ColumnImtiaz Aasi

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کاقتل ہے، پرانے وقتوں میں کوئی قتل ہوجاتا تو سرخ آندھی چلتی تھی جو علامت ہوا کرتی کہ کہیں قتل ہو گیا ہے جس سے پورے علاقے کی فضا سوگوار ہو جاتی۔قرآن پاک اور احادیث سے ثابت ہے کسی کو ناحق قتل کرنا سنگین جرم ہے بلکہ اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اسلامی ریاست میں رہنے والوں کو خون ناحق سے روکا گیاہے اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ قاتل کوسزا دے ۔شریعت میں خون کا بدلہ خون ہے البتہ مدعی قاتل کو معاف کردیں تو معاف کرنے والوں کرنے والوں کیلئے اجرعظیم کی بشارت دی گئی ہے۔ انسانی معاشرے میں قتل جیسے واقعہ کا وقوعہ پذیر ہونا نئی بات نہیں روزمرہ زندگی میں نہ جانے کتنے لوگ قتل ہورہے ہیں۔ہمارے ہاں قتل کی سزا موت اور عمر قید ہے۔مشرف دور میں کتنے قاتلوں کو پھانسی دے دی گئی اس کے باوجودقتل کے واقعات میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ قاتل کی گرفتاری اورسزا کی صورت میں مقتول کے خاندان کی کچھ اشک شوئی ہو جاتی ہے۔بسااوقات ایسے حالات میں قتل ہو جاتے ہیں جس بہیمانہ طریقہ سے اینکر ارشدشریف کوبیرون ملک قتل کیا گیاکلیجہ منہ کو آتا ہے پھر اس پر یہ کہ قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں ۔شہیدارشد کا خاندان جس کرب سے گذررہا ہوگااسے الفاظ میں بیان نہیں کیاجا سکتا۔ارشد شریف کی عمررسیدہ والدہ اور اس کے بیوی بچے ارشد کے دیار غیر میں ظالمانہ قتل سے غم سے نڈھال ہیں انہیں پرسا دینے والا کوئی نہیں۔ پاکستانی میڈیا نے شہید ارشد شریف کے ظالمانہ قتل کو جس طرح اجاگر کیا وہ قابل ستائش ہے۔مظلوم اپنی جان بچانے کی خاطر ملک چھوڑ گیا ظالموں نے بیرون ملک اس کا پیچھا کیا اور آخرا سے ظالمانہ طریقہ سے شہید کر دیا گیا۔ اس کا سچ اور حق بات کہنا شاید یہی اس کا جرم بن گیا ۔ارشد شریف کی بوڑھی والدہ اپنے شوہر اور نوجوان بیٹے جو آرمی میں آفیسر تھا کا غم بھلا نہ پائی تھی اسے ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک اردو معاصر کی چونکا دینے والی خبر کے مطابق شہید کی پہلے پسلیاں توڑی گئیںاور انگلیوں کے ناخن اتارے گئے تین گھنٹے ٹارچر کے بعد اسے ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیااس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا خرم درناک منظر دیکھتا رہا۔
کینیا کی کسی عدالت میں مقدمہ چلے گا تو خرم چشم دید گواہ ہے وہاں کی پولیس کی ملی بھگت سے یہ سب کچھ ہوا تو چشم دید گواہ کیاکریں گے۔وہ حکومت کیلئے ناپسندیدہ شخص تھا اپنی ماں کا تو پیارا تھا۔ارشد کو موت کہاں لے گئی جہاں پہلے سے امریکی بلیک واٹر کی موجودگی کی خبریں ہیں۔اس سارے قصے کے پس پردہ حقائق کاجاننا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اندرون اور بیرون ملک سازش میں ملوث لوگوں کا پتا چلایاجاسکے۔ایف آئی اے اورآئی بی کی تفتیشی ٹیم کینیا سے واپس آچکی ہے۔اصولی طور پر رپورٹ کا منظر عام پر آنا اس لیے ضروری ہے تاکہ سازش میں ملوث افراد قانون کے کٹہرے میں لائے جا سکیں۔