Editorial

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف سماعت

 

سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کررہا ہے اور سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے بعض ریمارکس اہمیت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔خصوصاً جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ایک اور جگہ پر انہوں نے کہا کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، ایک مرتبہ قانون کو نرم کر دینے کے لیے اس کی ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے۔بین الاقوامی معیار ہے کہ جس ملک میں کرپشن ہو اس کا بیڑا غرق ہی ہوا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی احتساب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی حال ہی میں کی گئی ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتےہوئے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کسی بھی سرکاری عہدے کے حامل شخص کے ذریعے کیے جانے والے وائٹ کالر جرم کو عملی طور پر ختم کر دے گی جبکہ اِس کے جواب میں حکمران اتحاد نے دعویٰ کیا تھا کہ نیب قوانین کے باوجود مسلم لیگ نون کی قیادت کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات جاری رہیں گے۔سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو کل 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی سماعت اگلے روز کے لیے ملتوی کردی ہے۔ نیب ترامیم پر حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کا مفصل موقف بارہا قوم کے سامنے آچکا ہے، حکمران اتحاد جب حزب اختلاف میں تھا تب بھی نیب ترامیم پر متعدد بار اپنا موقف پیش کرچکا ہے لہٰذا اقتدار سنبھالنے کے بعد حکمران اتحاد نے نیب قوانین میں ترامیم کیں چونکہ ان ہائوس تبدیلی کے بعد پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر ہے اور اِن کے اراکین اسمبلی نے بھی قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے جمع کرادیئے ہیں لہٰذا آسانی کے ساتھ ترامیم پاس ہوگئیںلیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دونوں بل آئین کے آرٹیکل 75 کی شق ایک بی کے تحت واپس وزیر اعظم کو بھجوادیئے اور کہا کہ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹی اور کمیٹیاں دونوں بلوں پر نظر ثانی اور تفصیلی غور کریں۔ اس کے علاوہ صدر مملکت کو قانون سازی کی تجاویز کے متعلق مطلع نہ کرکے آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور دونوں بل جلد بازی میں 26 مئی کو قومی اسمبلی اور 27 مئی کو سینیٹ سے منظور ہوئے۔ حکمران اتحاد کی طرف سے نیب ترامیم کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں زیر سماعت ہے اور بلاشبہ یہاں سے جو بھی رہنمائی قوم کوملے گی ، قوم کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم اور کارآمد ہوگی اور اسی سے واضح ہوگا کہ کس فریق کا موقف درست ہے۔ ممکن ہے کہ نیب کے بعض قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہو لیکن بلاشبہ ایسی ترامیم نہیں ہونی چاہئیں جن کے نتیجے میںلوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا پیسہ ملوث افراد کو تھال میں رکھ کر پیش کردیا جائے ، دوسری طرف جہاں تک نیب کی افادیت کی بات ہے تو ایک اندازے کے مطابق نیب نے اپنے قیام سے ابتک 864ارب روپے برآمد کئے اسی طرح غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین کو بھی اُن کے پچیس ارب روپے واپس دلوائے اور شاید یہ ہمارا واحد ادارہ ہے جس نے اتنی بڑی رقم بدعنوانوں سے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائی یا پھر متاثرین کے حوالے کی، لہٰذا نیب کی کارکردگی کی تعریف تو کی جاسکتی ہے لیکن اس لحاظ سے تنقید نہیں کہ نیب نے کچھ نہیں کیا کیونکہ ملکی تاریخ میں آج تک اتنا پیسہ بدعنوانوں سے کبھی برآمد نہیں ہوا ، اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ نیب نے پولیس کے طریقہ کار کے مطابق کسی کا معاملہ کسی اور پر ڈالا ہو بلکہ ثبوتوں اور گواہان کی بنیاد پر کارروائیاں کی ہیں۔ پوری پاکستانی قوم سمجھتی ہیں کہ ہماری معاشی تنزلی اور بد حالی کی بنیادی وجہ بدعنوانی اور نااہلیت ہے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو بدعنوانی کی زد میں نہ ہو یہی وجہ ہے کہ ہر سیاست دان اپنے منشور میں بدعنوانی کے خاتمے کی بات تو کرتا ہے لیکن حکمران بننے کے بعد بے بس نظر آتا ہے، اِس کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن سب سے بڑی وجہ ہم عبرت ناک سزائوں کا نہ ہونا سمجھتے ہیں۔ نیب جیسے قانون میں بھی بدعنوانی کی رقم لوٹاکر چھوٹنے کی راہ موجود تھی۔ نیب عدالتوں کی کمی، استغاثہ کی کمزوری اور ایسی ہی کئی خامیوں کے باوجود نیب نے اچھی اور مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اگر قانونی مسائل اور پیچیدگیاں نہ ہوتیں اور بدعنوان عناصرکا فوری ٹرائل ہوتا تو یقیناً صورتحال یکسر مختلف ہوتی پس عمران خان جو بدعنوانی کے خاتمے کا دعویٰ کرکے اقتدار میں آئے تھے انہی مسائل کی وجہ سے بے بس نظر آئے اور برملا اعتراف بھی کررہے ہیں۔ ہماری رائے میں ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کا فروغ ہماری بدقسمتی نہیں بلکہ نظام میں موجود ایسی خامیاں ہیں جو شاید جان بوجھ کر دور نہیں جاتی رہیں تاکہ اُن کے ذریعے گرفت میں آنے سے بچا جاسکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کے خلاف سخت قوانین اور سزائیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں معاملات ٹھیک ٹھیک چلتے ہیں لیکن انہوںنے بعض ایسی چھوٹ بھی غیر ملکیوں کودی ہوئی ہیں جو دراصل کرپشن کے خاتمے سے متعلق ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوتی ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں کئی غریب ممالک کا بدعنوانی کے ذریعے اکٹھا کیاگیا پیسہ اُن کے بینکوں میں محفوظ ہے، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ پیسہ اُن ممالک کو لوٹانے کی بجائے ہاتھ کھڑے کردیئے جاتے ہیں چونکہ بدعنوانی کے فروغ کے لیے بین الاقوامی سطح پر نت نئے طریقے متعارف ہوتے رہتے ہیں جیسے آف شور کمپنیاں لہٰذا بدعنوان افراد کو قانون کی گرفت میں آنے کی کوئی پریشانی نہیں، غریب ملکوں کی غریب عوام کا پیسہ اُن ملکوں کے مالیاتی اداروں میں محفوظ ہے جو کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کے واسطے دبائو ڈالتے ہیں حالانکہ اقوام عالم متفق ہیں کہ بدعنوانی میں کمی اورشفافیت میں اضافہ عالمی استحکام اورخوشحالی کے لیے لازمی ہیں اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ کنونشن کی منظوری دی گئی تاکہ عالمی سطح پر بدعنوانی کے خلاف کوششیں کی جائیں مگر پھر وہی بات کہ جن بڑی طاقتوںنے کوششیں کرنی ہیں ان کے مالیاتی اداروں میں غریب ملکوں سے لوٹا گیا پیسہ محفوظ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح پر بدعنوانی ختم کرکے ہی انسانیت کی فلاح وبہبود کی جاسکتی ہے اور اسی سے غربت اور بھوک و افلاس کا خاتمہ ممکن ہے، غریب ممالک میں تعلیم، صحت، خوراک، آلودگی، غربت جیسے سنگین مسائل موجود ہیں لیکن اُن کے خون پسینے کا پیسہ غیر ملکی بینکوں میں محفوظ پڑا ہے اور کوئی بھی اِس معاملے پر تعاون کرنے کو تیار نہیں ۔ ملکی حالات اور ترجیحات کو دیکھنے کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمیں اپنے گھر میں اپنے مقام کو بہتر بنانا اور بیرون ملک بدعنوانی کوکم کرنا ہے تو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے مگر اِس کے لیے بالخصوص سیاسی قیادت اور حکمرانوں کا متفق ہونا ضروری ہے جن کے اتفاق کے بغیر بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ ترقی پزیر ممالک میں بدعنوانی ہوتی ہے تو اس کا بوجھ غریب ترین عوام پر پڑتا ہے۔اس سے سرمایہ کاری رک جاتی ہے،عوام کی ان سہولیات اور مدد میں دھوکا دہی ہوتی ہےجس کی انہیں اپنی معیشت کی ترقی اور امدادکی محتاجی کے خاتمے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ ترامیم میں کرپشن کے خلاف کارروائی کا اختیار متعلقہ محکموں کودیا گیا ہے یعنی جس محکمے میں کرپشن ہوگی وہی محکمہ اپنے افسر یا ملازم کے خلاف کارروائی کرےگا پس سیاسی اور عوامی شخصیات کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ کیا ہمیں احتساب سے کسی کو مبرا قرار دے دینا چاہیے؟ جس طرح جھوٹ چھوٹا ہو یا برا، جھوٹ ہی ہوتا ہے اس لیے بدعنوانی ایک پائی کی ہو یا اربوں کھربوں کی، بدعنوانی ہی ہوتی ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ اور اصحاب کی مثالیں مصدقہ ذریعے سے ہمارے سامنے ہیں،لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ آج ملک و قوم جس معیار پر کھڑے ہیں اِس کے پیچھے گر بدعنوانی نہیں تو نااہلیت ضرور ہے، اِس لیے ہمیں بتدریج اِن مسائل پر متوجہ ہونا پڑے گا، چاہے آج یا کل ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button