Editorial

معیشت کے ساتھ عوام کا بھی سوچیں!

 

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تیل کی خریداری سے متعلق چند ماہ میں خوشخبری کا عندیہ دیتے ہوئے بتایا ہےکہ انہوں نے امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام سے ملاقات میں اُن پر واضح کیا ہے کہ آپ ہمیں روس سے تیل خریدنے سے نہیں روک سکتے کیونکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی روس سے تیل کی خریداری کر رہا ہے اور اِس ملاقات کے نتیجے میں ہم روس سے تیل خرید سکتے ہیں اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ جی سیون کا ایک پلیٹ فارم بنانے لگے ہیں جو روس سے تیل خریدنے کے نرخ کا تعین کرے گا اور اس سے اوپر قیمت پر روس سے تیل کوئی نہیں خریدے گا لہٰذاہماری کوشش ہوگی کہ انڈیا کے ساتھ جو روس کی شرائط ہیں انہی شرائط یا اس جیسی قریب قریب شرائط پر روس کے ساتھ تیل کی خریداری کی جائے، اس ضمن میں آئندہ کچھ ماہ میں پاکستان کے حق میں حکومت اہم قدم اٹھائے گی۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملکی معیشت کی تباہی کی وجہ پچھلی حکومت کے ڈالر کو کھلا چھوڑ دینے کے فیصلے کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سنگاپور کی بجائے سری لنکا بننے کے قریب پہنچ گیاتھا تاہم ریاست بچانے کے لیے حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا اب عوام کو ریلیف دینے اور پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسی کے ساتھ انہوں نے مستقبل قریب میں برادر عرب ممالک سے بھی خوشخبریاں ملنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیرخزانہ اسحق ڈار حکومتی اتحاد کی اُمیدوں کا مرکز ہیں کہ تجربہ کار وزیر خزانہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک طرف ملکی معیشت کو لاحق خطرات سے نمٹیں گے تو دوسری طرف یہ بھی اُمید ہے کہ وزیرخزانہ اتحادی جماعتوں کو عوام کے روبرو ہونے کے لائق اقدامات کریں گے۔ اقتدار کی تبدیلی سے قبل اتحادی جماعتوں کا واضح موقف تھا کہ وہ معیشت کو بھی بحال کریں گے اور عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا بھی دلائیں گے جو مہنگائی تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ اگرچہ اِس پر عمران خان بطور وزیراعظم اور اُن کی ٹیم بار بار واضح کرتی رہی کہ کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی منڈی میں کساد بازی سی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی مہنگائی کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں لیکن اتحادی جماعتیں اُن کا موقف یکسر مسترد کرتی رہیں اور دعویٰ پر بضد رہیں کہ وہ اقتدار میں آکر معیشت کو ٹھیک کریں گے اور عوام کو بھی اُس مہنگائی سے چھٹکارا دلائیں گے جو اُن کے بقول تحریک انصاف کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہوئی تھی لہٰذا اقتدار کی تبدیلی کے بعد حکمران اتحاد برسراقتدار بھی ہے اور اُن کے معاملات بھی درست سمت میں چل رہے ہیں، ترامیم بھی ہورہی ہیں اور سب ٹھیک بھی ہورہا ہے مگر ابھی تک وہ وعدہ وفا کرنے کا عمل شروع نہیں ہوا جس کے تحت بجلی، پانی، گیس، پٹرول کی قیمتیں بالخصوص مہنگائی میں کمی لانا تھا اِس کے برعکس پٹرول قریباً ایک سو روپے، بجلی قریباً دُگنا، مہنگائی بھی قریباً دُگنا کے قریب ہوچکی ہے، لہٰذا کم و بیش ہر وہ فیصلہ کیا اور قدم اٹھایاگیاجس کے نتیجے میں عوام کو دستیاب ریلیف کا خاتمہ ہو۔ عام پاکستانی کو روپوں میں دیا جانے والا ریلیف ختم جبکہ اربوں کھربوں کے معاملات میں ملوث افراد کو ریلیف دے دیاگیا ہے، کیا مقصد یہی تھا کہ معاشی اصلاحات کے نام پر سارا بوجھ عوام پر ڈال کراُنہیں بار بار حب الوطنی کا درس دیاجائے گا۔ مفتاح اسماعیل اتحادی حکومت کی طرف سے پہلے وزیر خزانہ تھے جنہوںنے قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف سے معاملات طے کئے اور نتیجے میں عوام کو دستیاب ہر سہولت واپس لے لی ، جب اتحادی جماعتوں نے حکومت کو مزید مشکل فیصلوں سے روکا کہ ان کے لیے عوام کا سامنامشکل کرنا ہورہا تھا، تب جناب اسحق ڈار کو مفتاح اسماعیل کے متبادل میدان میں اُتارا گیا کہ اسحق ڈار تجربہ کار وزیر خزانہ ہیں، پس کہنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ مشکل فیصلے مفتاح اسماعیل کے گلے پڑے اور اگلے مرحلے کا کام اسحق ڈار کو سونپ دیاگیا ہے اور درحقیقت ملکی معیشت کو تباہی سے بچاتے بچاتے عوام کو مہنگائی کی نذر کرکے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کا طوق اُن کے گلے میں ڈال دیاگیا ہے۔ عوام تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامناکررہے ہیں اوریہ مہنگائی معیشت کی بحالی کے نام پر ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں ہوئی ہے، پس ظلم یہ ہے کہ جن بروقت اقدامات کے نتیجے میں عوام کو قدرے ریلیف مل سکتا تھا اُن میں بھی تاخیر کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، اِس کے برعکس اگر ملک میں سیاسی استحکام ہوتا تو کروناوائرس سے لیکر روس، یوکرین جنگ تک ہر بحران کا اثرات عوام تک پہنچنے سےپہلے کمزور ہوچکے ہوتے لیکن افسوس جب قیادت میں واضح اور مستقل مزاجی کا فقدان ہو اور وہ اہم مسائل پر اپنے نقطہ نظر میں کمزوری کا مظاہرہ کرے تو بلاشبہ نتیجہ غلط فیصلہ سازی کی صورت میں نکلتا ہے، حالانکہ قیادت کے لیے ہمت، دلیری، سمجھداری، استقامت، خطرہ مول لینے کی صلاحیت اور مستقل مزاجی ہونا بنیادی شرط ہوتی ہے جبھی قائدین کسی بحران سے اپنی قوم کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کا طرز عمل قطعی ایسا نہیں رہا جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے، خواہ وہ قدرتی ہو یا عالمی، عوام کو اُس کے روبرو کردیا جاتا ہے ، حالانکہ یہی قیادت کی استقامت کا امتحان ہوتا ہے ،اگر قیادت کمزور پڑے تو اُس کی کمزوری ملک و قوم پر گراں گذرتی ہے کیونکہ غیروں کی عوام تک رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ آج آئی ایم ایف کی شرائط مان کرعوام کو عالمی منڈیوں سے براہ راست جوڑ دیاگیا ہے، پس وہاں جو بھی ہو اِس کے اثرات اپنے ملک میں نظر آئیں گے اور عوام سراپا احتجاج ہوں گے، پس سیاسی قیادت کو حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اِس وقت مہنگائی خطرناک ہتھیار یا سازش کا روپ دھار چکی ہے اور عالمی کساد بازاری کے محرک کمزور حکومتوں کے خلاف یہ ہتھیار آسانی سے استعمال کرتے آئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button