ColumnKashif Bashir Khan

ستر سال کے نوجوان سے ملاقات! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

منگل کی رات مجھے سابق وزیر مملکت فرخ حبیب کاوٹس ایپ پر میسج موصول ہوا کہ کل آپ کی عمران خان سے دوپہر دو بجے بجے ملاقات طے ہے۔ چونکہ میسج رات کو ساڑھے گیارہ بجے کے قریب آیا تھا تو میں وہ دیکھ نہ سکا اوراگلے دن میں نے جب وہ میسج پڑھا تو اس وقت دن کے قریباً ساڑھے گیارہ بج چکے تھے اور اسی دن چند نا معلوم افراد نے صبح صبح مجھے گھر کے باہرہراساں کرنے کی کوشش کی تھی تو میں نے فوراً سابق وزیر مملکت فرخ حبیب کو فون کیا اور اگلے دن ملاقات کیلئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ کل کا پتا نہیں بس آپ آج ہی دو بجے پہنچیں۔ میں زمان پارک پہنچا تو باہر سخت ترین سکیورٹی میں میلے کا سماں تھا۔تھوڑی دیر میں سابق وفاقی وزیر مملکت فرخ حبیب بھی چند اور صحافیوں کے ساتھ پہنچ گئے جن میں سے اکثریت کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے تھا۔عمران خان کے ڈرائنگ روم میں پہنچ کر ہم قریباً 6 لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور عمران خان کا انتظار ہونے لگا۔اتنے میں تحریک انصاف کے پرانے اور نوجوان رہنما حافظ فرحت بھی وہاں ہی آگئے اور مجھے بہت پرتپاک طریقے سے ملے۔میں سوچ رہا تھا کہ عمران خان صاحب ویل چیئر پر کمرے میں تشریف لائیں گے لیکن تھوڑی ہی دیر میں عمران خان واکر پکڑے ایک ٹانگ پر زور ڈالتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھ کر اپنی زخمی ٹانگ سامنے رکھے سٹول پر رکھ دی۔عمران خان صاحب جب واکرکے سہارے کمرے میں داخل ہوئے تو شدید تکلیف ان کے چہرے کے تاثرات سے نمایاں تھی۔بیٹھتے ہی فرخ حبیب نے تمام صحافیوں
کا ان سے فرداً فرداً تعارف کروایا۔عمران خان نے سب کو فرداً فرداً منہ کے اشارے سے سلام کیا اور پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی عمران خان نے سب کو بتایا کہ پاکستان کیلئے بری خبر یہ ہے کہ آج پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے 75فیصد امکانات بڑھ گئے ہیں اور پاکستان بہت مشکل میں آ چکا ہے جبکہ حکمران’’بڑی تعیناتی‘‘ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان صاحب نے بتایا کہ جب ہماری حکومت کو رجیم چینج کے تحت تبدیل کیا جا رہا تھا تو میں نے مقتدر حلقوں کو بتا دیا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا تو ملک کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔میں نے جب ان کو بتایا کہ پانچ سال قبل آپ نے مختلف جلسوں میں میرے پروگرام کا وہ کلپ چلایا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نواز شریف نے 1989 میں اسامہ بن لادن سے ڈیڑھ ارب روپیہ حاصل کیا تھا تو میں حیران رہ گیا، جب انہوں نے مجھے کہا کہ جی مجھے یاد ہے۔جب میں نےسوال کیا کہ پونے چار سال کے دور حکومت بالخصوص پنجاب میں اپوزیشن جو تیس سال سے ملک پر اپنے پنجے گاڑے بیٹھی تھی، کو ڈیل
کرنے کیلئے ایک مضبوط اور تگڑا وزیر اعلیٰ ہوناچاہیے تھا جو ماضی میں مافیا کی طرح برسر اقتدار رہنے والے سیاسی مافیا کے ساتھ سختی سے پیش آتا تو عمران خان کا جواب تھا کہ جب مجھے حکومت ملی تو اول تو ہمارے پاس اکثریت نہیں تھی بلکہ ہماری اکثریت کو کم کرکے دوسروں کو طاقتور کیا گیا تھا، دوسرا مجھ پر دباؤ تھا کہ علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے لیکن جب میرے پاس رپورٹس آئیں کہ علیم خان نے150 ارب کی دریا اور محکمہ آبپاشی کی زمینیں قبضہ کر کے اپنی سوسائٹی میں شامل کر لی ہیں تو میں نے علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنوانے والوںکو انکار کردیا اور ویسے بھی کم اکثریت کی وجہ سے اتحادی بنائی جانے والی قاف لیگ اور تحریک انصاف کے اندر بھی علیم خان کے وزیر اعلیٰ بننے پر شدید اعتراضات تھے۔عمران خان صاحب نے مجھے بتایا کہ وزارت اعلیٰ کیلئے تین دھڑے کوشاں تھے اور’’ان‘‘کا ووٹ اور دباؤ علیم خان کی حمایت کے تناظرمیں بہت زیادہ تھا،لیکن پھر میں نے عثمان بزدار کا انتخاب صرف اس لیے کیا کہ وہ کم از کم وفادار تو رہے گا،یہ کہہ کر عمران خان صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ عثمان بزدار کو جب کہا اس نے استعفیٰ دے دیا اور شریف برادران کی بڑی بڑی آفرز بھی ٹھکرا دیں۔میرے پاس خان صاحب کے اس سوال کو جواب ہاں کے علاؤہ کچھ بھی نہیں تھا۔عمران خان صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ آج سات ماہ کے بعد بھی جیسے مجھ پر ان کو کوئی کرپشن نہیں ملی ویسے ہی عثمان بزدار کے
