ColumnKashif Bashir Khan

سترسال کےنوجوان سے ملاقات .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

(گذشتہ سے پیوستہ)
عمران خان نے بتایا کہ جب میری حکومت بیرونی مداخلت کے ساتھ ختم کی گئی تو میں چونکہ ٹی وی کم ہی دیکھتا ہوں تو میری بیگم نے مجھے بتایا کہ پاکستان بھر میں عوام کی بہت بڑی تعداد گھروں سے باہر نکلی ہوئی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں عوام ملک کے قریباً ہر حصے سے بطور احتجاج باہر نکل آئے ہیں تو میں نے یہ مناظر دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا اقتدار ختم ہونے پر کرپشن اور محرومیوں کی ماری قوم کا باہر نکلنا قائد اعظم کے پاکستان کی تعبیر ہے اور مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ اب حقیقی تبدیلی آ کر رہے گی۔عمران خان نے مذاکرات کے بارےسوال کے جواب میں بتایا کہ فی الحال کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے اور مذاکرات کی دعوت پر میرا جواب یہی ہے کہ پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں پھر مذاکرات کریں گے۔عمران خان بار بار اس وفاقی حکومت جسے وہ کرپٹ مافیا کا ٹولہ قرار دے رہے تھے، کے ہاتھوں پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی اور اپنے اربوں روپے کے کرپشن کیسز ختم کروانے پر بہت غصہ میں نظر آئے۔میں نے ان سے سوال کیا کہ خان صاحب آپ نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں گئے ہوئے ہیں آپ کو سپریم کورٹ سے کیسے فیصلے کی امید ہے تو عمران خان صاحب کا جواب تھا کہ جس قسم کی ترامیم اس امپورٹڈ حکومت نے اپنے کھربوں روپے کی کرپشن ہضم کرنے کیلئے کی ہیں ان کی مثال دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی اور اس وقت صرف میں نہیں بلکہ پاکستان بھر سپریم کورٹ کی جانب نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ ملاقات میں عمران خان نے متعدد مرتبہ سوئٹزرلینڈ کا حوالہ دے کر کہا کہ جس ملک میں عوام کو انصاف ملتا ہو وہ مثالی ہوتا ہے۔عمران خان کے انصاف فراہمی یعنی Rule of Lawکے حوالے سے بہت سے تحفظات تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میری سیاسی جماعت کا منشور ہی انصاف کی فراہمی پر مبنی ہے۔صحافیوں کے ساتھ اس دور میں ظالمانہ اور
انتقامی سلوک پر عمران خان کو بڑی تشویش تھی اور میں نے انہیں نے ارشد شریف کے ظالمانہ قتل پر بہت دکھی دیکھا۔جب میں نے انہیں ان سے ملاقات سے پہلے اپنے اوپر ہراساں کرنے کی نامعلوم کوشش بارے بتایا تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ صحافی کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے اور انہوں نے مجھے سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر صحافی ساری زندگی سچ بولتا اور لکھتا رہاہو لیکن ایک دن بھی ظالم کاساتھ دے تو اس کی ساکھ پر ایسا داغ لگتا ہے جو پھر کبھی نہیں اترتا۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میں نے کبھی بھی اپنے خلاف تنقید کا برا نہیں منایا اور آج تک میں نے جب بھی میڈیا کا سامنا کیا کبھی بھی اپنے ساتھ کسی ایسے میڈیا منیجر کو نہیں بٹھایا جو صحافیوں کو کنٹرول کرتا ہو اور ان سے مخصوص سوالات کرواتا ہو۔