CM RizwanColumn

اسلامی نظام کی طرف بڑا قدم ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت ملک میں بلا سود بینکاری کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے گورنر سٹیٹ بینک سے بھی مشاورت کر لی ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شریعت کورٹ آف پاکستان کے ملک میں بلاسود بینکاری کے خلاف جاری کئے گئے احکامات کے خلاف جو سابقہ حکومت نے اپیل دائر کر رکھی تھی وہ اپیل بھی واپس لی جائے گی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہر رکاوٹ اور تاخیر کو دور کیا جائے گا۔انہوں نے اپنی حکومت کے بڑے اتحادی، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے بھی مشاورت کیلئے ملاقات کی ہے، جنہوں نے اس اقدام کی بھرپور ستائش اور حمایت کی ہے۔پاکستان میں اسلامی بینکاری کا آغاز 70 کی دہائی کے اواخر میں ہوا تھا، تاہم یہ پہلا تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا۔ 1980 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بلا سود بینکاری پر ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جو ملک میں اس قسم کی بینکنگ کیلئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ پھر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2002 میں میزان بینک لمیٹڈ کو ملک کا پہلا اسلامی کمرشل بینکنگ لائسنس جاری کیا، اور یوں میزان بینک لمیٹڈ نے ملک کے پہلے اسلامی بینک کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ موجودہ وقت میں پاکستان میں آدھے درجن سے زیادہ اسلامی بینک کام کر رہے ہیں، جبکہ درجنوں دوسرے روایتی بینک بھی اسلامی بینکاری کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں اسلامی بینکاری تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس میں مزید پوٹینشل بھی موجود ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2021 کے آخر میں
پاکستان کی مجموعی بینکنگ کی صنعت میں اسلامی بینکاری کے اثاثوں اور ذخائر کا مارکیٹ شئیر بالترتیب 18.6فیصد اور 19.4 فیصد تھا جب کہ گزشتہ سال اسلامی بینکاری والے اداروں کی نیٹ فنانسنگ میں38.1فیصد اضافہ ہوا، جو کہ ایک سال میں اسلامی فنانسنگ میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ شرح نمو ہے۔ جو یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی زیادہ سے زیادہ اسلامی بینکاری کا رجحان رکھتے ہیں۔
درحقیقت کوئی ایک پاکستانی بھی ایسا نہیں جو اس ارادے اور پروگرام کی مخالفت کرے یا اس پر تنقید کرے۔ حتیٰ کہ ملک کے غیر مسلم باشندے بھی اس کی حمایت کریں گے کیونکہ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ اسلام کا نظام معیشت دنیاواخرت دونوں کیلئے فلاح و کامیابی کا ضامن ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان بالخصوص یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سود کے خاتمے کے بغیر کوئی مسلمان یا مسلمان ملک آخرت کی فلاح اور کامیابی حاصل نہیں کرسکتا مگر پاکستان اور سارے کا سارا عالم اسلام سود کے تحت بینکاری کرنے پر مجبور ہے۔
ملک میں اسلامی نظام بینکاری نافذ کرنے کی بات کوئی نئی نہیں۔ اس حوالے سے ماضی میں بھی متعدد بار ارادے باندھے گئے۔ نعرے لگائے گئے۔ یہاں تک کہ ماضی میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو اس حوالے سے ایک مکمل جامع اور قابل عمل پروگرام بھی مقالے کی صورت میں لکھ رکھا ہے۔ جو سابقہ ادروار میں وہ نافذ کروانے کے خواہاں بھی تھے مگر بوجوہ وہ ایسا نہ کرسکے۔ صرف علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ہی نہیں۔ دامن وطن میں کئی ایک ہیرے موجود ہیں جو اسلامی بینکاری یا بلاسود بینکاری کا کسی حد تک قابل عمل نظام وضع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ کوئی بھی حکومت اگر اس کے نفاذ میں سنجیدہ اور مخلص ہو تو پھر ہی اس مقصد کے تحت تجربہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی بینکاری کے اکثر ماہرین اور اسلامی نظام معیشت کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکنگ رائج کی جا سکتی ہے۔ پھر یہ کہ ایسا نظام رائج کرنے میں کتنا وقت لگے گا، تو اُس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی بنیادوں پر معاشی نظام اگر رائج کرنا ہے تو اس کیلئے متعدد قوانین میں ترامیم کی ضرورت پڑے گی۔ پھر یہ کہ اس ضمن میں تفصیلی فیصلے کے بعد اس پر مزید تبصرہ کیا جا سکتا ہے مگر بنیادی طور پر بینکاری عدالتوں، ثالثی کے قوانین، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس اور مرکزی بینک کے نظام میں ترمیم کرنا شامل ہے۔ اس حوالے سے ایک قومی پالیسی سازی کرنا ہو گی۔ حتمی طور پر یہ کوئی سادہ آسان اور فوری روبہ عمل ہونے والا کام نہیں بلکہ اس نظام کی ترجیحات اور اصلاحات نافذ کرنے کیلئے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس سے زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے لیکن اس عرصے میں اس پر خاصی پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی حکومت مکمل طور پر اثاثوں کی بنیاد پر قائم قرضوں کی طرف جاتے ہوئے صرف سکوک بانڈز پر آ جاتی ہے تو کیا ملک کے پاس اتنے اثاثے ہیں، تو اس سوال پر ماہرین کا جواب ہے کہ اس حوالے سے کئی مختلف اثاثوں کی کیٹیگریز موجود ہیں جن میں انفراسٹرکچر، انٹرپرائزز یعنی حکومتی کمپنیاں، قدرتی ذخائر اور اتھارٹیز شامل ہیں جن کے بدلے قرض حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی بینکاری کے نفاذ پر عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے اور حقیقت میں اس میں اور روایتی بینکاری میں کوئی خاص فرق نہیں مگر یہ صرف ایک بات ہے جس سے ہر گز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ اب بھی اسلامی بینکاری نظام موجودہ روایتی نظام کے اندر کسی حد تک موجود ہے اور اگر مکمل طور پر قانون سازی اور پالیسی سازی کی جائے تو مزید ایسی پراڈکٹس بنائی جا سکتی ہیں جو سود کے بجائے تجارت کے اصولوں پر قائم ہوں مگر جب کوئی معیشت روایتی نظام پر چل رہی ہو تو آپ اس کے اندر مکمل طور پر اپنا الگ تھلگ نظام نہیں بنا سکتے لیکن متبادل پراڈکٹس کی طلب ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسے کسی نظام کے مکمل نفاذ کیلئے بطور مثال کوئی ملک یا اسلامی نظام بینکاری موجود ہے، تو اس ضمن میں ماضی میں کوششیں کی گئی ہیں لیکن ایسا کوئی مکمل نظام دنیا میں موجود نظر نہیں آیا جس سے معاونت یا استفادہ لیا جا سکے لیکن پاکستان میں ماضی میں اس حوالے سے بہت سا کام ہو چکا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ اتحادی حکومت کو اس حوالے سے موجودہ بینکنگ فریم ورک میں کچھ اصلاحات کرنا پڑیں گی۔ ان اصلاحات کے نفاذ کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ یہ پیش رفت اگر سو فیصد درست نہ بھی ہو تب بھی وقت کے ساتھ یہ ارتقا پا کر مزید بہتر ہو سکتا ہے اور بالآخر ہم بلاسود بینکاری کا نظام نافذ کرکے نہ صرف دنیا میں ایک مثال قائم کر سکتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی سرخروئی حاصل کرنے کی امید باندھ سکتے ہیں کہ روز قیامت یہ اعلان سننا نصیب ہو جائے کہ مسلمانان ہند نے اسلام کے نام پر جو ملک حاصل کیا تھا اس میں انہوں نے اسلامی احکامات کے عین مطابق اسلام کا نظام بینکاری اس وقت رائج کیا تھا جس وقت دنیا بھر میں اللہ کے خلاف جنگ کا نظام یعنی سود کا نظام نافذ تھا۔
ملکی سطح پر اسلامی بینکاری کے نفاذ کے بعد ایک اور جو سب سے بڑی الجھن پیدا ہوگی وہ یہ ہے کہ پاکستان جو قرض بیرونی ممالک یا بین الاقوامی اداروں سے لیتا ہے اس پر اسے سود دینا پڑتا ہے اور اگر وہ قرض نہ بھی لے ویسے بھی لین دین کرے تو وہ بھی سود کے بنیادی لین دین کے اصولوں کے تحت ہی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہو گا کیونکہ سود تو پاکستان نے ختم کرنا ہے عالمی اداروں یا دیگر ممالک نے تو نہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی ایسا میکنزم بنانا پڑے گا کہ کیا ہماری معیشت قرض کے بغیر چل سکے گی یا نہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر سود پر لیے گئے قرض کو ہماری حکومت ملک میں بغیر سود کے کیسے خرچ کر سکے گی یا انویسٹ کرسکے گی۔ ہمارے ماہرین معیشت اگر ان تمام معاملات کو بغیر سود کے چلانے کا فول پروف اور قابل عمل لائحہ عمل اور پروگرام نافذ کرسکتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا اور انقلابی قدم ہوگا۔ ایسی صورت میں بلاسود بینکاری کا نظام فوری طور پر پاکستان میں نافذ ہونا چاہیے کیونکہ یہ اسلام کے نفاذ کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہوگا اور اگر اسحاق ڈار یہ انقلاب برپا کر دیتے ہیں تو ان کا نام ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ریاست مدینہ کا محض نام لینے کی بجائے ریاست مدینہ کے قیام کی حقیقی راہ استوار کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button