ColumnImtiaz Ahmad Shad

تباہی کا ذمہ دار کون؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک صرف چار سو خاندان اس ملک کی سیاست پر راج کرتے آئے ہیں۔ ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد قریباً ایک ہزار بنتی ہے۔آج تک یہی بے رحم ایلیٹ کلاس اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سسکتے، بلکتے غریب عوام کو خوشحال بنانے، انہیں تین وقت کی روٹی دینے، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اور صاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہے۔پاکستان میں بدترین فوجی آمریت ہو یا جمہوریت، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر قاف لیگ کی، اسمبلیوں تک نوے فیصد انہی ایک ہزار خاندانوں کے جاگیردار، زمیندار، صنعت کار اور قبائلی سردار پہنچتے ہیں۔اس وقت بیشتر سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں۔ ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں کے تمام تر فیصلے صرف چند لیڈر آمرانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ایک طرف عشروں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈر ہیں اور دوسری طرف ان کی پیروی کرنے والے نسلی غلام۔پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک قریباً ان ایک ہزار خاندانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی مفادات، اپنے رشتہ داروں، اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ ایک پلڑے میں پاکستان کے نوے فیصد قانون سازوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ذاتی لینڈ کروزرز، محل نما بنگلوں، زمینوں اور جائیدادوں کو رکھیں اور دوسرے میں پاکستان کے دو سو ملین سے زائد عوام کو ملنے والی سہولیات کو ۔ آپ کو فرق سے پتا چل جائے گا کہ قوم یا عوام کے مفاد میں انہوں نے کس قدر ’’جانفشانی‘‘ سے کام کیا ہے۔اپنے ذاتی مفادات کیلئے یہ خاندانی سیاستدان کسی بھی جماعت کو چھوڑ سکتے ہیں اور کسی بھی نئے اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان خاندانی سیاستدانوں کو نہ تو نظریات اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں سے کوئی دلچسپی ہے۔ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی تمام تر ہمدردیاں متوقع مالی فوائد، ممکنہ وزارتوں، عہدوں، اقتدار اور طاقت کے ساتھ نتھی ہیں۔ یہ لوازمات جو بھی فراہم کرے گا، چاہے وہ ڈکٹیٹر ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا کسی بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما، ان کی وفاداریاں انہی کے ساتھ ہوں گی۔ یہ نعرہ ہر مرتبہ جمہور اور جمہوریت کا لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر جمہوریت اور جمہوری اقدار ان کے جوتے کی نوک پر ہیں۔ایک طرف ایک غریب ووٹر کی بیٹی ہے، جسے زچگی کے وقت مناسب سہولیات نہیں ملتیں اور وہ جان کی بازی ہار جاتی ہے، دوسری طرف ایک سیاستدان کی بیٹی ہے، جس کے ناک کے بیوٹی آپریشن کا خرچ بھی حکومت اٹھاتی ہے۔ ایک طرف ایک ووٹر کی ٹیچر بیٹی ہے، جو کچے پکے راستوں کی دھول پھانکتے ہوئے عمر گزار دیتی ہے۔
دوسری طرف ان قانون سازوں کی وہ بیگمات، بیٹیاں، بھانجیاں اور بھتیجیاں ہیں، جن کی شاپنگ کیلئے پٹرول تک کسی بیوہ استانی کی تنخواہ کے ٹیکس سے آتا ہے۔ایک طرف سخت گرمی اور پسینے کی بدبو میں کام کرنے والے مزدوروں کے وہ بچے ہیں، جن کے مقدر میں جعلی ادویات لکھ دی گئی ہیں تو دوسری طرف ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی وہ کرپٹ اشرافیہ ہے، جس کیلئے سر درد کی دوا بھی بیرون ملک سے آتی ہے اور ان کے گھوڑوں کے علاج کیلئے بھی اسپیشلسٹ موجود ہیں۔ ایک طرف غریب کے پسینے سے چلنے والی موٹے ٹائروں والی سرکاری گاڑیاں ہیں، جو سیاستدانوں کے بچوں کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر ایئر کنڈیشنڈ سکولوں تک چھوڑتی ہیں، دوسری طرف وہ بچے ہیں جو پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں بسوں اور ویگنوں سے لٹک کر سرکاری سکولوں تک پہنچتے ہیں۔اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جاگیردار، یہ وڈیرے، یہ صنعت کاردوبارہ اقتدار میں آکر اپنے عشروں کے مفاد پرستانہ کردار کو بدل ڈالیں گے تو یہ صرف خام خیالی ہے، دیوانے کا خواب ہے۔ یہ ایک ہزار خاندانوں کے چشم و چراغ، یہ وڈیرے، یہ جاگیردارجس بھی جماعت یا جس بھی لیڈر کی جھولی میں بیٹھیں گے، خیال اپنے مفادات کا ہی رکھیں گے۔چوروں اور ڈاکوؤں کی کم از کم یہ خوبی تو ہوتی ہے کہ وہ منافق نہیں ہوتے۔ آدمی دیکھتے ہی یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ لوٹنے آئے ہیں۔ ٹھگوں یا نوسر بازوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ پہلے بندے کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، اس کے دل میں یقین پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں۔ لیکن لٹ جانے کے بعد انسان کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہو چکا ہے۔ آئندہ انتخابات سے پہلے ایک مرتبہ پھر یہ بازی گر میدان میں اترنے کیلئے پر تول رہے ہیں، ایک مرتبہ پھر ہسپتالوں میں لاعلاج مرنے والوں کا دکھ ان کو ستائے جا رہا ہے، ایک مرتبہ پھر غریب کی بیٹی کا جہیز نہ ہونے کا غم ان کی ’راتوں کی نیندیں اڑا چکا‘ ہے۔یہ شعبدہ باز ماضی کی طرح پھر وہی پرانے سبز باغ دکھائیں گے۔ ایک مرتبہ پھر یہ کہہ رہے ہوں گے کہ سب کونوکریاں ملیں گی، نئی سڑکوں کے جال بچھ جائیں گے، ہر دیہات میں گیس پہنچے گی۔
جاگیر دار اناج اگانے والے بھوکے پیاسے کسانوں کی اولاد کو ایک مرتبہ پھر بریانی کی پلیٹوں کا جھانسہ دیا جائے گا۔ دوائیاں سستی اور نئے ہسپتال بنانے کے خواب ایک مرتبہ پھر دکھائے جا ئیں گے۔ وڈیروں کے ہاتھ غریب کے ’’ناپاک‘‘ ہاتھوں کو پھر چُو ما جائے گا۔ مزدور کے پسینے کی بُو پھر چند لمحات کیلئے صاحب کے گلے پر لگے پرفیوم سے مدھم پڑ رہی ہو گی ۔ پھر غریب اپنے بچے کو افسر بنتا دیکھ رہا ہو گا اور ایک مرتبہ پھر کسانوں کی آنکھوں میں کھادیں سستی اور گندم کے ریٹ مناسب ملنے کی اُمیدیں جاگنے لگیں گی۔لیکن پاکستان کے نسل در نسل دھوکا کھانے والے عوام کو اس دفعہ ہوش سے کام لینا ہو گا۔ یہ سیاستدان ہرگز نہیں، یہ نوسر باز اور ٹھگ بلکہ یہ بنارسی ٹھگ ہیں۔برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ سے ورثے میں ملنے والی پاکستان کی بیوروکریسی بھی ان ٹھگوں سے اتحاد کر چکی ہے، جو خود کو عوام کی خدمتگار کی بجائے ان کا مالک تصور کرتی ہے۔ تھانوں سے لے کر شہری انتظامیہ کے تمام دفاتر تک ان نوسر بازوں کا سکہ چلتا ہے۔سچ پوچھئے تو پاکستانی عوام، فوج، سیاستدانوں اور عدلیہ کے درمیان وہ فٹ بال بن چکے ہیں، جسے ہر کوئی ٹھوکریں مار رہا ہے۔ اور دوسری طرف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بھی اسی وقت بلند ہوتا ہے، جب جوتا اپنے سر پر پڑتا ہے۔ ورنہ عوام کون اور یہ ووٹ اور ووٹر کون؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ طاقتور حلقوں کو بھی شاید کرپٹ سیاستدان ہی راس ہیں کیوں کہ وہ سر اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے ۔رہی بات انصاف کے اداروں کی تو ہمارے سامنے ہے۔انصاف، جمہوریت، قانون اور اصولوں کی جنگ ان سیاستدانوں کو بس اسی وقت یاد آتی ہے،جب ان کے اپنے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ عوام کا درد شاید کسی کو معلوم نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button