Anwar Ul HaqColumn

مفلوک الحال عوام اور ڈیفالٹ کا خطرہ .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

عقیدتیں اور محبتیں بہت جانگسل ہوتی ہیں، لیکن تسخیر عالم کا عظیم الشان فریضہ بھی انہی کے بل بوتے پر سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ عقیدت اور عشق میں جب خود سپردگی کا مرحلہ آ جائے تو کائنات زیر نگیں ہو جاتی ہے، میدان سیاست ہو یا حکمرانی کے قلعے ، رہبری کے آستانے ہوںیا دلبری کے احاطے ، یہ سب عشق و محبت کے نتیجہ خیز داستانیں ہو تی ہیں۔ عقیدت اور عشق میں محبوب کے خلاف الزام تراشی، اور ٹھوس شہادتوں سے مزین واقعات اہل عشق پر اثر انداز نہیں ہوتے، ہمیشہ عقیدتیں، حکمت و دانش پر غالب آ تی ہیں۔ محبت اور عشق کا، مقام وہی لوگ جانتے ہیں جن کو عوام نے سر کا تاج بنایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے اشارہ آبرو پر جان قربان کیلئے ہمہ وقت چوکس و تیار بیٹھے ہوتے ہیں، عقیدتوں کا عالم وہی لیڈر، وہی شاعر، وہی سیاسی رہنما جانتے ہیں جن کو لاکھوں کروڑوں عوام نے دل کے آنگن میں دیوتا بنایا ہوتا ہے۔ اپنے روحانی سیاسی قائد تک رسائی حاصل کرنے آگ و خون کے دریا عبور کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ افریقہ اور ایشیاء میں ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جن کیلئے لوگوں نے اپنے آپ کو درد کی صلیب پر عشروں لٹکائے رکھا، قائد اعظم کی حکیمانہ قیادت نے عوام کو سیاسی اور تاریخی شعور سے نوازا تھا، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان نے عوام الناس کو منفی بنیادوں پر اپنا گرویدہ بنایا تھا اور مغربی پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو اپنا دیوانہ و پروانہ بنا لیا تھا، اب یہ مرتبہ جناب عمران خان کو حاصل ہو گیا ہے، موجودہ حالات میں پاکستان جس نے 22کروڑ عوام کو اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے ،شدید بحران در بحران سے زخم خوردہ ہے۔ یہ بحران عمودی بھی ہے اور افقی بھی ، سیاسی بھی اخلاقی بھی،اقتصادی اور انتظامی بھی، ایسے خطرناک بحران ہی ریاست کو ناکامی سے آشنا کر دیتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ قوم اجتماعی طورپر بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت سے عاری ہے، اس قوم کے رہنما کسی مداخلت، کسی خوف اور کسی وہم اور ڈر کی بنا پر درست فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں، جو وقت اور حالات کا تقاضا ہیں، یہ بات سنہری حروف سے لکھنے والی ہے کہ ریاست کو افراد نہیں ادارے کامیاب بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں اداروں سے زیادہ اہم شخصیات بن گئی ہیں، ادارے اور نظم ضبط ملک میں خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں،ادارے قانون کی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہیں، قانون سب کیلئے ایک سا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے اداروں کے اندر ادارے اور ریاست کے اندر ریاستیں جنم لے چکی ہیں، فرد کی ملازمت کی توسیع کیلئے سب سیاسی جماعتیں قطار اندر قطار قانون سازی میں شریک ہو جاتی ہیں۔ اب حالات میں جابر شخصیات اداروں کو غلام بنا لیتی ہیں، تکبر و غرور ان کی صلاحیتوں کو ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ قومیں ان افراد کی لمحوں کی خطا کو صدیاں بھگتتی ہیں، ابھی تک ہم 16 دسمبر1971 کی سزا کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ان بدترین ایام میں بھی ایک بد مست انسان ادارے پر حاوی ہو گیا تھا، پھر ہم ابھی تک 1977، 1979 اور 1999 کی بلائوں سے جاں بخشی نہیں کروا سکے ہیں، جب ایک فرد ادارے پر برتری حاصل کرلیتا ہے تو اس کے سامنے تہذیب، مروت، آئین و قانون بیکار ہو جاتے ہیں۔
عمران خان نے حکمت و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے رحیم چینج کے حوالے سے امریکی کردار کو اپنی یادداشت سے محو کر دیا ہے، توشہ خانہ مقدمے کے حوالے سے عمران کی پوزیشن قانونی طور پر بالکل شفاف ہے، عمران خان کی توشہ خانے کے حوالے سے اجتہادی غلطی نے اس کے وقار و منزلت میں کمی کی ہے، اسے مرتبہ امامت سے اتار کر اچھے حکمرانوں کی صف میں شامل کر دیا ہے، پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری سب سے اہم سمجھی جاتی ہے، اب اس کا ایک ہی دانشمندانہ حل ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح اس کے تقرری کو بھی سکیورٹی کی بنیاد پر طے کر دیا جائے، جن وزرائے اعظم نے اپنی مرضی سے چیف آف آرمی کی تعیناتیاں کی تھیں انہی لوگوں نے ملک کو مارشل لاء کے عذاب میں مبتلا کر دیا تھا، ادارہ جاتی تکریم کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ امید غالب ہے کہ سنیارٹی پر آرمی چیف کی تقرری فوج کو سیاسی عمل میں مداخلت کرنے سے روکے گی۔ سینارٹی کے اصول پر تقرری سے کسی کو اختلاف نہیں ہوگا۔ فوج، حکمران جماعت اور اپوزیشن اس کو قومی مفاد میں سمجھتے ہوئے دل و جان سے قبول کر لیں گے۔ پاکستان میں دوسرا اہم مسئلہ منصفانہ اور غیرجانبدار انہ فوری انتخابات کراوانے کا درپیش ہے، جس نے اجتماعی طور پوری قوم کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو سکتا ہے، ایک دو ماہ اگر انتخابات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں تو کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے بڑا مسئلہ نہیں ہے، عمران خان کے اعلان کے مطابق لانگ مارچ 26 نومبر تک اسلام و پنڈی پہنچ جائے گا، عمران خان اپنے بیانیہ کی برکت سے سب سیاست دانوں پر مقبولیت کے حوالے سےبرتری حاصل کر لی ہے، انتخابات کی یقین دہانی پر عمران خان احتجاجی سرگرمیاں ترک کر دیں گے اور انتخابی سرگرمیوں کا ادارہ جاتی آغاز کریں گے۔
پاکستان کو مصر میں ماحولیاتی کانفرنس کے بعد سب تک 200 ملین ڈالرملے ہیں، ہمارے کم و بیش 32ارب ڈالرز کے نقصانات ہوئے ہیں، ہمارا تخمینہ 16ارب ڈالرز کے وصول ہونا کا تھا جو ہنوز ابھی خواب ہے، ہم نے 23ارب ڈالرز کے قرضے کا اندازہ لگایا تھا، اس میں اب تک صرف 4 ارب ڈالر وصول ہوئے ہیں، پاکستان کا مجموعی قرضہ 62ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے، گزشتہ ستمبر سے اب تک ہم نے اپنے قرضوں میں 12ہزار ارب کا اضافہ کیا ہے، موجودہ مالی سال میں قرضوں پر ادائیگی کیلئے ہمیں 4.7کھرب روپے کی ضرورت ہے، یہ حقائق ہماری ڈیفالٹ ہونے والی پریشانی کیلئے کافی ہیں، ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اب 8ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، مہنگائی میں 26 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، 38 فیصد پاکستانی غربت کا شکار ہیں اور مزید 13 فیصد لوگ غربت و افلاس کی دلدل میں گرنے والے ہیں،اس کا یہ مطلب ہے کہ 11کروڑ پاکستانی بد ترین افلاس کا شکار ہو جائیں گے۔
پاکستان میں کوئی بھی حکومت آئے معاشی حالات کا سنبھالنا ممکن نہیں رہا،بے رحمانہ معاشی بحران کا چکر ختم ہونے والا نہیں،پاکستان جس ہمہ گیر معاشی اور ادارہ جاتی بحران کی لپیٹ میں ہے اس کے حل کیلئے آسان اور سادہ طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شارٹ کٹ ہے،قرضوں پر پلنے والی قوم کا قرضوں کا راستہ بھی بند ہونے والا ہے، 5کھرب قرضوں کی ادائیگی کے بعد ہمارا قومی خزانہ خالی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دفاع، انتظامیہ اور ترقیاتی بجٹ کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے، ملک کے وسائل کا 10 فیصد تو سیلاب کی نذر ہو گیا، اب لگتا ہے کہ انقلاب نہیں طوائف الملوکی ہمارا مقدر بنے گی، بچنے کیلئے ہمیں بنیادی اور جو ہری فیصلے کرنے ہونگے یعنی ریاست اپنے پچاس فیصداخراجات کو کم کرے، دوسرا نصف معیشت جو نیٹ ٹیکس سے باہر ہے اس پر ٹیکس لگانا ہو گا، تیسرا سرکاری ادارے جو گھاٹے میں حا رہے ہیں ان سے جان خلاصی کروانی ہو گی، چوتھاامراء کی مراعات کو ختم کرنا ہوگا، چھٹاججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس کی تنخواہوں اور مراعات میں 70 فیصد کٹ لگانا ہو گا، قرضوں کے پھندے سے نکلنے کیلئے قرضوں کی بندش کرنا ہو گی، تمام تر غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرنا ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ منافع بخش منصوبوں کی داغ بیل ڈالنے کی ضرورت ہے، ملک میں ایسی سر مایہ کاری کی جائے جو ہماری برآمدات میں اضافہ کا سبب بنے اور ایسے عوامی ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پیداواری صلاحیت، پیشہ وارانہ مہارت،تعلیم و صحت اور انسانی اور معاشی سلامتی کے نظریے کو اپنائے جس کیلئے قیادت کا بالغ نظر ہونا ضروری ہے. موجودہ حالات کی موجودگی میں کسی معاشی اور سیاسی انقلاب کی توقع لگانا عبث ہے. موجودہ حالات لا ینحل ہیں بظاہر بحران کا کوئی پائیدار حل ممکن نظر نہیں رہا. اس ملک کے عوام کو بیدار ہونا ہوگا اپنے حقوق اور قوم و ملک کیلئے رجعت پسند اور ترقی دشمن قوتوں سے لڑنا ہوگا. علاقائی گروہی، صوبائی. لسانی تعصبات سے بالا تر ہوکر قیادتوں کو منتخب کرنا ہوگا. کفایت شعاری. افراط آبادی میں کمی. محنت و مسلسل کوشش کا جاری رکھنے کی ضرورت ہے. پاکستان کے عوام ہی پاکستان کا. مستقبل ہیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button