تازہ ترینخبریںپاکستان

لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی

سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کیخلاف کامران مرتضی کی درخواست غیر موثر قرار دے دی، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایسی صورتحال سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے، ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس پر عمل نہ ہو۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کے لانگ مارچ کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایگزیکٹیو کا معاملہ ہے ان سے ہی رجوع کریں، غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے، جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے، جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے، اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کہ آپ ایک سینیٹر ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ میں ذاتی حیثیت میں عدالت آیا ہوں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے جبکہ جسٹس عائشہ کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس میں کہا کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے ایچ نائن گراونڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی، ایچ نائن کا گراونڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو ایگزیکٹیو کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کے مطابق تو ایگزیکٹیو کے اختیارات تو 27 کلومیٹر تک محدود ہیں، اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی، ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ عدالت حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں، ایسا حکم نہیں دیناچاہتے جو قبل از وقت ہو اور اس پر پھر عمل درآمد نہ ہو، آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کاصوبوں کوخط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے لانگ مارچ کیخلاف کامران مرتضی کی درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا احتجاج کا حق لامحدود نہیں،آئینی حدود سے مشروط ہے، معاملےمیں مداخلت قبل ازوقت ہوگی ، اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو مداخلت کریں گے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ایسی صورتحال سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے، ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس پر عمل نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button