خلاف بھی کوئی کرپشن تمام اداروں کو نہیں مل سکی۔پھر ایک سوال کے جواب میں خان صاحب نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور انہوں نے اپنے اوپر حملے کی ایف آئی آر حسب منشا نہ ہونے میں چودھری پرویز الٰہی کو بے قصور بتایا اور کہا کہ چودھری پرویز الٰہی ہر طریقے سے ہمارے ساتھ ہیں اور ان پر مجھے کوئی گلہ نہیں ہے۔عمران خان نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ پولیس افسران ہاتھ جوڑتے تھے کہ ہمیں کہیں اور سے احکامات آ رہے ہیں ہم مطلوبہ ایف آئی آر نہ کاٹنے پر مجبور ہیں۔جب میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ یہاں مغربی ڈیموکریسی کے حوالے دیتے ہیں جبکہ یہاں پر وہ جمہوریت سرے سے موجود ہی نہیں تو انہوں نے سابق وزیر مملکت فرخ حبیب کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ میں بھی ان سے یہی کہتا تھا لیکن یہ لوگ جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہے جس کا فائدہ سابق مافیا حکمران اور سیاستدان اٹھاتے رہے۔ عمران خان نے میری اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان میں جو نظام ہے وہ جمہوریت ہرگز نہیں ہے۔عمران خان اس ڈیڑھ گھنٹے پر محیط صحافیوں سے گفتگو کے سیشن میں گو بہت تکلیف میں تھے اور بار بار اپنی زخمی ٹانگ کو کبھی فرش پر اور کبھی پاس رکھے سٹول پر رکھ رہے تھے لیکن میری ایک بات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پولیس اور بیوروکریسی میں شامل افسران کی اکثریت سابق کرپٹ حکمرانوں کی حمایتی اور زرخرید تھی، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان سے بھی بہت غلطیاں ہوئیں اور ان شا اللہ اب حکومت میں آ کر وہ غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔اس سیشن میں عمران خان کا عزم اور حوصلہ بہت بلند تھا اور جو بھی سوال میں نے ان سے پوچھا انہوں نے اس کا تفصیلی جواب دیا اور ان کے ہر جواب میں سوال پوچھنے والے کی تسلی تھی۔ایک بات جو میں نے بطور صحافی نوٹ کی وہ پاک فوج اور پاک فوج کے جرنیلوں کیلئے کسی بھی قسم کی نا مناسب گفتگو کا استعمال نہ کرنا تھا اور انہوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کا بارہا اعادہ کیا کہ آرمی چیف کوئی بھی بن جائے انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا اور ان کا اعتراض صرف اور صرف یہ تھا اور ہے کہ دنیا کی بہادر ترین فوج کے سپہ سالار اعظم کا انتخاب ایک ایسا وزیر اعظم کر رہا ہے جو کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث ہے اور وہ اس حساس تعیناتی کیلئے ایک ایسے شخص(نواز شریف)سے مشورہ کر رہا ہے جو مفرور اور پاکستانی عدالتوں سے بھاگا ہوا ہے۔کالم میں جگہ کی تنگی کے باعث عمران خان سے میڈیا کے کردار،لانگ مارچ کے مستقبل،پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال، روس سے تیل کی خریداری کے علاوہ اپنی جان کو درپیش سنگین خطرات،توشہ خانے کی حقیقت اور عدالتوں میں جانے کے اعلان کے علاوہ اپنی حکومت کی برخاستگی کے فوری بعد عوام کے والہانہ باہر نکلنے اور بیرونی مداخلت پر تازہ بیان کی حقیقت پر بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا جو کل کے کالم میں قارئین کے ساتھ شیئرکروں گا۔ 70 سال کے پرعزم جوان جذبوں والے پاکستان کے واحد سیاسی ہیرو سے ہوئی باقی گفتگو کیلئے میرا کل کاکالم ضرور پڑھیں ۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button