ColumnNasir Sherazi

اوراب لائف سیونگ .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

سورج گرہن کے ساتھ شروع ہونے والا مارچ متعدد افراد کو نگلنے کے بعد وزیر آباد کے مقام پر اختتام پذیر ہوا۔ پہلا خون ایک خاتون اینکر کا ہوا پھر کنٹینر کی ٹکر سے ہلاکتیں ہوئیں۔ تین بچوں کا باپ گولی کا نشانہ بنا اور آخر میں نام نہاد حقیقی آزادی حاصل کرنے کے شوق میں بجلی کے پول پر چڑھ کر نعرے لگانے والا کرنٹ لگنے سے جل کراوندھے منہ زمین پر گرا اور زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگیا۔ آٹھ گھروں کے چراغ بجھ گئے، دو کے گھروںتک مالی امداد پہنچی لیکن یہ امداد ان کی زندگیاں واپس نہیں لاسکتی، دیگر جاںبحق ہونے والوں کے اہل خانہ ہر آہٹ پر گلی میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے دروازے پر دستک دینے والا کوئی امداد لیکر نہیں پہنچا فقط جھونکا ہوا کا تھا۔ گولی چلنے کے بعد آزادی مارچ کے لیڈران کرام اور ترجمانوں نے جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہ سب دیکھ کر افسوس ہوا۔ پہلی خبر دی گئی پانچ گولیاں لگی ہیں پھر بتایاگیا چارگولیاں لگی ہیں، چارگھنٹے بعد تعداد تین ہوگئی، ہسپتال پہنچ کر اطلاع آئی کہ ایک گولی ہے،ایکسرے رپورٹ جاری ہوئی تو دکھایاگیاایک ہی گولی کے ٹکڑے دونوں ٹانگوں میں لگے ہیں، جب سوال اٹھایاگیا کہ گولی کے تو ٹکڑے ہوتے ہی نہیں البتہ بم کے ٹکڑے ہوتے ہیں پھر بیان جاری ہوا کہ ایک گولی دونوں ٹانگوں کو چھوکر گذر گئی ہے۔ اگر اسے درست جان لیا جائے تو پھر دونوں ٹانگوں پر پلاسٹر کیسا؟ جناب چیئرمین عمران خان ہسپتال سے گھرمنتقل ہوئے تو معروف قانون دان ان کی مزاج پرسی کے لیے آئے، اس موقعہ کی ایک تصویر میں ایک ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہے دوسری ٹانگ بالکل ٹھیک نظر آرہی ہے، نہ پٹی نہ پلاسٹر۔ ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ ایک ٹانگ پر پلاسٹر نظریہ ضرورت کے تحت کیاگیا اس کی چنداں ضرورت نہ تھیں، مزیدبرآں جس کی ٹانگ میں ایک بھی گولی لگ جائے تو وہ اوپر کی منزل سے نیچے اپنے قدموں پر چل کر نہیں بلکہ سٹریچر پر لیٹ کر اُترتا ہے۔ ریسکیو 1122 کی ٹیم وہاں موجود تھی لیکن ان کی خدمات کی اس لحاظ سے ضرورت پیش نہ آئی۔ فیصل جاوید کے رخسارکا بوسہ لینے والی گولی شرارتی تھی انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔
عجلت میں زمینی حقائق کا ادراک کئے بغیر اعلان کردیاگیا کہ دو روز بعد وہیں سے مارچ شروع ہوگا جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔ ایک روزبعد اعلان کیاگیا کہ مزید دو دن کا وقفہ بڑھادیاگیا ہے۔ دو روز بعد حقیقت کھلی کہ اب صفیں آراستہ کرنے میںدقت کا سامنا ہے، بی کلاس لیڈر شپ کے پیچھے چلنے کے لیے کوئی تیار نہیں، پھر خیال آیا کہ رواں سال کا آخری چاند گرہن شروع ہورہا ہے اس کے اثرات سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ سورج گرہن جو کچھ نہ کرسکا وہ اب چاند گرہن کرجائے۔ افرادی قوت اکٹھا کرنے والے کل پرزوں کو خوب چابی دی گئی لیکن تسلی بخش نتائج نہ آئے، پس اب نیا پروگرام دیاگیا ہے کہ ہر قسم کا مارچ ختم، اب احتجاج صرف راولپنڈی اسلام آباد میں ہوگا۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ ایک اڑن طشتری میں سے کچھ لوگ اُترے انہوں نے چند منٹ قیام کیا اور اہم پیغام پہنچایا کہ اب کوئی نیا تماشا نہیں ہونے دیا جائے گا یہ پیغام ملنے کے بعد سب کے چہرے لٹک گئے۔
یاد دہانی کے لیے عرض ہے قائد ملت لیاقت علی خان نے جب راولپنڈی کمیٹی باغ میں جلسہ رکھا تو انہیں بتایاگیا کہ تخریب کاری کا اندیشہ ہے، اس سے پہلے کسی نے تخریب کی شکل نہ دیکھی تھی، لہٰذا کسی ذہن میں میں اس کی تصویر نہ بن سکی، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ قاتل اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے دھاتی گولیاں وزیراعظم کے سینے میں اُتاردیں۔
