Editorial

آئینی معاملات پر ڈیڈ لاک ختم کیا جائے

 

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری سے متعلق وزیراعظم کی ایڈوائس آئی تو اس پر عمل کریں گے اور تحریک انصاف کے ترجمان کے مطابق آرمی چیف کی تقرری پر صدر مملکت عارف علوی کے اقدامات کو عمران خان کی حمایت حاصل ہوگی۔ذرائع ابلاغ سے منتخبہ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے بڑی تقرری کے معاملے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے رابطہ کیا اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے صدر عارف علوی سے ملاقات میں آئینی امور پر ڈیڈلاک ختم کرنے کا پیغام پہنچایا۔اسی اہم معاملے وزیراعظم ہائوس میں مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اہم ترین تقرری اور ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر حکومت و اتحادی جماعتوں کی ابتدائی مشاورت مکمل ہوئی ۔ ایک اور اطلاعاتی ذریعے سے صدر مملکت عارف علوی کا یہ کہنا معلوم ہوا ہے کہ آرمی چیف کے بارے میں وزیراعظم کی ایڈوائس آئی تو اس پر عمل کریںگے اور صدر مملکت نے یہ بھی کہا ہے کہ میرے پاس وزیراعظم کی ایڈوائس روکنے کا قانونی اختیار نہیں لہٰذا مملکت کے معاملات میں کبھی رخنہ نہیں ڈالا۔ پس متذکرہ صورت حال سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان جو بھی تجویز بھیجیں گے صدر مملکت اِس پر عمل کریں گے اور عمران خان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ تقرری میرٹ پر ہونی چاہیے لہٰذا اِس معاملے پر کسی کو ابہام نہیںکہ پاک فوج میں جتنا میرٹ اورڈسپلن ہے اِس کی مثال دیگر اداروں میں بہت کم ملتی ہے، پھر یہ سیاسی معاملہ بھی نہیںجس پر سبھی سیاست کریں مگر ہر سطح پر یہی وطیرہ رہا ہے کہ ہم بلالحاظ و تمیز ہر معاملے پر بولنا اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں ۔ وطن عزیز کے اِس اہم عہدے پر تعیناتی کے لیے حالیہ دنوں میں سیاسی حلقوں میں تسلسل کے ساتھ بحث جاری تھی مگر اِس بحث کا آغاز کئی سال پہلے ہوچکا تھا کیونکہ ہماری اجتماعی عادت رہی ہے کہ ہم اُن معاملات پر بھی ذہن و فکر کی جودت دکھانے کی سعی کرتے ہیں جو ہماراکام نہیں ہوتا اور اُس کے لیے مطلوبہ اہلیت بھی ہمارے پاس نہیں ہوتی، چونکہ مقصد تبصرے کے ذریعے خودنمائی ہوتا ہے لہٰذا کی جاتی ہے۔ کائنات کی ہر شے رب کائنات کے بنائے نظام کے تحت چل رہی ہے اور جب انسان نے اپنی زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانے کی سعی کی تو سب سے پہلے نظام کی تشکیل کو ضروری سمجھا جس میں صدیوں سے اصلاحات ہوتی آرہی ہیں اور یقیناً آئندہ بھی ہوتی رہیں گی مگر جہاں اِس عمل کے دوران غلطی سرزد ہوتی ہے ، فوراً اِس کی تصحیح کرکے آگے بڑھاجاتا ہے اور ایسا صرف وہی کرتے ہیں جنہیں اقوام عالم میں ترقی یافتہ اور مہذب سمجھاجاتا ہے، مگر جہاں غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اُس پر ڈٹ جانے کی روش اختیار کی جاتی ہے وہ معاشرہ ترقی یافتہ اور مہذب اقوام سے پیچھے رہ جاتا ہے، چونکہ اصلاحات کا اختیار ہمارے یہاں جن کو حاصل رہا ہے وہ ایک دوسرے کو زیر کرنے میں ہمیشہ مشغول