Columnمحمد مبشر انوار

قفس! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

اللہ رب العزت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اور بلاشبہ آزادی ایک غیر معمولی نعمت ہے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کیلئے آزاد منشوں کو نہ صرف بہت سی صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں بلکہ قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے اگر آزادی کی خواہش و اہمیت دلو ں میں موجود ہووگرنہ خوئے غلامی رکھنے والوں کیلئے آزادی ایک شجر ممنوعہ ہے،جس کی طرف دیکھنا بھی ان کیلئے محال ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں بنی نوع انسان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی ہوئی موجود ہیں کہ جہاں انسانی گروہ؍قوم نے اپنی آزادی حاصل کرنے کیلئے یا اس کو قائم رکھنے کیلئے ایک طرف سخت محنت و جہد مسلسل رکھی ہے تو دوسری طرف اس کیلئے بے مثال قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کیا۔ دور حاضر کی سب سے بڑی مثال برصغیر پاک و ہند میں تحریک آزادی رہی ہے کہ جس میں قیادت کی اخلاقی ساکھ نے ایک ناممکن کو ممکن بنایا تو دوسری مثال افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی طویل ترین جدوجہد تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے عبارت ہے کہ اپنے اصولی مؤقف کی خاطر تاریخ کی سب سے لمبی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اپنی قوم کو آزادی دلائی۔ بابائے قوم اس حوالے سے اپنے تما م ہم عصروں سے انتہائی منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں کہ اپنے اصولی مؤقف کے حصول میں ایک دن بھی کسی غیر قانونی عمل کا حصہ نہیں بنے اور نہ ہی حکومتی قید و بند کی صعوبت میں انہیں دھکیلا جا سکا،بابائے قوم کے اس وصف کی ساری دنیا غیر مشروط طور پر معترف ہے۔ پاکستان کا حصول ایک طرف برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا قیام تھا تو دوسری طرف اسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تجربہ گاہ بھی بننا تھا،مؤخرالذکر کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں ایک طبقہ فکر کے مطابق نئی ریاست کو لبرل رہنا تھا جبکہ دوسرا طبقہ اس کو اسلامی ریاست سے تعبیر کرتا ہے،لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ نئی ریاست نہ تو حقیقی معنوں میں لبرل بن پائی ہے او رنہ ہی اسلامی ریاست بن سکی ہے البتہ ایک تجربہ گاہ ضرور بنی ہوئی ہے ۔ایک ایسی تجربہ گاہ کہ جس میں ایک مخصوص طبقہ اس ملک کے اندر اپنی مرضی کے مطابق تجربات کررہا ہے کبھی اس کو صنعتی بنایا جاتا ہے(ابتدائی دور،جو کہ حقیقتاً ہونا چاہیے تھا)،کبھی اس پر من پسند اسلام کی چھاپ لگائی جاتی ہے اور کبھی اس کو روشن خیال اسلام کا گہوارہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔
گذشتہ75سالوں میں،دور کوئی بھی رہا ہو، اس ریاست پر کسی نہ کسی حوالے سے فاشزم بہرصورت واضح رہا ہے اور وہ آزادی جس کیلئے بابائے قوم نے جدوجہد کی تھی،وہ آزادی اس قوم کو تاحال نصیب نہیں ہوئی۔جمہوری ادوار کی کہانی اس سے بھی بدتر نظر آتی ہے کہ کہنے کو جمہوری دور رہے ہیں لیکن ان جمہوری ادوار میں بھی قائدین کی شخصی فرعونیت کا اظہار رہا ہے ،کسی بھی موقع پر یہ محسوس نہیں ہوا کہ سیاسی قائدین اس ملک میں جمہوری ادوار کے فروغ کا باعث بن رہے ہوں یا اس قوم کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہوں۔ قریباً تمام سیاسی جماعتوں کی ساخت،شخصیت پرستی پر قائم ہے اور نسل در نسل قیادت ایک خاندان کی ملکیت نظر آتی ہے۔
ماسوائے دو جماعتوں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم،کہ جس میں سیاسی قیادت کی نسلیں تو نہیں ہیں لیکن ان کا ملکی سیاست میں کردار بتدریج ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ عمران خان کے گذشتہ دور حکومت سے عوام کو یقیناً بہت سی توقعات اور امیدیں تھی کہ عمران خان کا ماضی ایسی توقعات اور امیدیں وابستہ کرنے کیلئے بنیاد مہیا کرتا تھا لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں جاتے ہی،عمران خان بھی کان نمک میں نمک بنتے نظر آئے۔ یہ الگ بات کہ عمران خان کی مجبوریاں کیا رہیں کہ اقتدار میں ہر حکمران ان مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے اور ہر حکمران ان مجبوریوں کو ہی جواز بناتا نظر آتا ہے لیکن کسی بھی حکمران بشمول عمران خان، نے ایسے اقتدار کو کبھی لات رسید کرکے عوامی حقوق کی بات نہیں کی۔