کئی دہائیوں بعد تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا، بینظیربھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہ چکی تھیں، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش انہیں پاکستان کھینچ لائی انہیں متعدد مرتبہ سمجھایاگیا اور بتایاگیا کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، وہ نہ مانیں، ان کا خیال تھا انہیں انتخابات سے دور رکھنے کے لیے سازش کی جارہی ہے، درحقیقت وہ ایک مقبول ترین لیڈر ہیں ان کی جان کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، اسی سوچ کے اسیروں نے ان کی حفاظت کے لیے فقط رسمی سے انتظامات کئے،ان پر کراچی میں ایک ریلی کے دوران حملہ ہوا جس میں وہ اور ان کے ساتھی معجزانہ طور پر بچ گئے اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور تجربہ کار سیاست دان مصطفی کھر نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنا مقصود نہ تھا انہیں صرف ڈرایاگیا ہے، انہیں جب بھی قتل کیاگیاپنجاب میں قتل کیا جائے گا تاکہ ملک دشمن عناصر اس واقعے سے دوصوبوں میں رہنے والوں کے درمیان نفرت پھیلا سکیں۔ مصطفی کھر سے بغض و رقابت رکھنے والوں نے ان کا مذاق اڑایا لیکن وہی ہوا جس کا انہوںنے خدشہ ظاہرکیا تھا، بینظیر اسی کمیٹی باغ میں ایک جم غفیرسے خطاب کے لیے آئیں جسے لیاقت علی خان کے قتل کے بعد لیاقت باغ کا نام دیاگیا تھا، انہوں نے حاضرین سے بھرپور خطاب کیا وہ ایک بڑا مجمع دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائی تھیں۔ وہ جلسہ گاہ سے باہر نکلیں تو موت ان کے تعاقب میںتھی ، پہلے بم دھماکہ ہوا پھر گولی چلی، بے نظیر بھٹو اپنی بلٹ پروف گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے گولی کی زد میں آگئیں، ان کی گاڑی کے ٹائرگولیوں سے چھلنی ہوگئے لیکن ڈرائیور گاڑی کو ہسپتال تک لے جانے میں کامیاب ہوگیا، انہیں جب سٹریچر پر ڈالا گیا تو خون زیادہ بہہ جانے کے باعث وہ انتقال کرچکی تھیں۔ جس طرح بچوں کی پیدائش میں وقفے کے فائدے ہیں اسی طرح سیاست میں وقفہ لینے کے فائدے ہیں بالخصوص جب وقت کی آندھی اس موڈ میں ہو کہ وہ سامنے آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کردے گی تو وقفہ مزید ضروری ہوجاتا ہے، تیز آندھیوں کے سامنے تن کر کھڑے رہنے والے درخت سے اکھڑ جاتے دیکھے ہیں، جنہوں نے اس قسم کی آندھیوں میں وقفہ لینا مناسب سمجھا وہ آج ایک مرتبہ پھر ایک نئے انداز میں سیاست کے میدان میں کردار اداکرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
غلطی پہلی بار ہو تو غلطی کہلاتی ہے، بار بار کی جائے تو اسے کوئی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اسے عادت کہا جاتا ہے، فیس سیونگ خوش قسمت لوگوں کو زندگی میں ملتی ہے لیکن بار بار نہیں ملتی، اسے بھی اللہ تعالی کی طرف سے نعمت و انعام سمجھ کر اس کی قدر کرنا چاہیے، بے قدری کرنے کا انجام اچھا نہیں ہوتا، زندگی میں ایک مقام ایسا آجاتا ہے جب لائف سیونگ کی خواہش ہوتی ہے، مگر وہ نہیں ملتی۔ تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور قبرستان ایسے لوگوں سے آباد ہیں جو سمجھتے تھے کہ وہ ناگزیرہیں، کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، ایک منظر سے ہٹتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے کئی متبادل تیار ہوچکے ہوتے ہیں،وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے، نئے دور کے تقاضے بھی نئے ہیں، چہار جانب تبدیلیاں نظر آئیںگی لیکن وہ نہیں جن کا راگ چار برس سنتے رہے بلکہ کچھ اور ،میرا قلم ایک بار پھر لائف سیونگ پر آکررک گیا ہے،خان کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button