ColumnNasir Naqvi

پچاس فیصد کا بیوپاری .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

زندگی ایک سفر ہے اور یہ سفر جلد یا بدیر اپنے اختتام کو ضرور پہنچتا ہے اس لیے کہ دوڑ خواہ کیسی ہو ؟ ٹارگٹ تک کھلاڑی پہنچ سکے یا نہ پہنچے اس نے اپنے مقررہ وقت پر ختم ہی ہونا ہوتا ہے ۔ نظام قدرت یہی ہے کہ آج وہ، کل کوئی اور پرسوں اپنی باری ہے اس میں بھی ردو بدل ہوسکتا ہے کسی کو یہ نہیں پتا کہ کب کس کی باری ہے یہ سلسلہ دنیا بنانے والے نے اپنی حکمت عملی سے اسے خالصتاً اپنے پاس اس طرح رکھا ہے کہ کوئی اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا بلکہ نظام قدرت اور اس کے شیڈول میں میں مداخلت کرنے والوں کیلئے کڑی سزا ہے زندگی کا کوئی ازخود خاتمہ کرے یا کوئی دوسرا کسی کی زندگی چھین لےاسے دین اور دنیا کے مطابق مجرم ٹھہرایا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے پروانوں کیلئے تو واضح پیغام ہے کہ جس نے کسی ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے انسانیت کا قتل کیااسی لیے کچھ چلے گئے ،کچھ جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور جو یہ سمجھیں کہ ہم ان میں شامل نہیں تو یہ غلط فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں جو دنیا میں آیااس نے غربت میں زندگی گزاری یا عیش وعشرت اس کا نصیب بنا واپسی ہرقیمت پر یقینی ،پھر بھی آدم زادےدنیا کی رنگینیوں میں دل لگا بیٹھےہیں نہ جانے کیوں؟
ہماراایک یار تھا اس نے ساہیوال میں آنکھ کھولی ، گریجویشن تک تعلیم بھی حاصل کی اور پھر زندہ دلوں کےشہر لاہور میں قسمت آزمانے آگیا قدم قدم پر مشکلات نے استقبال کیا لیکن ہمت نہیں ہارا کبھی موٹر سائیکل پر تو کبھی ویگنوں کے دھکےبھی کھائے لوگوں کی جلی کٹی باتیں بھی سنیں ، تنقید کا نشانہ بھی بنا پھر بھی اس کی جدوجہد اور محنت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکا حاسدین نے مخالفت کی تو برگیڈیئر عاطف ہاکی لیجنڈنےہا تھ تھام لیا چھوٹی سی اشتہاری کمپنی بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی شخصیت بن گیا کہ لوگ اس کی کامیابی پر رشک کرنے لگے تاہم دشمنوں میں بھی کمی نہیں ہوئی بڑے بڑے نامی گرامی سیٹھوں کو اپنی دو دونی چار کی مشق سے مار دیتا رہا ترقی کی اور بہت ترقی کی وزیر مشیر بھی اس کے آگے پیچھے دیکھے گئےلیکن اسے دیکھتے ہی کوئی اس کی شخصیت سے متاثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ سادہ اس قدر سادہ کہ اگر اسے متعارف کرا دیا جائے تب بھی کوئی تسلیم نہیں کرتا پھر بھی کام میں اس قدرپکا کے بڑوں بڑوں سے متھا لگا کر انہیں اپنی صلاحیتوں کا قائل کر لیتا ،غریب پروربھی اور یاروں کا یار بھی ،برسوں کی محنت اور کاروباری کامیابیوں نے اس کی شخصیت کو ایسے چار چاند لگائے کہ لکھ پتی نہیں، ارب پتی بھی اس کے جھوٹ کو سچ ماننے ہوئے میں نے دیکھا لیکن مشکلات میں ایسا بھی ہوا کہ اس کے سچ کو بھی بہت سوں نے جھوٹ سمجھا بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوتا کہ یہ منفرد شخص اس زمین کا بندہ ہی نہیں،دنیا دیکھی اپنے کاروبار کا ٹائیکون بھی بنا اپنا ادارہ بنایا سرکاری ٹی وی بھی چلایا پھر بھی بوریا نشین رہا،نوکر چاکر اللہ نے سب کچھ دیا لیکن اس نے اپنے آپ کو زندگی کی آخری سانس تک مزدورہی جانا، عملی مظاہرہ بھی کیا ادارے کے ملازمین کو مراعات دیں اور برے حالات میں چھین بھی لیں لیکن مشکل لمحات میں بھی تین وقت کی روٹی کا لنگر ہر خاص و عام کیلئے جاری رہا دوستوں نے بچت سکیم کے گر سکھاتے ہوئے ملازمین کی روٹی پانی بند کرنے کے مشورے دیئےلیکن یہ کہہ کہ ٹال دیا کہ پتا نہیں کس کی قسمت کا کھا رہا ہوں یہ کھاتے رہیں گئے تو میرا روٹی پانی بھی چلتا رہے گا
