Columnمحمد مبشر انوار

منصوبے کے مطابق۔ ۔۔ مبشر انوار

محمد مبشر انوار

تخت گرانے کا کام زمانہ قدیم سے جاری ہے اور ہمیشہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق، طاقتور کمزوروں سے اقتدار چھین لیتے ہیں ،کبھی یہ تبدیلی بیرونی محرکات کے بغیر ،اندرونی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے اور کبھی یہ تبدیلی بیرونی محرکات و اندرونی ریشہ دوانیوں سے معرکہ آرا ہوتی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری رسہ کشی کا منظر دیکھنا ہو تو پاکستان کا ابتدائی دوراس کی مثال ہے ،بیرونی ریشہ دوانیوں کا اندرونی ملی بھگت کے ساتھ کا اثر دیکھنا ہو تو 1971اور 1977اس کی مثالیں ہیں کہ کیسے وطن عزیز میں تخت گرائے گئے اور کس طرح نافرمانوں کو سزائیں دی گئی۔بالعموم بیرونی و اندرونی ملی بھگت میں فریقین کے مفادات واضح دکھائی دیتے ہیں کہ کیک کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہر فریق اپنا حصہ بقدر جثہ لینا نہیں بھولتا اور نہ ہی اس کھیل میں ایسی بے ایمانی چل سکتی ہے کہ معاہدے کے مطابق حصہ نہ ملے۔ اپریل 2022میں تخت گراتے و قت یہ پختہ خیال تھا کہ عمران خان عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں ،لہٰذا اس وقت انہیں حکومت سے نکالا جائے تو یہ خطرناک ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی عوامی حمایت ان کو میسر ہو گی یا زیادہ سے زیادہ ماضی کی طرح چار دن اچھل کود ہو گی اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا لیکن شو مئی قسمت کہ عمران خان کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے،جو اقتدار کے کھیل کھیلنے والوں کیلئے بظاہر پریشانی کا باعث دکھائی دیتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔عمران خان کی حکومت گرانے والوں نے بھی یقینی طور پر اس کھیل کے کچھ اصول طے کئے ہوں گے کہ کس طرح اقتدارکے حصے بخرے ہوں گے،کس کو کیا ملے گا اور کس نے کیا کردار ادا کرنا ہوگا؟یہ سب باتیں طے کرنے کے بعد ہی یقینی طور پر پی ڈی ایم اقتدار میں آئی ہو گی ،جو وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے اور پی ڈی ایم حکومت تمام تر دباؤ کے باوجود ایک مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ چاہے جو بھی ہوجائے، قبل ازوقت انتخابات ممکن نہیں لہٰذا عمران خان کو انتخابات کیلئے معین وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔شنید تو یہ بھی ہے کہ کئی ایک مواقع پر موجودہ حکومت نے اقتدار کو لات مارنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن ہر مرتبہ کسی نہ کسی حصہ دار نے حکومت کو روک لیا کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے لہٰذا آپ سکون کے ساتھ مسند اقتدار پر براجمان رہیں،اب یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ یہ اطمینان فراہم کرنے والے کون ہیں؟
پاکستان کی اہم ترین غیر سیاسی شخصیت کا عمل دخل حکومت میں کس قدر ہوتا ہے،اس سے کوئی ذی فہم انکار نہیں کر سکتا ،خواہ اس اہم ترین شخصیت کی جانب سے جتنا بھی غیر سیاسی ہونے پر اصرار کیا جائے، اس کی حیثیت اتنی سی ہے کہ ہرچند کہیں نہیں ہے لیکن ہے والی بات ہے۔عمران خان اپنی حکومت کے دوران بہت واضح طور پر کہا کرتے تھے کہ ان کی حکومت اور ادارہ ایک پیج پر ہیں لہٰذا حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور اسی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے عمران خان کو اس محاذ سے بہت لاپرواہ کر رکھا تھا لیکن جب قیامت ٹوٹنے کے آثار نمودار ہوئے تو عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے اہم ترین شخصیت کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہی تھا کہ حکومتی معاملات چلنے دیں اور اگر معاملہ فقط توسیع کا ہے تو حکومت خواہش کے مطابق توسیع دینے کو تیار ہے لیکن اس وقت تک عمران خان کی توقعات کے برعکس اقتدار بانٹنے والوں کو متبادل مل چکا تھا لہٰذا عمران خان کی اس پیشکش کو درخو اعتنا نہ سمجھا گیا۔ بہرکیف اقتدار کی غلام گردشوں میں ایسی کہانیاں بالعموم دہرائی جاتی رہتی ہیں بالخصوص اس وقت جب حاکم وقت ایک مخصوص حصہ سے صرف نظر کرے، اعراض برتے یا ضرورت سے زیادہ اعتماد کرے، تب ایسی واقعات کا ہونا کوئی انہونی نہیں ہوتی۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت موجودہ حکومت کو بھی درپیش ہے کہ اس اہم ترین شخصیت کے حوالے سے نئی تعیناتی کی جائے یا مدت ملازمت میں توسیع کی جائے،ایک ملین ڈالر سوال بن کر حکومت وقت کے سامنے کھڑا ہے اور حکومت اس نبردآزما ہونے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر تو یہ اہم ترین شخصیت اعلان کر چکی ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر مستعفی ہو کر گھر جانے کو ترجیح دے گی کہ اس شخصیت نے اپنی قابلیت و اہلیت کے مطابق وطن عزیز کی بھرپور خدمت کی ہے اور اب کسی نئی شخصیت کو یہ منصب سنبھال کر ملک و قوم کی خدمت سر انجام دینی چاہیے۔ کتابی حوالے سے یہ مؤقف انتہائی قابل ستائش ہے لیکن اس مؤقف کو ایک تسلسل درکار ہے اور اسے خواہش و ناگزیریت سے اوپر اٹھ کر روبہ عمل آنا چاہیے، افسوس کہ پاکستان میں ایسا ہوتا نہیں تاہم یہ امید رکھنی چاہیے کہ مستقبل میں اس کا تسلسل قائم ہو جائے گا اور کوئی شخص اس اصول سے روگردانی نہیں کرے گا۔
بات یہاں تک رہتی تو یقینی طور پر امور مملکت احسن طریقہ سے آگے بڑھتے نظر آتے لیکن حکومت وقت اس حوالے سے جس کشمکش کاشکار ہے،وہ آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم سے واضح ہو رہا ہے اور یہ کہناکہ اس معاملے پر حکومت وقت کو کوئی پریشانی یا دباؤ نہیں،حقیقت کے خلاف نظر آتا ہے۔یہ دباؤ یکطرفہ بھی نہیں بلکہ بیک وقت اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کی قیادت میں کئی امور زیر بحث ہیں،اختلافات کی خبریں زیر گردش ہیں،اپوزیشن کا دباؤ ہے اوربظاہر نظر نہ آنے والا ایک اور دباؤ بھی کسی نہ کسی حوالے سے حکومت وقت پر ہے وگرنہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا شوشہ نہ چھوڑا جاتا۔ ذرائع ابلاغ میں اس کا شور اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت لاکھ کوشش کرے ،اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کی جرأت نہیں کر سکتی کہ یہ اقتدار کے کیک کا وہ حصہ ہے ،جس کی یقین دہانی اقتدار میں آنے سے قبل کروائی گئی تھی بعینہ اسی طرح جیسے عمران خان ایک پیچ پر ہونے کا اعلان کر کے تب کی اپوزیشن کے سینے پر مونگ دلا کرتے تھے اور اپنے تئیں یہ تصور کر بیٹھے تھے کہ اگلے دس سال بھی عمران خان اقتدار کا حصہ رہیں گے۔موجودہ حکومت بھی اسی خوش گمانی میں ہے کہ ایک چھوٹی سی ترمیم کرکے وہ اپنے اقتدار کو نہ صرف موجودہ اسمبلیوں کی مدت تک طول دے سکتی ہے بلکہ نئے انتخابات کے نتیجہ میں بھی اقتدار کا جھولا جھول سکے گی،تاہم اس کا فیصلہ تو وقت کو کرنا ہے اور بظاہر وقت کی نبض اس خوش گمانی کے خلاف ہے۔اگر یہ چھوٹی سی ترمیم موجودہ حکومت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جس کا غالب امکان ہے کہ اس مختصر عرصہ میں موجودہ حکومت قوانین میں ایسی ترامیم کر چکی ہے کہ جس کہ مثال دور جدید کی مہذب دنیا کی جیورس پروڈنس میں ملنا ممکن نہیں کہ جزا و سزا کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی گئی ہے،توممکنہ طور پر پی ڈی ایم اگلی حکومت میں نظر آ سکتی ہے۔
دوسری طرف عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ دن بدن کمزور ہو رہا ہے اور عمران خان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ انہیں نئے ’’صاف شفاف‘‘ انتخابات کی تاریخ دی جائے ،انہیں اس سے غرض نہیں کہ تاریخ فوری ہے یا چند ماہ بعد کی،ان کی نظر صاف و شفاف انتخابات پر زیادہ ہے۔عمران خان کے نزدیک جو عوامی حمایت اس وقت انہیں میسر ہے، اس کے مطابق انتخابات میں جتنی بھی تاخیر ہوتی ہے،ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہی ہوگا اور وہ اس عوامی حمایت و مقبولیت کے پیش نظر نئے انتخابات میں یقینی طور پر مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے بشرطیکہ انتخابات صاف و شفاف ہوئے۔اگر عمران خان کی موجودہ صورتحال اور تخت گرانے کے منصوبہ کو بھی پیش نظر رکھیں تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے تمام تر احتجاج،موجودہ حکومت کے اپنے وعدوں و دعوں کے برعکس قبل ازوقت انتخابات کا انعقاد ممکن ہے؟ میری دانست میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں قبل ازوقت انتخابات ممکن ہے تو بصد احترام ایسا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا،دو،چار ماہ قبل انتخابات کاڈول ڈالا جانا قبل از وقت انتخابات کے زمرے میں نہیں آتاتاہم پاکستان میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ماسوائے موجودہ سیاسی صورتحال کے کہ تمام امورمنصوبے کے عین مطابق روپذیر ہو رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button