ColumnJabaar Ch

رُول آف لاء، چند تجاویز .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

بہارہندوستان کی تیسری بڑی ریاست اور اس کی آبادی بارہ کروڑکے قریب ہے، اِس مشرقی ریاست کی سرحد نیپال سے ملتی ہے ۔بہارمیں غربت توتھی ہی لیکن امن وامان اور چوری چکاری کے حوالے سے بھی اس ریاست کافی برا حال تھا۔لالوپرساد یادیو طویل عرصے تک اس ریاست کے حکمران رہے۔ ایک وقت تھا کہ لالو اور بہارایک دوسرے کیلئے ایسے لازم و ملزوم تھے کہ کہاوت پورے ہندوستان میں مشہور تھی کہ ’’بہارمیں لالو جیسے سبزی میں آلو‘‘۔ ریاست میں جرائم کی شرح بھی ہندوستان کے بہت سے علاقوں سے کہیں زیادہ تھی۔دوہزارتیرہ چودہ کے بعد لالوکا زوال شروع ہوا۔وہ ریاست کے مشہورچارسکینڈل جسے’’ دانا گھوٹالا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس سکینڈل میں مجرم قراردیے گئے۔ انہیں سزا ہوئی اوروہ سیاست سے نااہل ہوگئے۔لالو کا سحرٹوٹا تو نتیش کماردوہزار پندرہ میں بہار کے نئے مکھے منتری منتخب ہوگئے ۔وہ اس وقت بھی بہار کے وزیراعلیٰ ہیں اور یہ ان کی دوسری ٹرم ہے۔ان کی حکومت کے بعد بہار میں امن وامان میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔
دوہزار سولہ میں نتیش کمار نے پاکستان کا دورہ کیا۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی تو سوال ہوا کہ انہوں نے بہارمیں جرائم کو کنٹرول کیسے کیاتو انہوں نے انتہائی سادہ اوراہم فارمولا بتادیا۔نتیش نے کہا کہ حکومت یا مکھ منتری خود لٹھ لیکرمجرموں کے پیچھے نہیں جاتابلکہ حکومت اور ریاست کا کام مجرموں میں قانون کا ڈرپیدا کرنا ہوتاہے۔ مجرموں کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ جرم کرنے کے بعد بچت نہیں ہوسکتی، جرم کی سزا لازمی مل کررہے گی اور سزادلوانے کیلئے حکومت اپنا کردار اداکرتی ہے۔قانون کا ڈر یا سزا کے لازمی ہونے کا تاثر جس معاشرے میں پیدا کردیا جائے اس معاشرے میں جرائم کی جڑیں اکھڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔جرائم پیشہ افراد کی اپنی دنیا ہوتی ہے، وہ بھلے انڈرگراؤنڈ ہوں لیکن قانون سے ہر وقت آگاہ اورہم کلام رہتے ہیں۔اپنے ساتھیوں کے پکڑے جانے اور قانون کے سلوک سے نہ صرف عام آدمی سے زیادہ آگاہ رہتے ہیں بلکہ اس کا اثر بھی بہت گہراہوتا ہے۔ اگر ان کو لگے کہ قانون بے رحم ہوگیا ہے اب معافی نہیں مل رہی کسی کو بھی تو یہ ان کیلئے واضح پیغام ہوتا ہے کہ جرائم چھوڑنے کا وقت آگیا ہے۔
ہمارے ہاں اس قانون کے ڈر کی کمی ہے، یہی جرائم اور جرم کرنے والوں کے اس معاشرے میں شتر بے مہار پھرنے ،لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں آزادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔یہاں یہ تاثر اتنا گہراہے کہ ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ کسی کو سزانہیں ملے گی ۔اس’’کچھ نہیں ہوگا‘‘تاثر نے ہمارے معاشرے کے بنیادی ’’کرافٹ‘‘میں سوراخ کردیے ہیں۔اس وقت ہم بہت سے جرائم کی لپیٹ میں ہیں، کرپشن اورلالچ بہت بڑامسئلہ ہے۔اس پر ہی سیاست ہورہی ہے اور اس پر ہی حکومت۔لیکن ایک اوربڑامسئلہ بے بنیاد الزامات اورعزتیں اچھالنے کا دھنداہے۔جس کا دل کرتا ہے دوسرے پرچوری چکاری اورکرپشن کا الزام لگادیتا ہے۔پیسوں پر سوشل میڈیاٹرول بھرتی کیے گئے ہیں ۔وجہ سب کو معلوم ہے کہ اس کی کوئی سزانہیں ملنی۔ہتک عزت کے دعوے عدالتوں کی فائلوں میں پڑے پڑے سڑ جائیں گے لیکن ہم اپنا نظام درست کرنے کے بجائے یہی مثالیں دیتے رہیں گے کہ برطانیہ میں ہتک عزت کے کیسوں کا یوں فیصلہ ہوتا ہے۔بڑے بڑے لوگ برطانیہ میں جاکرہتک عزت کے دعوے کرتے ہیں اور جیت بھی لیتے ہیں کیونکہ وہاں سسٹم اس گند کو کارپٹ کے نیچے ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔
آج کل توشہ خانہ کی ایک گھڑی سب کو گھڑی گھڑی ستارہی ہے۔عمران خان نے ایک ٹی وی چینل اور اینکرکے یہ معاملہ اٹھانے پراعلان کیا ہے کہ وہ برطانیہ اور امریکہ میں ہتک عزت کا کیس کریں گے۔ کیونکہ پاکستان میں ایسے کیسز کے فیصلے نہیں ہوتے اس لیے وہ پاکستان میں کیس نہیں کریں گے۔ ایک سابق وزیراعظم کے منہ سے ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں ایسے ریمارکس شرمندگی کے سوا اور کیا ہیں۔ یہ الگ بات کہ خان صاحب الزامات لگانے اور جھوٹ پر مبنی دعوے کرنے میں سب سے زیادہ آزاداوررواں خودہیں۔