اصولی طور پر اس دلخراش سانحہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کو جائے وقوعہ والے ملک جا کر شواہد جمع کرنے چاہیں۔حکومت نے جلد بازی میں ایک متنازعہ سابق جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا تھا بعض حلقو ں کی جانب سے کمیشن کے سربراہ پر تنقید سے کمیشن کے سربراہ نے خود کی معذرت کر لی لیکن حکومت کو نیا کمیشن تو بنانا چاہیے تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی ارشد کے قتل کو معمول کا قتل قرار نہیں دیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جلد از جلد جوڈیشل کمیشن کو بیرون ملک بھیجے ۔افسوناک پہلو یہ ہے شہید کے لواحقین کو پوسٹمارم رپورٹ فراہم نہیں کی جا رہی ، بھلا پوسٹمارم رپورٹ کو صیغہ راز میں رکھنے کے مقاصد کیا ہیں۔عام طورپر تشدد اس وقت کیاجاتا ہے جب کسی سے کسی قسم کی معلومات کا حصول ہو۔پوسٹمارٹم رپورٹ میں مقتول کو لگنے والی ضربات کا پتا چلایا جاتا ہے یایہ جانا جاتا ہے کہ مرنے والے کو گولی قریب سے ماری گئی یا دور سے ۔اگر قریب سے گولی لگی ہو تو زخم پر Blackening آجاتی ہے ورنہ دوسری صورت میں Blackening نہیں ہوتی۔ ارشد شریف کیس کے پس پردہ محرکات جب تک منظر عام پر نہیں لائے جائیں گے اس کی شہادت معمہ بنی رہے گی۔شہید کی موت کا پتا اور اس ساز ش میں ملوث افراد کو صرف اسی صورت میں پتا چلایا جا سکتا ہے جب جوڈیشل کمیشن ارشد شریف کی ملک سے بیرون ملک روانگی اور جس جس ملک میں اس نے قیام کیا اور جن حالات میں اسے ملک چھوڑنا پڑا تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے انکوائری کرے تو قاتلوں تک پہنچنے تک آسانی ہو سکتی ہے۔ارشد شریف کے ہمراہ سفرکرنے والوں کو جب تک حراست میں نہیں لیا جائے گا اس وقت تک اصل حقائق تک پہنچنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہو گا۔اگرچہ ایف آئی اے اور آئی بی والوں نے ارشد شریف کے ہمراہی افراد سے پوچھ گچھ تو کی ہوگی لیکن انہیں حراست میں لیے بغیر اصل حقائق تک پہنچنا مشکل ہوگا۔بدقسمتی سے ملک میں سیاست دانوں اور صحافیوں پر قاتلانہ حملوں کی بری رسم چل پڑی ہے جس کے سدباب کیلئے تما م سیاست دانوں کو خلوص دل سے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ انکوائری تو محض رسمی کارروائی تھی جو پوری ہو چکی ہے اگر اصل قاتلوں کو اور اس ساز ش میں ملوث لوگوں کا پتا چلانا ہے تو جوڈیشل کمیشن کو بیرون بھیجنا ہوگا۔یوں تو ملک میں کئی صحافی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ان کے قاتلوں کو سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ارشد کی موت بیرون ملک ہوئی ہے پیرانہ سالی میں اس کی والدہ ،بیوہ اوربچے کس کس کے ہاتھ پر اس کا لہو تلاش کریں گے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی کمیٹی(جے پی سی)نے ارشدشریف کے ظالمانہ قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کی نگرانی میںکرانے کا مطالبہ کیا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ارشدشہید کا خون چھپایانہیں جا سکے گا اور جن ہاتھوںنے اس کے قتل کے بعد دستانے پہن لیے ہیں وہ بے نقاب ہوجائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button