رہے ہیں یا پھر ایک دوسرے کی قابلیت کو متنازعہ قرار دیتے رہے ہیں لہٰذا نتیجے میں ہم ترقی یافتہ ہوئے نہ ہی مہذب قوم کہلائے کیونکہ اِس کج بحث نے وقت اور مواقع دونوں کو ضائع کیا اور اِس لایعنی بحث کے نتائج آج ملک و قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، ہمارے یہاں جمہوریت تو ہے لیکن جمہوری اقدار کا قحط ہے، آئین تو ہے لیکن پاسداری کا فقدان ہے، قانون تو ہے لیکن پرواہ صرف بے اختیار اور لاچار کرتے ہیں وگرنہ شاید اشرافیہ کی طرح وہ بھی اِسی روش کا مظاہرہ کریں، پس لاحاصل کج بحثی اور بے مقصد کے کاموں میں صرف سیاسی قیادت ہی نہیں الجھی بلکہ عامۃ الناس بھی باقاعدگی سے اُن کی تقلید کرتے معاشرے کے حُسن اور اقدار کو ملیا میٹ کررہے ہیں، چونکہ مقصد رہبر کی پیروی ہے پس اُسی نقش قدم پر چلنا بھی فرض سمجھا جاتا ہے اور جنہوں نے روکنا ہے وہ اپنی تقلید پر پھولے نہیں سماتے۔ ملک و قوم ترجیحات سے باہر نکل جانا اسی روش کا نتیجہ ہے، خود کو نظام اور ریاست کے لیے ناگزیر سمجھ لینا پہلے بھی قوموں کے لیے تباہ کن رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا، ہمیشہ ریاست اور نظام ناگزیر ہوتے ہیں، ریاست ہوگی تو نظام ہوگا اور جب نظام ہوگا تبھی ہر شے ربط سے چلے گی اور سبھی اپنا اپنا کام کریں گے مگر جب ہم اپنی ذمہ داری اور کام کی انجام دہی کی بجائے اپنی دسترس سے باہر کے کاموںپر ہاتھ ڈالیں گے تو ہماری اہلیت پر بھی سوال اٹھیں گے۔ ہم جمہوریت کے ابتدائی مرحلے سے گذر رہے ہیں مگر افسوس کہ ہم ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی جمہوریت اور اُن کے رویوں کو اپنانے کی بجائے جمہوریت کے نام پر بسا اوقات غیر جمہوری کام بھی کرجاتے ہیں اور غیر جمہوری رویوں سے سیاسی ماحول کو بھی خراب کردیتے ہیں۔ آج سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام کی وجوہات یہی مسائل ہیں جن کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم دوسرے کے مینڈیٹ، رائے اور کام کو متنازع بنانے کے لیے ہر حد تک پہنچنا لازم سمجھتے ہیںحالانکہ نظام جتنا سادہ اور سہل ہوگا اِس پر عمل درآمد اتنا ہی آسان اور نتیجہ سود مند ہوگامگر ہمیں کون سمجھائے کہ ہم ہر ادارے اور ہر شخصیت کو متنازع بناچکے ہیں حالانکہ اُن کی ذمہ داری کا تعین آئین میں واضح طور پر ہوچکا ہے پھربوقت ضرورت کون باہمی تلخیوں اور معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرائے گا؟ پس ہمیں نظام کی تقویت کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں اور حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں ہمیں نظام کو مضبوط کرنے کے لیےکاوشیں کرنی چاہئیںکیونکہ نظام جتنا مضبوط ہوگا ہمیں اتنی آسانیاں میسر ہوں گی اورکھینچاتانی میں ضائع ہونے والا وقت ملک و قوم کی بھلائی کے لیے صرف ہوگا، وگرنہ جو لایعنی مشق جاری ہے اِس کا نتیجہ صرف اور صرف صفر ہے، نظام کو اپنا تابع کرنے کی بجائے ہم سب نظام کے تابع ہوں گی تو ہی ملک اور قوم آگے بڑھے گا کیونکہ ماضی کی غلطیوں کی گردان ہی کافی نہیں ان سے سیکھنا بھی مقصود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button