CM RizwanColumn

جھوٹ، آخر کب تک .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

عمران خان بڑے اور مقبول سیاستدان ہیں مگر انہیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ قوموں کو لمبے عرصے تک یا ہمیشہ کیلئے بیوقوف نہیں بنایا جاسکتاتبھی تو وہ بارہا اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہیں جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا تو انہیں یقین نہیں تھا کہ عوام اس طرح ان کا ساتھ دیں گے پھر وہ دوسرے لمحے ہی یہ مطالبہ بھی شدت کے ساتھ کرتے ہیں کہ ملک میں جلد از جلد انتخابات کروائے جائیں یعنی ان کے دماغ میں یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ اس وقت تو ان کا بیانیہ بک رہا ہے کل کلاں شاید یہ موسم بہار رہے یا نہ رہے۔ حالانکہ اگر وہ انتخابات کیلئے اگر اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو وہ اپنے زیر اقتدار چار انتظامی یونٹس کی اسمبلیاں توڑ کر فوری انتخابات کی مجبوری پیدا کر سکتے ہیں مگر شاید یہ مطالبہ بھی محض سیاسی دباؤ کیلئے کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے اس معاشرے کے بہتر سماجی شعور کی نشاندہی کرتا ہے اس لیے اختلاف رائے کو دبانا یا اسے ملک دشمنی سے تعبیر کرنا کسی صورت جمہوری اداروں کی صحت اور ملکی سلامتی کیلئے سودمند نہیں ہوتا۔ قیام پاکستان کے وقت بہت ساری سیاسی طاقتیں اپنے مختلف سیاسی اور مذہبی خیالات کی بنیاد پر نئے ملک کے قیام کی مخالف تھیں مگر کبھی بھی قائد اعظم کی زبان سے ان سیاسی قوتوں کے بارے میں منفی بیانات یا انہیں غدار قرار دینے کی بات سننے کو نہ ملی تھی بلکہ قائداعظم ان سیاسی مخالفین کے بیانیے پر حملہ کیے بغیر اس سے بڑے مقصد یعنی مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ البتہ ان کے بعد آنے والے پاکستانی رہنماؤں نے سیاسی اختلافات اور مذہبی تفریق کو اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے بے دریغ استعمال کیا جس کی وجہ سے شروع ہی میں ہمارے سیاسی ادارے کمزور ہوئے اور مذہبی رواداری کا خاتمہ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم، جھگڑوں اور فسادات کا آغاز ہو گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
مثال کے طور پر سب سے پہلے آمر ایوب خان کے دور میں سیاسی مخالفین کو غدار کہنے کا آغاز ہوا اور اس میں قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح، جو آمریت کے خلاف برسرِ پیکار تھیں، کو بھی نہ بخشا گیا۔ یہاں
تک کہ ان کی رحلت بھی مشکوک حالات میں ہوئی۔ پھر سیاسی حریفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی روایت کی ابتدا بھٹو دور میں شروع ہوئی اور اس کے بعد اسے آمر ضیا الحق ایک نئی سطح پر لے آئے جس میں مخالفین کو سرعام کوڑے تک لگائے گئے۔ ضیا کے بعد کے جمہوری رہنماؤں نے سیاسی ماحول میں اس تلخی کو جاری رکھا اور اپنے مخالفین کیلئے نہ صرف سیاسی عرصہ حیات تنگ کیا بلکہ انہیں اخلاق سے گرے ہوئے الزاماتی حملوں کا نشانہ بھی بنایا۔ اس تند و تیز سیاسی ماحول میں کچھ بہتری 2007 کے میثاق جمہوریت کے بعد آئی جس میں سیاسی محاذ آرائیاں تو جاری رہیں لیکن سیاسی مخالفین پر قانونی جبر کا خاتمہ ہوا اور 2008 سے 2018 تک کسی سیاسی مخالف کو اپنے مخالفین کی حکومت ہونے کی بنا پر جیلوں کی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑیں۔ لیکن افسوس کہ ایک مرتبہ پھر 2018 سے پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مخالفین کے خلاف حکومتی ایوانوں سے ایک نئی مہم کی ابتدا ہوئی جس میں سیاسی ظلم و ستم ڈھانے کے علاوہ مخالفین کے خلاف پہلی دفعہ حق و باطل اور محب وطن اور غدار وطن کے استعارے استعمال کیے گئے۔ بہت سارے آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دور پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ دور سمجھا جائے گا جس نے نہ صرف پاکستانی سیاسی ثقافت کو تہس نہس کیا بلکہ عوام کے دلوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مہذب طریقے سے اختلاف کی بجائے ان سے ایک منظم طریقے سے نفرت کرنے اور کسی بدترین دشمن کی طرح کا سلوک روا رکھنے کا آغاز کیا گیا۔
