Ali HassanColumn

ڈاکوئوں کی حکمرانی ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

پولیس نے تین مغویوں کی بازیابی کیلئے کچے کے علاقے میں آپریشن کا اہتمام کیا تھا ۔ پولیس نے کچے کے علاقے میں ہی ایک بدنام زمانہ ڈاکو کے ایک رشتہ دار کے خالی گھر میں اپنے کیمپ قائم کئے تھے لیکن اس سے قبل کہ پولیس کارروائی کرتی ڈاکوئوں نے حملہ کر دیا۔ ڈاکوئوں نے پوری قوت کے ساتھ منظم ہو کر اتنی سرعت کے ساتھ حملہ کیا تھا کہ پولیس سنبھل ہی نہ پا ئی ۔ ڈاکوئوں کے حملہ میں ڈی ایس پی سمیت پانچ اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس گھوٹکی کے علاقہ اوباوڑو کے کچے کے علاقے سے ایک ہفتہ قبل اغوا ہونے والوں کی بازیابی کیلئے گئی تھی۔ آپریشن کیلئے پولیس کے قائم کردہ کیمپ پر حملہ کے بعد پولیس بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ پولیس اس حد تک بے بس ہو گئی تھی کہ حملہ آور ڈاکوئوں کی تعداد 150بتائی گئی ہے جس میں راکٹ تک استعمال کئے گئے۔ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ ڈاکوئوں نے 25 راکٹ فائر کئے تھے ۔ پولیس اول تو بروقت جوابی کارروائی نہ کر سکی۔ جب کارروائی کی تو پو لیس کے راکٹ کام نہیں کر سکے ۔ پولیس کی بکتر بند گاڑی میں بھی گولیاں داخل ہو گئیں۔ جب پولیس نے کیمپ قائم کیا تو ڈاکوئوں نے اپنے سردار سلطو شر جسے ڈاکو سخی سلطان پکارتے ہیں، کا بدلہ لینے کی حکمت عملی تیار کی۔ پولیس نے اندازہ ہی نہیں کیا کہ پولیس سے ڈاکو سلطو کے قتل کا بدلہ لینے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ پولیس کیمپ میں وہ پولیس اہل کار بھی شامل تھا جس نے سلطو شر کو دھوکہ سے بلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ سلطو کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر پچاس لاکھ روپے کا انعام تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ہلاک شدہ پولیس اہل کاروں کی لاشیں کیمپ پر ڈاکوئوں کے چھ گھنٹے تک قبضے میں رہنے کے بعد پولیس کے حوالے کی گئیں۔ڈاکوئوںکےایک ترجمان کا وڈیو پر بیان آیاہے کہ سخی سلطان کا بھائی عمر تو اتنا برہم تھا کہ وہ ہلاک ہونے جانے والے ڈی ایس پی کی ناک کاٹنا چاہتا تھا لیکن اس کے بعض ڈاکو ساتھیوں نے لاش کی بے حرمتی سے باز رہنے کیلئے کہا اور کہا کہ پولیس ان کے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی لاشوں کو مسخ کر کے واپس دیتے ہیں لیکن ہم (ڈاکو) ایسا نہیں کریں گے۔
سلطو شرعلاقے میںتین سال پہلے خوف کی علامت بنا ہوا تھا ۔ اس کو گرفتار کرنے کیلئے فوج نے ہوائی آپریشن بھی کیا تھا جس کے بعد سلطو نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور 6 مہینے تک آرمی اداروں کی تحویل میں رہا۔ اس کے خلاف عام سے کیس داخل کئے گئے اور اسے ایک سمجھوتہ کے تحت رہا کردیا گیا۔ سلو کے بچوں کو آرمی سکول میں داخلہ دیا گیا اور اسے پابند بنایا گیا کہ سی پیک کے کاموں میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کی جائے گی اور امن امان خراب ہو نے کا ذمہ دار وہ قرار پائے گا۔ اس ڈیل کے بعد سلطو نے مجرمانہ زندگی چھوڑ دی۔ تین مہینے قبل پنجاب سے کچھ لوگ اغوا ہوئے تو علاج کیلئے صادق آباد جانے والی سلطو کی ماں اور دو بچوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ سلطو نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا کہ وہ مجرمانہ زندگی چھوڑ چکا ہے ۔ پنجاب پولیس اسے تنگ نہ کرے اور اس کی ماں کو رہا کردے اور کچھ دن بعد پنجاب سے دو بندے اغوا کرکے انکے ساتھ زبردستی کی گئی ۔ ویڈیو فیس بک پر اپلوڈ کردی گئی جس کے بعد سلطو کی ماں اور بچوں کو رہا کردیا گیا جس کے بعد کچھ مزید لوگ اغوا ہوئے اور اس طرح ایس ایچ او نے سلطو سے لوگوں کی رہائی میں مدد کیلئے بلایا اور ساتھ لے جا تے ہوئے راستے میں ہی قتل کردیا ۔ سلطو کے قتل کے بعد اس کے رشتہ داروں اور بھائیوں نے پولیس کو ایک وڈیو بھیجی جس میں دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ اسی دوران مزید تین افراد اغوا ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے کیمپ قائم کرنے پرایک مخبر نے پولیس کو خطرے سے آگاہ کیا اور علاقہ سے جلد سے جلد نکل جانے کا مشورہ بھی دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ مقتول ڈی ایس پی نے بار بار ایس ایس پی کو گوش گزار کیا کہ یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت دیں لیکن ایس ایس پی نے مغویوں کو بازیاب کرائے بغیر واپس نہ آنے کا حکم دیا ۔ رات دس بجے کے قریب 150 افراد نے راکٹ لانچر سے ان پہ فائر کھول دیا اور کمرے کے اند موجود پانچ پولیس اہلکار قتل ہوگئے۔اس حملہ کے بعد پولیس فورس کے بقایا لوگ بکتر بند گاڑی میں سوار ہو کر جان بچاکر بھاگ گئے۔ ڈاکوئوں کی کارروائی کے جواب میں پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں70 ڈاکوئوں بشمول راحب شر نامی ڈاکو جس کی گرفتاری پر دس لاکھ روپے مقرر ہیں، کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ آئی جی پولیس کہتے ہیں کہ پولیس ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ اس کارروائی میں پولیس کو عوام کا اخلاقی تعاون درکار ہوگا۔ گھوٹکی پولیس نے کچھ عرصہ قبل ہی حکومت کو جرائم پیشہ افراد کی طویل فہرست روانہ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکوئوں کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر انعام مقرر کیا جائے۔ پولیس نے بدنام ڈاکوئوں کیلئے سترہ کروڑ روپے کی رقم کا انعام رکھا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے جب کہا گیا کہ ڈاکوئوں کے پاس پولیس کے ہتھیار ہیں تو جواب میں انہوں نے کہا کہ جو ہتھیار ڈاکوئوں کے پاس ہیں وہ ہتھیار یہاں سے نہیں ، باہر سے آرہے ہیں، یہی ٹاسک پولیس کو دیا ہے کہ اسلحے کی رسد ختم کی جائے۔ اینٹی ایئر کرافٹ گن پولیس کے پاس نہیں مگر ڈاکوئوں کے پاس ہے۔ ڈاکوئوں کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ یہاں سندھ میں نہیں بن رہے ان تک کیسے پہنچ رہے ہیں ہمیں اس کا جواب ڈھونڈنا ہوگا۔ محافظ کے پاس جدید ہتھیار نہیں اور ڈاکو جدید ہتھیار سے لیس ہیں۔ سندھ کا کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جس کو نو گو ایریا کہا جاسکے۔ گھوٹکی کشمور اور شکار پور کے علاقے مشکل علاقے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کچے سے باہر آکر ڈاکوئوںنے حملہ کیا ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکوئوں کو کوئی سیاسی سپورٹ حاصل نہیں ہے، اگر کسی بھی سیاسی رہنما کی سپورٹ حاصل ہے تو آپ نام بتائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکوئوں کی سیاسی سرپرستی کے متعلق ایک سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ غلط ثابت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر رضوان نے شکارپار کے بعض سیاست دانوں کے نام لے کر رپورٹ مرتب کی تھی لیکن ان کی موجودگی میں تحقیقات کی بجائے ان کا ہی پنجاب تبادلہ کرا دیا گیا تھا۔ ان کی رپورٹ پر بڑا شور شرابہ ہوا تھا۔ سب اپنی اپنی صفائی میں بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ یہ کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں ہوتا کہ ڈاکوئوں کو کن لوگوں کی سر پرستی حاصل ہے۔ کچے کا علاقہ، علاقہ غیر تو نہیں ہے جہاں پولیس کی عملداری قائم نہ ہو سکے۔ اس علاقے میں پولیس کئی سالوں سے ناکام ہو رہی ہے۔ جس علاقے میں کئی سو ڈاکو موجود ہوں ان کے کھانے پینے اور قیام کا کوئی تو انتظام کیا جاتا ہوگا۔ یہ ڈاکو ہوا میں تو رہتے نہیں ہیں اور انہیں ضرورت کی چیزیں ہوا میں سے تو دستیاب نہیں ہوتی ہوںگی۔ ہر بار پولیس ڈاکوئوں کے خلاف با مقصد کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہتی ہے، اس سوال کا جواب تو پولیس افسران سے پہلے حکومت سندھ کے کرتا دھرتا صاحبان کو دینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button