Editorial

نئی عسکری قیادت سے قوم کی توقعات

 

جنرل عاصم منیر کی پاک فوج کے نئے سربراہ جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کی منظوری دے دی گئی ہے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی سمری پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تقرریوں کی منظوری دی۔ جنرل عاصم منیر اعزازی شمشیریافتہ، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس، آئی ایس آئی کے سربراہ اور کور کمانڈر گوجرانوالہ رہ چکے ہیں،پاک فوج کے نئے سربراہ حافظ قرآن بھی ہیں۔ جنرل ساحر شمشادڈی جی ملٹری آپریشنز، چیف آف جنرل اسٹاف اور کورکمانڈر راولپنڈی رہ چکے ہیں۔ دونوں افسران کے لیے حزب اقتدار، حزب اختلاف سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیراعظم محمد شہبازشریف کی ایڈوائس پر منظوری دی اور ایوان صدر کے مطابق جنرل سیدعاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تعیناتی کا اطلاق 29 نومبر 2022سے ہوگا جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعیناتی کا اطلاق 27 نومبر سے ہوگا۔جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہوں گے جو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی میں رہ چکے ہیںاسی طرح جنرل ساحر شمشاد مرزا نے تحریک طالبان پاکستان اور دیگردہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشنز کی نگرانی کی ، وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا گلگت بلتستان اصلاحات کمیٹی کا بھی حصہ رہے ہیں۔ حکمران جماعت نے پاک فوج کے نئے افسران کی تقرری کے لیے سنیارٹی کا اصول اپنایا ہے اور بلاشبہ سنیارٹی کے اصول پر فیصلہ ادارے کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ملک میں استحکام کا بھی باعث ہوگا۔ رخصت ہونے والے افسران نے دفاع وطن کو مزید مضبوط بنایا اور پاک فوج کے لیے انمول خدمات پیش کیں جبھی ان کی خدمات کو ہر سطح پر خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے، باوقار اور باصلاحیت افسران نے شان دار خدمات سرانجام دیں اور ملک کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز کا بخوبی مقابلہ کیا اسی لیے آج قوم کے سامنے سرخرو ہورہے ہیں دوسری طرف نئے آنے والے افسران بھی اپنی صلاحیتوں اور تجربے کے بنا پر کسی تعارف کے محتاج اس لیے نہیں کہ ان کی اہم ذمہ داریاں اور بہترین کارکردگی ہمیشہ سے قوم کے سامنے رہی ہے خصوصاً جنرل عاصم منیر کو اہم منصب ملنے پر بھارتی قیادت اور میڈیا کا واویلا ثابت کرتا ہے کہ وہ پاکستان دشمنوں کے لیے ماضی
میں کیسے رہے ہیں اور آئندہ کیسے ثابت ہوں گے۔ بلاشبہ ہم اور ہماری افواج امن کے داعی ہے لیکن کبھی اپنے دفاع سے غافل نہیںرہے یہاں تک کہ ہتھیاروں کو بھی قیام امن کے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی ہم نے اپنی عسکری طاقت کا ایسے استعمال نہیںکیا جیسا بھارت اور بعض طاقتیں بدمست ہاتھی کی طرح کرتی ہیں مگر ہم نے اپنے دفاع پر کبھی آنچ بھی آنے نہیں دی یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں جتنی بار دشمن نے داخلی اور خارجی محاذوں پر پاکستان کو چیلنج کیا، دونوں جگہ پر ذلیل و نامراد ہوا لہٰذا اِس امر پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاک فوج میں قیادت کوئی بھی کرے لیکن واحد مقصد وطن عزیز کادفاع ہوتا ہے۔ پاک فوج کے دونوں اہم مناصب پر تقرری سے قبل جس نوعیت کا سیاسی ہیجان بپا تھا، وہ انتہائی نامناسب اور غیر ضروری تھا یہاں تک کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سمری پر دستخط کردیئے، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان تقرری کے موضوع پر ایسی لاحاصل بحث چھڑی ہوئی تھی جوبلاشبہ پوری قوم کے لیے حیران کن تھی کیونکہ ملک میں پہلی بار ایسا دیکھا اور سنا جارہا تھا، حزب اختلاف کی طرف سے روزانہ نئی بحث چھیڑی جاتی جو اگلے کئی دن تک چلتی رہتی اسی دوران نئی بحث کا آغاز ہوجاتا مگر جیسے ہی وزیراعظم پاکستان نے سمری صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجی، انہوں نے بلاتاخیر دستخط کردیئے، یوںکئی ماہ سے جاری بحث بالآخر کج بحثی ثابت ہوئی، جتنے خدشات دونوں اطراف سے ظاہر کئے جارہے تھے سبھی غلط ثابت ہوئے، پاک فوج نے ڈسپلن کے مطابق سمری بھجوائی، وزیراعظم نے سنیارٹی پر افسران کا انتخاب کیا اور صدر مملکت نے فوراً دستخط کردیئے یوں کئی ماہ سے ہماری سیاست میں جاری ہیجان کا فوری خاتمہ بھی ہوگیا اور آج دونوں اطراف نئی افسران کی تقرریوں پر اطمینان کا اظہار کررہی ہیں پس جتنا زیادہ شور تھا اُس سے کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ وہ کام ہوا ۔ جنرل سیدعاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تعیناتی کا اطلاق 29 نومبرجبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعیناتی کا اطلاق 27 نومبر سے ہوگااور پاک فوج کی کمان نئے افسران کے ہاتھ میں آجائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کی نئی کمان پیشہ ورانہ مہارت، طویل تجربے اور قوت ایمانی سے ہر چیلنج سے بھرپور طریقے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ دونوں نئی شخصیات کے پروفائل گواہ ہیں کہ دونوں شخصیات نے قبل ازیں کن اہم چیلنجز کا بھرپور فہم و فراست، دانش مندی، جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور عسکری قیادت سمیت ملک و قوم کے سامنے سرخرو ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی پوری سیاسی قیادت نے پاک فوج کے دونوں افسران پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرکے اِن افسران سے قوم کو وابستہ توقعات کو کہیں زیادہ بڑھادیا ہے۔ ایک طرف ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ ہے تو دوسری طرف سرحد پار سے ہمہ وقت منڈلاتے خطرات اور بلاشبہ کم و بیش افغانستان کی طرف سے بھی ایسے خطرات لاحق ہیں جیسے ہمہ وقت بھارت سے دراندازی اور بلااشتعال عسکری کارروائیوں سے رہتے ہیں اور پاک فوج ہمیشہ قوم کے سامنے سرخرو ہوتی ہے۔ دونوں افسران کو ہر وقت قوم کی مکمل تائید و حمایت حاصل رہے گی لہٰذا کوئی بھی چیلنج سامنے آیا تو پوری قوم کو شانہ بشانہ دیکھا جائے گا، ہم سویلین قیادت سے بھی توقع کرتے ہیں کہ نئی عسکری قیادت کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کام کرنے کے لیے بھرپور مدد دی جائے کیونکہ اب ان دونوں اہم مناصب پر ہر پاکستانی کی نظر بھی ہوگی اور ایسی توقعات بھی جیسی ہمیشہ سیاسی قیادت سے وابستہ رہی ہیں، خصوصاً دہشت گردی کا خاتمہ اور قدرتی آفات کی صورت میں پاک فوج کی ہمیشہ مدد حاصل رہنا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کی حزب اقتدار ہو یا پھر حزب اختلاف سبھی کو ملکی سلامتی کے ضامن اِس اہم ادارے کو اپنا کام پوری توجہ اور دیانت داری کے ساتھ کرنے دینا چاہیے کیونکہ عالمی سطح پر لمحہ بہ لمحہ تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیاں فوری توجہ اور بہترین حکمت عملی کی مسلسل متقاضی رہتی ہیں، سیاست دان تو بال کی کھال بھی اُتار سکتے ہیں اور اُس کا شامیانہ بھی بناسکتے ہیں لیکن وطن کے محافظوں کا کام اُن سے یکسر مختلف اور واقعی توجہ طلب رہتا ہے، آج ہم سے بڑی بڑی طاقتیں لرزاں ہی اسی لیے ہیں کہ پاک فوج محدود وسائل کے باوجود کسی بھی ملک دشمن طاقت کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملادینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور تیزی سے دفاع کے شعبے میں ہوتی پیش رفت بھی عسکری قیادت کو مدنظر رکھنا چاہتی ہے۔ ہم بھارت کی طرح قوم کو بھوکا رکھ کر دفاع کے لیے پیسہ خرچ نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کہ ہم نے خطے میں اسلحہ کی دوڑ کے باوجود اپنے دفاع کو اپنے کم ترین وسائل کے باوجود مضبوط رکھا ہوا ہے،اسی لیے کوئی بھی ملک دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا، لہٰذا سیاسی قیادت اول تو اپنی ادائوں پر غور کرے تو دوسری طرف پاک فوج اور نئی عسکری قیادت کو پوری توجہ سے اپنی آئینی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے دے تاکہ اُن کی کجی بحث اور کھینچاتانی سے ملک کا اہم شعبہ ہمہ وقت محفوظ رہے۔ ہم پاک فوج کے رخصت ہونے والے افسران کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور نئی عسکری قیادت کی ہمہ وقت کامیابی کے لیے صدق دل سے دعا گو ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button