اس نفرت کی لہر نے اب پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ملک کو سیاسی بنیادوں پر ایک طرح سے تقسیم کر دیا گیا ہے۔ قریباً ہر طبقہ چاہے عام عوام ہوں یا پڑھا لکھا طبقہ، افواج میں شامل یا ریٹائرڈ افراد ہوں یا نوکرشاہی میں شامل عملہ، پولیس ملازمین ہوں یا صحافی یا کہ پیشہ ور طبقہ، ہر کوئی اس زہریلی تقسیم کا شکار نظر آتا ہے اور ہر کوئی دلیل سے قائل ہونے یا کرنے کی بجائے اپنی پسند کی آخری حد پر براجمان ہو چکا ہے مخالف رائے یا مخالف سیاسی وجود برداشت کرنے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔ خاص طور پر عمران خان کے ہم خیال تو اپنے آپ کو اس طرح حق پر سمجھتے ہیں کہ مخالفین کی آئینی طور پر بھی سیاست کرنے کا حق دار نہیں سمجھتے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس نفرت انگیز مہم کی سربراہی ایک پڑھا لکھا مبینہ طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل سیاستدان کر رہا ہے۔ ان کے مطابق جو ان کے سیاسی مخالف ہیں وہ ملک کے غدار ہیں۔ انہیں ایک لمحے کیلئے یہ سوچ کر بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ وہ قریبا 65 فیصد سے زیادہ ووٹرز جنہوں نے 2018 میں ان کے سیاسی مخالفین کے حق میں ووٹ دیا تھا ان سب کو بیک جنبش قلم اور بیک جنبش زبان ملک دشمن کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی اس سیاسی جدوجہد میں جس میں وہ اپنے آپ کو امربالمعروف و نہی عن المنکر کا مبلغ اور عامل سمجھتے ہیں۔ سب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ کیسے امربالمعروف کہنے والا ایک شخص توشہ خانے سے لیے ہوئے تحفوں کی تفصیل بتانے سے گریز کرتا ہے اور کم قیمت پر تحائف خرید کر بھاری قیمت پر بازار میں بیچ دیتا ہے پھر اپنے انتخابی گوشوارے میں اپنی اس آمدن کا ذکر بھی نہیں کرتا مگر اسے اپنے اس فعل میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ ان کے دورِ اقتدار میں ایسے کئی تضادات ہیں جس میں ان کے بہت سارے ساتھیوں نے مبینہ طور پر مالی فوائد حاصل کیے لیکن ان کیلئے ہر جواز موجود ہے جبکہ مخالفین کو اپنے دور میں جھوٹے الزامات میں بھی کئی کئی سالوں تک جیلوں میں ڈالنے کو اس طرح حق سچ قرار دیا جا رہا جیسے زمانہ قدیم میں گورے عیسائیوں
نے انجیل مقدس سے اپنی مرضی کی آیات نکال کر یہ ثابت کردیا تھا کہ گورے عیسائی حاکم اور کالے عیسائی محکوم اور بدتر مخلوق ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ وہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کرنے کو تیار ہیں جو دوسروں کیلئے حرام قرار دیتے آئے ہیں اور حتیٰ کہ اپنے لیے حلال اور جائز قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول وہ مدینہ کی ریاست بنا رہے ہیں۔ ان کے مکمل سیاسی کنٹرول حاصل کرنے میں اگر غیر سیاسی ادارے ان کی سیاسی مدد سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو وہ نعوذباللہ جانور ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے وہ فوج جیسے ادارے کو بھی سیاسی بنیادوں پر کام کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ ان کے ساتھی اشارتاً افواج کو اکسانے میں مصروف رہے ہیں تاکہ ان کی سیاسی واپسی ممکن ہو سکے۔ یہی نہیں بلکہ بیوروکریسی میں بھی تقسیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے اور ریاستی کارندوں کو قانونی احکام ماننے پر دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ یعنی اگر بیوروکریسی قوانین کی پابندی کرے تو وہ نواز اور شہباز کی نوکر ہے اور اگر وہ یہی کام ان کیلئے کرے تو وہ عین قانون کے مطابق اور کار حب الوطنی ہے۔ اسی طرح عدلیہ میں بھی تقسیم کا انتشار پھیلایا جا رہا ہے اور اسے حمایتی اور مخالف ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یعنی جو جج ان کے حق میں فیصلہ دیں وہ محب وطن ہیں اور غدار ان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ ان ہی بنیادوں پر وکیلوں کا بھی بٹوارا کر دیا گیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اس تقسیم کا بری طرح شکار ہوا ہے۔ غیر جانبدار یا آزاد صحافیوں کو لفافہ صحافی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے جبکہ ان کی حمایت کرنے والے صحافی محب وطن ٹھہرائے جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ مخالف رائے رکھنے والی خواتین صحافیوں کو جنسی بنیادوں پر الزامات دیئے جاتے ہیں اور کھلے عام کہہ دیا جاتا کہ فلاں خاتون صحافی مردوں میں گھس جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پولیس اگر شہباز شریف کے نیچے ہے تو وہ بدمعاش اور گلو بٹوں پر مشتمل ہے مگر وہی پولیس جب اُن کے نیچے کام کرتی ہے تو اس کا ہر اقدام جائز قرار پا جاتا ہے۔ اب تو معاشرے کی تقسیم کے اس عمل میں اس قدر طاقت آچکی ہے کہ اب بیرونی سرمایہ کاری بھی اس کی زد میں ہے۔ وہ کھلم کھلا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ان کے مخالفین کے دور کے سرمایہ کار چور ہیں اور انہوں نے کرپشن کو فروغ دیا ہے جبکہ ان کے بقول پی ٹی آئی دور کے سرمایہ کار صحیح کام کرتے رہے ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ قوم کو مزید تقسیم کرتے ہوئے مذہب اور مذہبی استعاروں کو فراخ دلی اور تھوک کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک اور تماشا ملاحظہ ہو کہ الیکشن کمشنر کو اگر یہ خود تعینات کریں تو وہ بہت نیک اور جمہوریت پسند ہے مگر وہ ہی الیکشن کمشنر اگر آگے چل کر ان کے خلاف کوئی فیصلہ دے دے تو اپنے منشور سے کوسوں دور بھاگتے ہوئے خود کو قانون کے تابع لانے کی بجائے اسے چوروں کے ٹبر کا نوکر قرار دینے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ امر تسلیم ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی فرشتوں کی جماعتیں نہیں ہیں۔ ماضی میں کرپشن سمیت ان پر دیگر الزامات لگتے رہے ہیں اسی بناء پر عمران خان کو ایک تیسری سیاسی قوت کے طور پر پذیرائی اور مقبولیت ملی تھی عوام الناس کے باشعور طبقات نے انہیں سابقہ برائیوں کے خاتمے کیلئے پسند کیا تھا مگر افسوس کہ عوام کی اس پسندیدگی کا سہارا لے کر وہ جھوٹ اور بعض معاملات میں تو سراسر اور سفید جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ ان کیلئے اور ان کی جماعت اور ملک وقوم کیلئے ہر گز باعث خیر اور تادیر مقبولیت کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ حقیقت بالآخر حقیقت ہی ہوتی ہے۔ اس وقت عمران خان ایک مقبول سیاستدان ہیں مگر انہیں تاریخ سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑی دیر تک تو کسی بھی قوم کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے مگر لمبے عرصے تک یا ہمیشہ کیلئے انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف حالیہ مہم سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کی افواج، عوام اور ساری سیاسی جماعتیں افواج کی سیاسی دخل اندازی کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ مگر عمران خان کے ارادے یہ بدخبری دے رہے ہیں کہ وہ متوقع تقرری کو بھی متنازعہ بنانے کے درپے ہیں جو کہ سراسر ملک وملت اور خود ان کی سیاسی جماعت کے سیاسی مستقبل کیلئے المیہ کا باعث ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button