خان صاحب دراصل ایک وکیل کوجو اینکر بن کربیٹھا ہوا تھا اور علیم خان کے چینل میں کام کرتا رہا کی، اس بات پر بھی جواب دے رہے تھے جو علیم خان کے چینل میں کام کرتے ہوئے عمران خان کے بیانئے اور سیاست پر بے جا تنقید کرتا رہا تھا اور اب ایک دوسرے چینل پر نوکری حاصل کرنے کے بعد اپنا موقف بدلنا چاہ رہا تھا اور عمران خان صاحب کی تعریفیں کررہا تھا اور عمران خان کے موجودہ بے مثال سیاسی قدو کاٹھ اور مقبولیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آپ کوان کے رجیم چینج اور بیرونی مداخلت کے بیانئے کا مخالف ظاہر کررہا تھا لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ عمران خان نے اپنی تعریفوں پر مبنی کلمات پر کوئی بھی خاص ریمارکس نہیں دیئے اور بالکل نارمل رہے۔ جب میں نے عمران خان صاحب سے یہ چبھتاہوا سوال کیا کہ اپنے دور حکومت میں آپ نے اپنی میڈیا ٹیم نہیں بنائی اور چند مخصوص صحافیوں نے آپ کے گرد گھیرا ڈالے رکھا اور ان ہی صحافیوں کی غالب اکثریت آج آپ کے خلاف محاذ بنائے بیٹھی کرپٹ ٹولے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو عمران خان کا جواب تھا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہم سے غلطیاں ہوئیں،تمام تر شدید مخالفت کے باوجود زیر عتاب ایک مقبول عام سیاسی رہنما کی جانب سے آہنی غلطیاں تسلیم کرنا میرے لیے خوش آئند تھا۔جب میں نے عمران خان کوان کے بیرونی مداخلت بارے تازہ بیان پر سوال کیا تو ان کا جواب و ہی تھا جو میں اپنے گزشتہ کالم’’منفی میڈیا وار فیر‘‘میں دو دن قبل لکھ چکا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت بیرونی ایجنڈے اور مدد سے ختم کی گئی اور اس کے ٹھوس اور ناقابل شواہد مقتدر حلقوں اور اداروں کے پاس موجود ہیں لیکن جب ہم نے آگے چلنا ہے اور ملک کے عوام بلکہ بچے بچے کو یقین ہو چکا کہ عمران خان کو بیرونی مداخلت کے ذریعے حکومت سے بیدخل کیا گیا تو پھر اس لکیر کو پیٹنے کی اب ضرورت نہیں رہی اور میرا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔حکومت میں ا ٓکر میری خارجہ پالیسی انشا اللہ آزاد ہو گی لیکن میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ نہ پاکستان کسی کی جنگ لڑے گا اور نہ ہی کسی سپر پاور سے ڈکٹیشن لے گا۔عمران خان نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ انشاللہ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے لیکن اپنی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ کئے بغیر۔آج جب قوم کو اپنی حقیقی آزادی کی قیمت اور اہمیت کا احساس ہو چکا ہے تو پھر ہم سب کو پاکستان کی حقیقی آزادی کی جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے وہاں موجود تمام صحافیوں سے اپیل کی کہ حقیقی آزادی اور کرپٹ مافیاز کے خلاف اس جنگ میں میرا ساتھ
دیں کیونکہ یہ جنگ میری نہیں پاکستان کے عوام کی ہے۔میں نے عمران خان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ قریباً سات ماہ کی حکومت کے بعد اسحاق ڈار نے روس سے تیل اور گیس خریدنے کا بیان دیا ہے تو عمران خان نے کہا کہ جو آفرز روسی صدر پوتن نے ہماری حکومت کو کروائی تھیں اگر ہماری حکومت بیرونی مداخلت پر ختم نہ کی جاتی تو آج پاکستان کی معیشت جو مارچ اپریل میں بہتری کی طرف گامزن تھی آج تباہ حال نہ ہوتی۔