ColumnImtiaz Aasi

سودی نظام کا خاتمہ ممکن ہے؟ ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے بعد کہ حکومت آئندہ پانچ سال میں بتدریج سودی نظام کا خاتمہ کرے، حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میںدائرزیر التواء اپیل واپس لے لی ہے۔ حکومتی فیصلے کو بہت سے حلقوں نے بالعموم اور مذہبی حلقوں نے بالخصوص سراہا ہے۔ملکی معیشت سے سودی نظام کے خاتمے کیلئے بڑا مذہبی حلقہ برسوںسے تگ ودو کرتا چلا آرہاتھا۔ کئی عشروں بعد پی ڈی ایم کی حکومت سودی نظام کے خاتمے پر رسمی طور پر رضامند ہوئی ہے۔حکومت نے اپنی اپیل سپریم کورٹ سے واپس لے کر مختلف حلقوں کی طرف سے داد تحسین حاصل کی ہے اصل مسئلہ تو اپنی جگہ بدستور موجودہے۔حکومت کے علاوہ قومی بنکوں نے سود کے خاتمے کے خلاف اپنی اپنی اپیلیں عدالت عظمیٰ میں دائر کی ہوئی ہیں جب تک سپریم کورٹ سے ان کا فیصلہ نہیں ہو جاتا سودی نظام کا خاتمہ ممکن نہیں۔اسی تناظر میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے حکومت سے انفرادی طور پر سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کرنے والے قومی بنکوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر مولانا چترالی نے حکومت سے کہا کہ اس نے بنکوں کو اپیلیں کرنے سے روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں ؟درحقیقت اس وقت دنیا کے بہت سے ملکوں بشمول سودی عرب کی معیشت کا دارومدار سعودی نظام پر مبنی ہے۔
ملائیشیااور انڈونیشیا جیسے ملکوں کی معیشت سودی نظام کے تحت چل رہی ہے۔پاکستان جیسا کمزور ترین معاشی ملک ایک ایسے وقت میںجب اس کی معیشت آخری سانس لے رہی ہے یک دم سودی نظام کے خاتمے کا متحمل ہو سکے گا؟شرعی عدالت نے جون 2022 سود لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ حکومت تمام قوانین میں سے لفظ انٹرسٹ کو حذف کرے۔فیصلے میں کہا گیا تھاکہ اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کیلئے پانچ سال کا وقت کافی ہے۔شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت2027 تک معاشی نظام سودی نظام سے پاک تشکیل دے۔شرعی عدالت میں سودی نظام کے خلاف سب سے پہلے 1990میں درخوست دائر کی گئی،جس کے بعد شریعت کورٹ کے چیف جسٹس تنزیل الرحمن کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیاتھا ۔اسی بینچ نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی ۔تعجب ہے اس دوران نو چیف جسٹس اپنی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد چلے گئے۔ 2002 سے 2013 تک کیس کی ایک بھی سماعت نہیں ہوئی۔اب سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کا انیس سال بعد فیصلہ سنایا ہے۔سود کا تاریخی پس منظر یہ ہے عہد جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود میںاضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔اصل رقم میں اضافے کی وجہ سے قرض کی تھوڑی سی رقم قرض خواہ کیلئے پہاڑ بن جاتی تھی اور قرض لینے والے کیلئے اس کی ادائیگی ناممکن ہو جاتی تھی۔قرآن پاک کی سورہ آل عمران میں حق تعالیٰ کا حکم ہے: اے ایمان والوں سود مت کھائواور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔اسی طرح سورہ البقرہ کی آیت نمبر 278 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرواور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دواگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو پھر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہو جائو۔بظاہر سود کی وجہ سے مال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ مال میں نقصان ، بے برکتی اور ناگہانی آفات کا باعث ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے آپﷺنے فرمایا جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے اللہ تعالی اس بستی والوں کو ہلاک کر دتیا ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ مروی ہیں رسولﷺ نے فرمایا: جس شب مجھے معراج کی سیر کرائی میں ایک جماعت کے پاس سے گذرا جس کے پیٹ کمروں کی ماند تھے آپﷺ نے حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیںکہنے لگے سود خور ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت دو قسم کے معاشی نظام چل رہے ہیں جس میں روایتی بنکوں اور اسلامی بنکوں نے علیحدہ علیحدہ اجازت نامے حاصل کئے ہوئے ہیں۔
اسلامی بنکوں کے طریقہ کار کے مطابق مضاربہ، مشارکہ اور اجارہ وغیرہ جیسی سکیمیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں رائج ہیں۔ مضارہ میں نفع اور نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے جب کہ مشارکہ میں جوائنٹ وینچر کے تحت اور اجارہ میں لیزنگ کے تحت سرمایہ کاری ہوتی ہے۔اس وقت بنکوں کی اکثریت سودی کے ساتھ اسلامی بنکاری بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔2009 تک پوری دنیا میں تین سو اسلامی بنک قائم ہو چکے تھے اور دو سوپچاس میوچل فنڈ قائم ہو چکے تھے جن میں سرمایہ کاری دو کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔اسلامی بنکاری سودی نظام کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔اسلامی بنکاری خلیجی ملکوں ،پاکستان ایران اور ملائیشیا میں چل رہی ہے۔توجہ طلب پہلو یہ ہے علماء کرام کی غالب اکثریت موجودہ نافذ العمل اسلامی بینکاری کو سودی نظام کا تسلسل گردانتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ اسلامی بینکاری میں سودکی جگہ نفع اورنقصان کے لفظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ سود ہی کی دوسری شکل ہے۔سوال یہ ہے مذہبی حلقے سودی نظام کے خاتمے کیلئے کوشاں ضرور ہیں انہیں سودی نظام کے متبال خالصتاً اسلامی معاشی نظام کے خدوخال وضع کرنے چاہئیں بلکہ ایک پورا اسلامی بینکاری نظام کا ڈھانچہ مرتب کرکے حکومت کو پیش کرنا چاہیے اگر حکومت موجودہ سودی نظام کو فوری طور پر ختم کردے تو ریاست کا معاشی نظام درہم برہم ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے۔جہاں تک حکومت کا سودی نظام کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ سے اپیل واپس لینے کا تعلق ہے اسے وقتی طور دینی حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کی حکومت کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ حکومت سودی نظام کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس مقصد کے حصول کیلئے معاشی ماہرین اور مستند علماء کرام کی ایک کمیٹی قائم کرکے رائج الوقت سودی نظام کو ختم کرنے کیلئے تجاوزلے کرآگے بڑھنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button