میسر تھیں وہ بھی گدھے کے سینگوں کی ماند غائب ہو گئیں۔ملک کی بڑی سیاسی جماعت سڑکوں پر ہے ، اپنے آخری اور فیصلہ کن مرحلے کے لیے راولپنڈی میں اپنا پڑائو ڈال چکی جب کہ پی ڈی ایم نامی متنجن اپنے ماضی کے تمام داغ صاف کرنے میں اس قدر بد مست ہاتھی کی مانند مصروف ہے کہ انہیں ملک کی بربادی کسی صورت نظر ہی نہیں آرہی۔ ہمارے سیاستدان اس قدر بے حس اور خود غرض ثابت ہوئے ہیں کہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ملک کے سب سے زیادہ مضبوط اور منظم ادارے کے سربراہ کے انتخاب کو بھی تماشا بنانے سے باز نہیں آئے۔خدا کا شکر کہ وہ مرحلہ طے ہوا۔
موجودہ سیاسی چپقلش کی وجہ سے قوم گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہے۔کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں۔75 سالوں سے اس قوم کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ چند گھرانے تو مضبوط ہوئے مگر
عام انسان دو وقت کی روٹی سے بھی عاجز ہے۔اس امید کے ساتھ کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ، قوم امید کا دیا جلائے بیٹھی ہے۔موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی سیاست میں عمران خان وہ واحد سیاستدان ہیں جن پر قوم کی اکثریت کو بھروسہ اور یقین ہے،جس کا عملی مظاہرہ گذشتہ سات ماہ سے عوام کی جانب سے نظر آرہا ہے۔جلسے،جلوس ہوں یا ضمنی انتخابات ہر سطح پر عوام نے عمران خان کو مایوس نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان بھی گولیاں لگنے کے باوجود عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے نظر آرہے ہیں۔اس قوم کی بدقستی یہ رہی ہے کہ ہر بار ایک نجات دہندہ میدان میں اترتا اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو گرویدہ بناکر طاقت کے ایوانوں میں داخل ہو جاتا ، لوٹ مار کر کے فرار ہو جاتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا آجاتا ۔ عوام کو بتایا جاتا کہ پہلے والا چور تھا اب یہ والا عوام کا خیر خواہ ہے ۔ جب دوسرے والا فارغ کیا جاتا تو پھر عوام کو بتایا جاتا کہ یہ دوسرے والا ڈاکو ہے لہٰذا پہلے والے کا ساتھ دیا جائے۔اس لوٹ مارکے چکر نے عوام کو چکرا کے رکھ دیا۔مگر ان سب کی قسمت خراب کہ جب عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا تو عوام نے منصوبہ سازوں کی توقعات کے برعکس رد عمل دیا۔ قوم نے فیصلہ کیا کہ اب کسی نئے مسیحا کی
تلاش پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عمران خان کو ہی اپنا نجات دہندہ بنا لیا جائے اور قوم نے اسے بنا لیا۔گذشتہ چند دنوں سے میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے مل رہا ہوں ، عام آدمی کی رائے جاننے کی کوشش کر رہا ہوں، عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد حل صاف شفاف الیکشن ہیں۔اگر فوری الیکشن کروا دیئے جائیں تو ملک کسی بڑے خطرے سے بچ سکتا ہے۔ ۔ بین الاقوامی طور پر ہم ہر روزکسی نہ کسی نئی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، ملک میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کے دور دور تک امکان نظر نہیں آتے۔اندرونی اور بیرونی اس ہیجانی کیفیت نے وطن عزیز کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، جس کا خمیازہ بے چاری عوام بھگت رہی ہے۔
افسوس میرے دیس کا ہر طاقتور طبقہ، جانے انجانے میں ملک کو کمزور کرنے پر لگا ہے،عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، خدشہ ہے یہ بے چینی کوئی خوفناک شکل نہ اختیار کر جائے۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر پاکستان کی بقا کے لیے سب کو اپنی ضد اور انا کے پہاڑ سے نیچے اترنا ہو گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کام آج تک ہمارا دشمن نہیں کر پایا وہ ہم اپنی ہٹ دھرمی سے کر جائیں اور ملک خدانخواستہ ایسے بحران میں چلا جائے جہاں ہم وہ سب کچھ بھی گنوا دیں جو کسی صورت نہیں گنوانا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ موجودہ حکومت کو عوام کی اکثریت قبول نہیں کر رہی ، اس کے باوجود اگر کوئی زعم ہے تو پھر نئے الیکشن کروانے میں کیا حرج ہے؟جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کا راولپنڈی میں پڑائو بے نتیجہ ثابت ہو گا تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس دفعہ عمران خان جسم میں گولیوں کا زخم لیے عوام میں آرہا ہے ، اور اسے معلوم ہے کہ میرے اوپر دوسری بار بھی حملہ ہو سکتا ہے۔اب بھی اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ قوم عمران خان کے ساتھ نہیں تو پھر اس ،میں نہ مانوں، کی بیماری کا کوئی علاج نہیں۔جب کسی قوم پر مشکل وقت آتا ہے تو وہ اس شخص کو اپنا نجات دہندہ مان لیتی ہے جو ان کی آواز بنے، ان کے لیے جان دینے سے بھی گریز نہ کرے اور قوم کے حقوق کے لیے ہر طاقت سے ٹکرا جائے۔عمران خان اس وقت عوام کی توقعات پر پورا اتر چکے ہیں لہٰذا عوام کی اکثریت عمران خان کو اپنی مشکلات سے نجات دلانے والا تصور کرتی ہے۔ایسے میں زخمی عمران خان کا عوام کے درمیان ہونا عوام کو مزید تقویت دے گا اور لوگ پہلے سے زیادہ اس کے گرویدہ ہوں گے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقہ پریشان ہے کہ اگر الیکشن جلد کروا دیئے گئے تو وہ بری طرح پٹ جائیں گے، اور عمران خان بھاری اکثریت کے ساتھ جیت جائے گا۔مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ الیکشن میں جتنی تاخیر ہو گی ملکی معیشت اتنی تباہ ہو گی اور عوام میں ان کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔بہرحال یہ تو وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کی جیت ہو گی اور کس کی ہار۔ سیاست تو ہوتی رہے گی ،دعا ہے اس سب میں پاکستان کی جیت ہو۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button