عالمی بدلتے حالات کے تناظر میں ہماری حکومت کو امریکی تسلط سے چھٹکارے کی حقیقی کوشش اور روس سے تجارتی تعلقات کرنے کے نتیجے میں ختم کیا گیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ آج جب ہمارے ڈیفالٹ کاخطرہ 75 فیصد سے بڑھ چکا ہے تو آپ سب مجھے جواب دیں کہ دنیا کا کون سا ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا اور اگر روس گیس اور تیل کی قیمتوں میں پاکستان کو رعایت دینا بھی چاہے تو نہیں دے پائے گا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور شہباز شریف سمیت حکومتی وزراء کی اکثریت کو تو دنیا جانتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی دولت لوٹنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔توشہ خانہ سےگھڑی لینے کے سکینڈل پر عمران خان برہم نظر آئے اور انہوں نے بتایا کہ اس خریداری میں قانونی و آئینی تقاضےپورے کئے گئے تھے اور الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں تمام متعلقہ ریکارڈ بروقت جمع کروایا گیا تھا۔اس سکینڈل کو اچھالنے میں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے گٹھ جوڑ کے علاؤہ کچھ زرخرید صحا فیوں کا کردار قابل شرم ہے۔عمران خان نے فرخ حبیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ آج ہی ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی وی چینل، اُس کے اینکر اور مبینہ جھوٹے خریدار کے خلاف دبئی، برطانیہ اور پاکستان میں عدالتی و قانونی کارروائی کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔اس بات کی تصدیق اس وقت ہو گئی جب ہم عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر نکل رہے تھے تو باہر میرا بیرسٹر علی ظفر صاحب سے نہ صرف سامنا ہوا بلکہ مصافحہ بھی ہوا۔عمران خان سے نشست کے دوران جس بات کی مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ تحریک انصاف کی تشکیل کے وقت کے آئی ایس ایف کے فرخ حبیب پر عمران خان کا اعتماد اور اپنے قریب رکھنا تھا اس کے علاؤہ حافظ فرحت اور دوسرے کچھ نظریاتی ورکر نوجوانوں کا عمران خان کے قریب ہونا اس بات کا غماز تھا کہ عمران خان اپنے نوجوان اور نظریاتی ورکرز کا آگے لانا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے نظریاتی ساتھی عمر چیمہ کو پہلے گورنر پنجاب بنایا اور اب وہ پنجاب حکومت میں اہمیت کی حامل وزارت داخلہ کے مشیر ہیں۔عمران خان نے اس نشست میں سابق وزیر اطلاعات کے اصولی موقف کو سراہا اور اس حقیقی آزادی کی جنگ میں ان کو اپنی ٹیم کا اہم رکن قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ چودھری فواد نے تمام تر دباؤ کے باوجود بہادری سے اس تمام عرصہ میں ہر قسم کی قوتوں کا مقابلہ کیا۔نشست میں بطور صحافی میری تو کوشش تھی کہ عمران خان سے جتنے زیادہ سوال ہو سکیں وہ عوام کی آگاہی کیلئے ضروری ہیں لیکن ایک دو ایسے حضرات بھی تھے جنہوں نے ذاتی باتوں میں کچھ وقت ضائع کر دیا لیکن پھر بھی داد عمران خان کو دینی چاہیے کہ جو بھی سوال میں نے کیا انہوں نے جواب تفصیل سے دیا اور داد تو فرخ حبیب کو بھی دینا بنتی ہے کہ انہوں نے نون لیگ کی طرح کسی بھی صحافی کو نہ تو پلانٹڈ سولات دیئے اور نہ ہی کسی بھی قسم کے سوالات پوچھنے پر مداخلت کی ۔کالم میں تنگی جگہ کے باعث قارئین کیلئے تشنگی تو رہ جائے گی لیکن یہ لکھنا ضروری ہے کہ جب الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے میں نے خان صاحب کو بتایا کہ شہباز شریف اورنواز شریف مختلف چینلز پر خود فون کر کے اپنے بندے چینلز پر لگواتا ہے تو عمران خان نے کہا کہ اسی طرح تو یہ مافیا اس ملک کے عوام کو گمراہ کر کے برسوں سے لوٹتے رہے لیکن آپ نے حق سچ کا ساتھ دینا ہے انشاللہ میں اس مافیا کے خلاف جو فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے اور قوم کو اس میں فتح دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button