میرےاس یار کا نام چودھری عبدالجبار تھا اب وہ ہم سے دور جا بسا ہے جہاں ہم نے بھی ایک روز جانا ہے اسے کوئی سیٹھ جبار کہتا تھا اورکو ئی ٹھیکیدار جبار، ایک نہیں دو نجی ٹی وی چینل چلا رہا تھا فراخ دل انسان نے خوب لوگوں کو کھلایا اور لوگوں نے بھی اسے خوب کھایا بہت سے خاندانوں کیلئے وسیلہ روزگار تھا اب اللہ مالک ہے وہی بچوں کو ہمت دے گا کہ وہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ تھکیں۔ عمرانی دور میں میڈیا انڈسٹری میں بحران قیامت انگیز بن گیا تھا لہٰذا وہ بھی بددلی کا شکار ہوا اچھے برے فیصلوں سے معاملات سدھارنے کی کوشش کی لیکن کئی ہم سفر راستے میں چھوڑ کر نکل لیے،اس کا ان کی شخصیت پر ملال نمایاں دکھائی دیتا تھاپھر بھی کہنا یہی تھا کہ اللہ نے مہلت دی تو میں سرخرو ضرور ہو جاؤں گا لیکن گزشتہ ہفتے یہ سیلف میڈ انسان زندگی کی بازی ہار گیا مجھے اس کے یہ الفاظ شدت سے یاد آرہے ہیں کہ جب انہیں کسی کی موت کی خبر دیتے تو اظہار افسوس کرتے ہوئے کہتے دنیا چل چلاؤ کا میلہ ہے اسی طرح ایک روز تمہیں یہ خبر ملےگی کہ جبار بھی مر گیا ہم کہتےموت کو یاد رکھنا چاہیے لیکن تمنا نہیں کرتے ،فوراً کہتے حقیقت تو یہی ہے ایک دو سال سے انہیں موت بہت یاد آتی تھی پھر بھی پرعزم انداز میں وہ کچھ نیا کرنے کی ہر دم ہمت رکھتے تھے کسی کیلئے کچھ کریں یا نہ کر سکیں، سوچتے ضرور تھے ہماری موجودگی میں بہت سے قرابت داروں نے لاکھوں کروڑوں کے نقصان پہنچائے پھر بھی متھے پر بل کبھی نہیں دیکھا میری پینتیس سے چالیس سالہ دوستی تھی بہت سے مشکل حالات میں ساتھ تھا ایک روز چند دوستوں کی بے وفائی کا ذکر نکل آیا تو میں نے کہا آپ جان بوجھ کرموقعے فراہم کرتے ہیں تھوڑا اپنا خیال کیا کریں کھلی چھٹی کسی بھی حالت میں نہیں ہونی چاہیے۔
بولے: جناب نو کی تکلیف اے ؟
میں نے کہا کروڑوں آپ نے گنوائے اور نقصان کرنے والوں کو دوبارہ بھی چانس دیا
کہنے لگے ، اپنا اعتراض بتائیں؟
میں نے ایک کے بعد ایک بتا دیا ، سنتے رہے مسکراتے رہے ہم دونوں گراؤنڈ میں زمین پر بیٹھے تھے لہٰذا ہر آنے جانے والوں کی نظر یں بھی ہماری طرف تھیں یکدم کھڑے ہو کر بولے، میں نے زندگی میں کبھی بھی سو فیصد کاروبار کیا ہی نہیں، میری حکمت عملی لوگوں سے مختلف ہے میں صرف پچاس فیصد کا بیوپاری ہوں اللہ نے اسی میں برکت ڈال دی ہے لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ میں نے دریافت کیا ،حکمت عملی کیاہے مجھے بھی بتائیں؟
کہنے لگے میں کوئی خاندانی کاروباری ہرگز نہیں، میں نے 25 فیصد ہمیشہ اپنے کاروباری حلقے کے بڑے لوگوں کی مان کر اپنے لیے راستہ بنایا پچیس فیصدان لوگوں کی فکر کرتا ہوں جو غریب ہیں اور ان کے پاس کوئی سفارش نہیں میرے دل میں جب ان کا احساس پیدا ہوتا ہے تو محسوس کرتا ہوں کہ ان کا سفارشی وہ اللہ ہے جس نے مجھے اس قابل بنایا ، کہ میں ان کی مدد کیلئے کچھ کر سکوں باقی بات رہی کروڑوں کے نقصان کی تو میں کون سا ساہیوال سے بوریاں بھر کر لایا تھا مالک نے جو دیا اس میں سے میرا حصہ میرے پاس رہا باقی جدھر سے آیا کسی بہانے سے واپس چلا گیا کبھی نہیں سوچا کہ یہ کیا ہوا؟ جس نے حلال کو حرام کر لیا وہ خودذمہ دار ہے میں کسی بڑائی میںشامل نہیں، اللہ دیکھ رہا ہے میں مزدور ہوں، انسان ہوں، فرشتہ نہیں، غلطی کوتاہی ہو ہی جاتی ہےمالک درگزر کرے جان بوجھ کر کسی کا حق نہیں مارتا ،بھر کہنے لگے، اٹھ چلیے ،دل ہلکا ہوا کہ نہیں؟
میں نے کہا ہاں آپ یاروں کے یار ہیں اللہ کبھی خزانے میں کمی نہ کرے لیکن یاروں میں یار مار بھی ہیں ان کی پہچان بھی تو ضروری ہے۔ مسکرا کر بولے، مجھے مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے وہ نہ مارے مجھے تو یہ دنیا نہیں مار سکتی آج ایک سیلف میڈانسان کی رخصتی ہو چکی ہے۔ ایک میڈیا انڈسٹری کا اہم باب بند ہوگیا بہت سے لوگ ان کے جانے کے بعد بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن بہت سوں کو ان سے گلے شکوے بھی یقیناً ہوں گے۔ اللہ اس کی اگلی منزلیں آسان کرے اور پسماندگان کیلئے آسانیاں پیدا کرے کہ ان کا ایک گھنا سایہ دار درخت ختم ہوگیا ، دعا ہے کہ صاحبزادگان کو مالک نادان دوستوں اور بدخواہوں سے محفوظ رکھے تاکہ پچاس فیصد کے بیوپاری کے ادارے قائم رہیں اور ضرورت مندوں کو روزگار کا صدقہ جاریہ نصیب ہوتا رہے ۔ آمین ثم آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button