Editorial

لانگ مارچ، سیاسی حل نکالا جائے!

 

سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دی اور حکم دیا ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو نئی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ احتجاج کا حق لامحدود نہیں،لانگ مارچ کے معاملے پر مداخلت ابھی قبل از وقت ہے، اگرآئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہوا تو دخل دیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سیاسی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں،احتجاج کا حق آئینی حدود سے مشروط ہے، اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ لانگ مارچ سے معاملاتِ زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، بات اب بہت آگے جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان گئی اور بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔قبل ازیں بھی سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کے خلاف پہلے سے کوئی بھی حکم جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتی ہے، جب ہجوم آئے گا اور قانون کی خلاف ورزی ہوگی تب ہی ہم مداخلت کریں گے، سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی تھی جس میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ میں عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی لیکن یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی ہے۔ پس سپریم کورٹ کے روبرو سینیٹر کامران مرتضیٰ سے قبل وفاقی حکومت بھی درخواست پیش کرچکی ہے کہ تحریک انصاف کو لانگ مارچ؍ دھرنے سے روکا جائے لیکن دونوں درخواستوں میں سپریم کورٹ نے جو احکامات صادر کیے ہیں بلاشبہ ہر لحاظ سے بجا ہیں کہ ایک فریق کی درخواست پر دوسرے فریق کو ایسے فعل سے روکا جائے جو اُس نے سرزد ہی نہیں کیا لہٰذا سپریم کورٹ تبھی مداخلت کرسکتی ہے جب آئین کے مطابق مداخلت کی ضرورت محسوس کی جائے۔ ملکی تاریخ میں بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتیں لانگ مارچ کرتی رہی ہیں اگرچہ لانگ مارچ یا دھرنوں کے نتیجے میں کبھی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا لیکن اِس کے باوجود لانگ مارچ اور دھرنے ہوتے ہیں چونکہ احتجاج جمہوری حق ہے اور جب تک احتجاج کرنے والوں کے رویے غیر جمہوری نہ ہوں تب تک بلاشبہ احتجاج پر کارروائی نہیں کی جانی چاہیے لہٰذا ابھی تحریک انصاف کا لانگ مارچ پنجاب کی حدود میں ہے اور چیئرمین عمران
خان بھی بارہا واضح کرچکے ہیں کہ احتجاج پرامن ہوگا لہٰذا ابھی دیکھنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں کیا صورت حال سامنے آتی ہے۔ سپریم کورٹ نے متذکرہ درخواست کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے اور اِس کا سیاسی حل ممکن ہے اور یہی گذارش ہم بارہا کرچکے ہیں کہ سیاسی قیادت موجودہ عدم استحکام کو افہام و تفہیم کے ساتھ ختم کرے اور مستقبل کے لیے قومی سطح پر ایسا میثاق کیا جائے جس پر عمل کرنا ہر سیاسی فریق کے لیے لازم ہو تاکہ آئندہ سیاسی قوتوں کے درمیان ڈیڈ لاک سی صورت حال پیدا نہ ہو۔ حالیہ درخواست گزار نے سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ بظاہر انتظامیہ صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔یعنی حالات انتظامیہ کے قابو سے باہر جاسکتے ہیں، پس یہ وہی خدشات ہیں جو ہر طرف سے ظاہر کئے جارہے ہیں لیکن اِس کے باوجود حکومت اور تحریک انصاف اپنے اپنے موقف پر اٹل ہیں لہٰذا اگر معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ حل نہیں ہوتا تو پھر لانگ مارچ بھی ہوگا اور اگر اِس کے نتیجے میں حالات خراب ہوئے تو عدالت مداخلت بھی کرسکتی ہے۔ ملکی سیاست میں غیر معمولی ارتعاش ہے اور جب سے عمران خان اقتدار کے ایوان سے باہر ہوئے ہیں تب سے اِس میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے، عمران خان کی حکومت کے دوران چونکہ اتحادی جماعتیں پونے چار سال سڑکوں پر مسلسل رہی ہیں لہٰذا عمران خان بھی سڑکوں پر ہیں، چونکہ اتحادی جماعتوں نے بھی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کئے تھے لہٰذا عمران خان بھی کررہے ہیں، اُن کا مطالبہ بھی حکومت کا خاتمہ تھا، اب بھی یہی مطالبہ دھرایا جارہا ہے، تب اتحادی جماعتیں ملکی معیشت اور مہنگائی کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ چاہتی تھیں آج یہی نعرہ عمران خان کا ہے، پس تاریخ خود کو دھرارہی ہے اور حالات بہترہونے کی بجائے خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں، عمران خان وزیرآباد میں حملے کے دوران زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ایک فرد کا جانی نقصان بھی ہوا ہے، پس اِس حملے کے بعد تصور کرنا چاہیے کہ عمران خان کا رویے اب کیسا ہوگا؟ اب تو پچیس مئی والی تاریخ بھی نہیں دہرائی جاسکتی کہ چادر چاردیواری کا تقدس پامال کرکے گرفتاریاں کی جائیں پھر وفاق کے دونوں اطراف تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں لہٰذا متوقع حالات پر تشویش کا برقراررہنا فطری ہے اور بلاشبہ جو سنجیدہ لوگ فریقین کے رویوں کے نتیجے میں متوقع حالات سے پریشان ہیں ان کی تشویش صدفی صد ٹھیک ہے، ایک روز پہلے ہم نے گذارش کی تھی کہ وطن عزیز کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز، مہنگائی، تعلیم، صحت، غربت اور معیشت کی بجائے حالیہ دنوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری اور توشہ خانہ کی گھڑی فریقین میں موضوع بحث ہے حالانکہ دونوں معاملات پر آئین اور قانون ہماری رہنمائی کرتا ہے اور اِن پر بحث کی بھی قطعی ضرورت نہیں مگر تسلسل کے ساتھ ہورہی ہے، عوام کے مسائل اور داخلی حالات کا ادراک کئے بغیر کج بحثی کا تسلسل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا لہٰذا ملک و قوم بالخصوص نظام کو لاحق خطرات سنگین سے سنگین ترہوتے جارہے ہیں اور بلاشبہ بلاتمیز و تفریق ہم سبھی کو اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی، ہم جمہوریت مالا جپتے نہیں تھکتے لیکن جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کے لیے عملی اقدامات بھی نہیں کرتے، سیاسی قیادت میں عدم برداشت نہ ہوتی تو آج تک ملک میں جمہوریت ڈی ریل ہوتی اور نہ ہی غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کرنا پڑتی، جمہوری رویے ہوتے تو لانگ مارچ ہوتے اور نہ ہی طویل دھرنے، کیونکہ جمہوری قوتیں سبھی معاملات کو ایوان کے اندر زیر بحث لاکر جمہوری حل نکالتیں مگر افسوس کہ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو کمزور کرنے کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور بسا اوقات سیاسی مخالفین کو زیر کرنے اور اقتدار کے حصول کے لیے غیر سیاسی اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا جس کا واضح ثبوت موجودہ حالات ہیں جن میں عوام سیاست دانوں کی طرف اور سیاست دان ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یقیناً یہ صورت حال جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ اِس لیے ہےکہ عام پاکستان کا بنیادی مسئلہ دو وقت کی روٹی اورآسان سفر زیست ہے جو آج تک صرف نعروں میں ہی فراہم کیا گیا ہے اور درحقیقت عام پاکستانی کو غرض بھی یہی ہے کہ اُس کی زندگی آسان کون کرتا ہے، ایوانوں میں کیا ہورہا ہے، سیاسی جماعتوں کے منشور اور جمہوریت کی افادیت اور جمہوری حربے عام پاکستانی کا مسئلہ ہی نہیں ہے انہیں صرف اپنے بنیادی مسائل کے حل سے سروکار ہے جن میں کمی ہونے کی بجائے روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور سیاسی قوتیں ان ہی مسائل کے حل کی یقین دہانی پر اُن سے ووٹ لیتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی رہنمائی کے بعد سیاسی قوتوں کو اِس معاملے پر اپنا فوری کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ لانگ مارچ اور احتجاج کی نوبت ہی پیش نہ آئے اور سیاسی معاملات سیاسی طریقے سے ہی حل کرلیے جائیں کیونکہ اگرملک دشمنوں نے ہماری داخلی حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو بلاشبہ صورت حال خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ ہمارے نزدیک ریاست سے زیادہ کوئی فرد اہمیت نہیں رکھتا لہٰذا ریاست کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ اور بروقت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی تاخیر کا شکار نظرآتے ہیں، سیاست دانوں کو طاقت کے استعمال کی بجائے رویوں میں نرمی لانی چاہیے اور عدم برداشت کو بالکل ترک کردینا چاہیے کیونکہ موجودہ حالات میں دونوں فریقین کے درمیان ثالثی کی ضرورت ہے لیکن فریقین کے لب و لہجے اُن کے عزائم اور موقف کی بخوبی وضاحت کررہے ہیں اور اسی کو ہی ڈیڈ لاک کہاجاتاہے جو حالیہ دنوںمیں حکومت اور تحریک انصاف میں واضح ہوچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button