Editorial

جوڈیشل کمیشن کیلئے وزیراعظم کے خطوط

وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس پاکستان محمد عمر عطاء بندیال کو دوسرا خط لکھ دیا ہے جس میں عمران خان پر فائرنگ کے واقعہ کے حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔ خط میں وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے جوپانچ سوالات پر خاص طور پر غور کر سکتا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے وہ پانچ سوالات بھی تفصیلاً خط میں لکھے ہیں اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال سے سینئر صحافی اور اینکر ارشد شریف کے قتل کے حقائق جاننے کے لیے بھی بذریعہ خط جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے اور اِس خط میں بھی پانچ سوالات غور کرنے کے لیے پیش کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط کے بعد ہم پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بات کرتے ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ ملکی مستقبل کے لیے تحریک انصاف کے دروازے تمام جمہوریت پسند قوتوں کے لیے کھلے ہیں۔ وزیر آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر ہونے والے حملے کی مضحکہ خیز ایف آئی آر کے معاملے پر میرے وکیل اپنا موقف دیں گے۔ عمران خان وزیر آباد لانگ مارچ پر حملہ اور خود پر فائرنگ کی درج ہونے والی ایف آئی آر کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب آتے ہیں آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار کے معاملے پر،جن سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ناراض ہے کیونکہ اُن کی درخواست کی بجائے پولیس نے خودمدعی بناکر وزیر آباد واقعے کی ایف آئی آر کٹوائی ہے، یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی پنجاب فیصل شاہکا ر کی خدمات واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، قبل ازیں فیصل شاہ کارنے آئی جی پنجاب کے عہدے پر کام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھا تھا کہ وہ موجودہ حالات میںپنجاب میں خدمات سرانجام نہیںدے سکتے، انہیں واپس بلا لیا جائے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق پنجاب حکومت نے اُن کی جگہ نئے آئی جی پنجاب کا بھی انتخاب کررکھا ہے۔ ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پولیس افسران نے سیاسی دبائو کے باعث اپنے عہدوں پرکام کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے رابطہ کیا تھا۔ایک طرف وفاقی حکومت نے آئی جی پنجاب کی خدمات واپس لینے سے انکار کردیا ہے تو دوسری طرف پنجاب حکومت نے آئی جی پنجاب کی خدمات واپس لینے کے لیے وفاق کو خط لکھ کر دیااور اِس خط میں واضح کیاگیا ہے کہ صوبائی کابینہ آئی جی پنجاب فیصل شاہ کار کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ آئی جی پنجاب کی کارکردگی مایوس کن ہونے کی بناپر وفاق میں خدمات واپس لی جائیں۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجے گئے خط میں جو پانچ سوالات اٹھائے ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو درحقیقت یہ پانچ سوالات کم و بیش وہی ہیں جن پر ذرائع ابلاغ میں بھی کھل کربات ہورہی ہے اور خود سیاست دان بھی اپنے موقف میں یہی باتیں بیان کرچکے ہیں، اسی طرح ارشد شریف کے معاملے میں بھی جو سوالات وزیراعظم پاکستان نے اُٹھائے ہیں اُن کا معاملہ بھی کم و بیش وہی ہے جو میڈیا پر زیر بحث ہے اور عمران خان مخالف قوتوں کا اپنا موقف بھی۔ چند روز قبل وزیراعظم شہبازشریف نے پریس کانفرنس میں واضح طور پر چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی تھی کہ عمران خان پر حملے کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں اسی طرح ارشد شریف کے معاملے پر بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز اور اٹھائے گئے سوالات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ عمران خان نے اسلام آباد کے سوا تمام شہروں میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہمارے نزدیک یہ فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ کم و بیش ایک ڈیڑھ ہفتے سے پوری قوم اور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا ہمارے ملک میں ہونےوالے احتجاج کے مناظر دیکھ رہی ہے، احتجاج، دھرنا، پیش قدمی، گھیرائو کے مناظر ہر اُس پاکستانی کے لیے ناقابل دید ہیں جو ملک میں امن و خوشحالی اور استحکام کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ شرپسند گورنر ہاؤس پنجاب اور دیگر مقامات پر پرتشدد حملے کر رہے ہیں۔ رہائشی اداروں بالخصوص مسلح افواج کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ مسلح افواج کے خلاف بے بنیاد الزامات کی غلیظ مہم چلائی جا رہی ہے۔ مسلح افواج پر وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر سازش کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ درست حقائق کے تعین کیلئے وفاقی حکومت کی رائے میں سپریم کورٹ کا کمیشن بننا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کا کمیشن ذمے داروں کا تعین کرے اور اصل حقائق سامنے لائے۔ موجودہ حالات امن عامہ اور پاکستان کی ریاستی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔پرتشدد ہنگامہ آرائی سے ریاست افراتفری اور شہریوں کے جان و مال کو خطرات ہیں۔ پاکستان اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج ہو رہی ہے۔عمران خان کے جلوس میں فائرنگ کے افسوسناک واقعہ سے ملک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ اس مقصد کے حصول میں وفاقی حکومت کمیشن کو مکمل معاونت فراہم کرے گی۔ عمران خان کے جلوس پر فائرنگ کے واقعہ سے ملک امن و امان کے بحران کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی لیڈرز زہر آلود تقاریر کر رہے ہیں۔ درحقیقت وزیراعظم پاکستان نے اپنے خط میں جو منظر کشی کی ہے، اِس کی تردید قطعی ممکن نہیں کیونکہ دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان شاہد ہیں، پس کیا جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کے بعد یہ ہیجانی کیفیت ملک سے چلی جائے گی اور معمولات زندگی دوبارہ بحال ہوجائیں گے؟ ریاست میں پرتشدد ہنگامہ آرائی سے افراتفری کا ماحول محسوس اور بیان تو کیا جارہا ہے، پس اِس کے خاتمے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، شاید ننانوے فیصد پاکستانی نہیں جانتے، البتہ تشویش کا شکار ہر پاکستانی ہے کیونکہ موجودہ حالات کو بیان کرتے ہوئے کہیں بھی ہم امن رواداری، خوشحالی، سکون اور اطمینان کا ذکر نہیں آتا البتہ تشویش ناک لہجے سے عدم برداشت، کردار کشی، جلائو گھیرائو، پرتشدد ہنگامہ آرائی، پیش قدمی اور کج بحثی کا بارہا ذکر ہوتا ہے پس عام پاکستانی کی گفتگو سے بھی ملکی صورت حال کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ، وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے اپنے خطوط میں جو صورت حال بیان کی ہے یہ صورتحال ہر پاکستانی کو نظر بھی آرہی ہے اور یہ سبھی باتیں زبان عام بھی ہیں پس کہیں کسی سمت میں کوئی اِن ساری چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہے، غلط فہمیاں کیسے دور ہوں گی، لہجے ، رویے اور سوچ کیسے بدلے گی اور کون اِس کے لیے کوشش کرے گا، نہیں معلوم۔ پہلے عمران خان کا مطالبہ جلد انتخابات کی تاریخ تھا، اب ان کے مطالبے میں ایف آئی آر بھی شامل ہوگئی ہے، حالات جس تیزی کے ساتھ تلخیوں اور خرابی کی طرف جارہے ہیں پتا نہیں بات کہاں جاپہنچے ، پس سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا وہی لوگ ہیں جن کے آبائو اجداد نے اِس عظیم وطن کے لیے قربانیاں دیں اورجن کا جینا اور مرنا سب کچھ یہیں ہے، لہٰذا اُن کی تشویش بجا بھی ہے ، مگر اِس بے بس اکثریت کی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں ، سنسنی اور ہیجان میں اضافہ عام پاکستانی کی تشویش میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور زیادہ تشویش ناک اِس کے خاتمے کے لیے کوششیں ہوتی نظر نہ آنا ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم کا جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے خط اُن کی نیک نیتی ظاہر کرتا ہے اور جوڈیشل کمیشن پر سبھی اعتماد کرتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کیسے اور کب ہوگا، مرکز اوردونوں صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تعلقات مثالی نہیں ہیں اور وزیراعظم پاکستان کے خط سے بھی بخوبی ظاہر ہوتا ہے، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مرکز اورپنجاب کے درمیان کھینچاتانی کاشکار ہیں، پس ہر طرف سیاست ، سیاست اور صرف سیاست ہو رہی ہے اور اسی دھن میں ریاست اورعوام شدید متاثر ہورہے ہیںاور جلد ازجلد بے یقینی کی اِس صورت حال کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ سیاست دان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر یقین نہیں رکھتے وگرنہ کشیدگی اور حالات اِس نہج تک نہ جاتے، پس محسوس ہوتا ہے کہ توقع کے ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button