پاکستان میں ہتک عزت کے نوٹسز کی ایک جھلک دیکھیں پھر میں تجاویز کا ذکرکرتا ہوں۔ دوہزار چودہ میں خواجہ آصف نے شوکت خانم کے خیرات کے پیسے ایک آف شور کمپنی میں انوسٹ کرنے اور پھرپیسہ ڈوب جانے کی ایک پریس کانفرنس کی تھی، عمران خان اس کو عدالت لے گئے تھے لیکن آج آٹھ سال بعد بھی معاملہ بے نتیجہ۔دوہزار سترہ میں عمران خان نے شہبازشریف پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں دس ارب روپے کی پیشکش کی تھی کہ وہ احتجاج سے پیچھے ہٹ جائیں۔یہ کیس عدالت میں ہے ۔اس کیس میں عمران خان جواب ہی نہیں دے رہے ۔دوہزار تیرہ کے الیکشن میں عمران خان نے نجم سیٹھی پر پیتیس پنکچرکا الزام لگایا،نجم سیٹھی نے مقدمہ کررکھا ہے لیکن بے نتیجہ۔ جنوری دوہزاربیس میں جہانگیرترین نے چینی سکینڈل پر پروگرام کرنے پرشاہزیب خانزادہ کوقانونی نوٹس بھجوایاتیسراسال شروع ہے۔اگست دو ہزاربیس کو عمران ریاض نے عثمان بزدارپررنگ روڈ میں بدعنوانی کاالزام لگایا،کوئی نتیجہ نہیں۔ دوہزاربیس میں ہی تجزیہ کارارشاد بھٹی نے عثمان بزدار کی دوسری شادی کی خبر دی اس پرعثمان بزدار نے ہتک عزت کا نوٹس بھیجا۔دوہزاراکیس میں براڈشیٹ کا گھوٹالا سامنے آیا تومریم اورنگزیب اورعظمیٰ بخاری نے شہزاد اکبرپرالزامات عائد کیے۔ اس پر شہزاد اکبر نے دونوں خواتین کو ہتک عزت کے نوٹسز بھجوائے سال اس کو بھی گزرگیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔برطانوی اخبار ڈیلی میل نے شہباز شریف کیخلاف خبر شائع کی تو شہباز شریف نے اس پرلندن میں مقدمہ کیا۔یہ مقدمہ آگے بڑھ رہا ہے اور جواب میں تاخیرپرلندن کی عدالت نے شہبازشریف پر قانونی فیس بطور جرمانہ کردیا ہے۔اب یہ فرق ہے پاکستان اور برطانیہ میں ۔اس فرق سے کوئی انکار ممکن نہیں۔یہاں عزتیں اچھالنا بہت آسان ہے کیونکہ ہر الزام لگانے والے کو یقین ہے کہ کیس کا کوئی فیصلہ ہی نہیں ہوگا۔اس فیصلہ نہ ہونے کے تاثر نے معاشرے میں جھوٹ اور الزامات کی کھیتی کو اتنا ہرابھراکردیا ہے کہ ہرکوئی نفرت اورتقسیم کا پھل کھارہا ہے، اور یہ پگڑی اچھال مہم نے معاشرے کی فضا گندگی سے بھردی ہے۔سوشل میڈیا اس جنگ میں سب سے بڑا ہتھیاربن کر سامنے آیا ہے اورعام لوگ نہیں بلکہ لیڈراس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس کام کو ختم کرنے کیلئے بہار کے مکھ منتری نتیش کمار کا فارمولہ ہی کام کرے گا۔ایساکام کرنے والوں کے دل میں قانون اور فیصلہ سازی کا ڈرپیدا کرنا ضروری ہے۔عدالتیں ان مقدمات کے خصوصی طورپر فیصلے کرنا شروع کردیں ۔اس کیلئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جس طرح اے پی ایس حملے کے بعد دہشتگردی کے خاتمے کیلئے خصوصی فوجی عدالتیں قائم کرکے اس فتنے کو جڑسے اکھاڑاگیا تھا اسی طرز پرخصوصی عدالتیں (فوجی نہیں)قائم کردی جائیں۔ یہ عدالتیں’’ انسداد عزت کورٹس‘‘ کے نام سے قائم جاسکتی ہیں۔ملک بھر میں آٹھ دس عدالتیں کافی ہوں، ان کے ججز کو یہ مینڈیٹ دیا جائے کہ وہ ایک ماہ کے اندر ایک مقدمے کا فیصلہ سنانے کے پابند ہوں۔کیس کا التوامانگنے اورجواب داخل نہ کرنے والے فریق کو برطانیہ کی طرزپر بھاری جرمانہ کیا جائے اورکیس کی روزانہ کی بنیاد پر سنوائی ہو۔ابتدا کیلئے جو چند کیسز میں نے اوپر درج کیے ہیں ان کو لے لیا جائے۔میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر ان مقدمات کا نتیجہ ایک ماہ میں نکال دیاجائے اور سلسلہ مستقل بنیادوں پرجاری کردیا جائے ۔ عدالت الزام لگانے والے سے سیدھا ثبوت مانگے، پیش نہ کرنے کی صورت میں اس کو سزاسنادے۔ثبوت دے تو دعویٰ خارج کرکے وکیل کی فیس بھی دعویٰ کرنے والے سے لی جائے۔ صرف چند ماہ کی پریکٹس سے اس معاشرے میں پگڑی اچھال گروپ اپنی پگڑیاں سنبھالنے کے مشن پرنہ نکل جائے توپھرکہنا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button