دوسری ناقابل تردید حقیقت یہ بھی واضح ہے کہ سابقہ حکمرانوں کو جب بھی اقتدار سے نکالا گیا وہ اپنی مجبوریوں کا رونا روتے تو نظر آئے لیکن کسی ایک کو بھی ایسی عوامی پذیرائی نصیب نہیں ہوئی جو گذشتہ سات مہینوں سے عمران خان کا مقدر بنی نظر آئی ہے حتی کہ قومی مزاج و رد عمل کو مدنظررکھتے ہوئے،عمران خان بھی اقتدار سے نکلنے کے بعد گھر جا چکے تھے ۔ یہ تووہ عوامی احتجاج تھا جس کی وجہ سے عمران خان کو عوام کی قیادت کرنا پڑی اور یہ احتجاج دن بدن بڑھتا ہوا ہی نظر آیا ہے ،کسی ایک دن بھی اس احتجاجی لہر میں کمی نہیں دیکھی گئی حالانکہ مخالفین عمران خان کے حمایتیوں کو ’’ممی ڈیڈی‘‘کا لقب دیتے نہیں تھکتے تھے اور اکثر ان کی زبان پر یہ کلمات رہتے کہ اس ہجوم کو دو ڈنڈے؍جوتے پڑے تو یہ کہیں نظر نہیں آئیں گے،جو فاشزم سوچ کا مظہر ہے۔مخالفین کے اس مفروضہ کو تحریک انصاف کے کارکنا ن نے 25مئی کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا، ریاستی مشینری کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کردیااور عمران خان نے اس احتجاج کو ’’حقیقی آزادی مارچ‘‘کا نام دے دیا ہے۔
اختیار و اقتدار کے حامل جب اصولوں کی بجائے ذاتی مفادات کے تابع ہو جائیں تو ایسے احتجاج اور اس کے قائدین سے نپٹنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے اور اپنے اختیار کی راہ میں کھڑی رکاوٹ کو ہر صورت گرانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہی حال ماضی میں قائد ملت لیاقت علی خان ،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور دختر مشرق بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوااور دور حاضر میں عمران خان پر بھی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے،اس پر طرح طرح کی تاویلیں تو گھڑی جا رہی ہیں لیکن میری دانست میں یہ حملہ عمران خان کیلئے تنبیہ ہو سکتی ہے۔ اگر عمران خان اب بھی اپنے اس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹتے تو مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے اور نتیجہ میں ملک میں کیا ہو گا،اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کل ہی شفیق آباد راولپنڈی میں ایک شخص بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی کی ننگی تاروں کو چھو چکا ہے۔حکمران اس عوامی رد عمل سے صرف اسی صورت لاتعلق ہو سکتے ہیں کہ جب ان میں بے حسی کا مادہ ختم ہو جائے وگرنہ ملک و قوم کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے تو عوامی جذبات واحساسات کا خیال رکھا جاتا ہے جیسا کہ بالعموم مہذب اقوام کرتی ہیں۔فاشزم کی اس سے بڑی مثال اورکیا ہو سکتی ہے کہ ریاستی مشینری اپنے فرائض منصبی اداکرنے کیلئے بھی طاقتوروں کے اشارہ ابرو کی منتظر نظر آتی ہے اور عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر بھی سپریم کورٹ کی مداخلت بلکہ واضح حکم پر درج ہوتی ہے اور اس میں بھی قانون کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔میڈیا پر ایف آئی آر کا جو متن گردش میں ہے،اس کے مطابق ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جو ضابطہ فوجداری کی بنیادی اساس سے متصادم ہے کہ مضروب حیات ہے اور اس کی درخواست کے برعکس وزیرآباد پولیس مصر ہے کہ ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں درج کی جائے گی۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ایف آئی آر کو سپریم کورٹ فی الفور کالعدم قرار دے گی اور اپنے سابقہ حکم نامے کے مطابق پولیس کو بھرپور طاقت فراہم کرتے ہوئے مدعی کی درخواست کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے گی۔ تاہم ایف آئی آر درج کرنے کے اس کھیل میں، پنجاب حکومت کے اتحادیوں کے درمیان جو اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے،وہ مونس الٰہی کے ایک ٹویٹ نے ناکام بنا دی ہے لیکن یہ کوششیں بہرطور جاری ہیں اور سب سے زیادہ دباؤ چودھری پرویز الٰہی پر ہے۔اس ایک مثال سے کم از کم یہ واضح ہے کہ پاکستانی شہریوں کو کون سی آزادی میسر ہے کہ ملک کا سابق وزیر اعظم اپنی منشا کے مطابق ایف آئی آر درج کروانے سے قاصر ہے ،وہ آج ملک میں قانون کی بالا دستی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہر طاقتور کو قانون کے سامنے سرنگوں کرنے کا خواہشمند ہے اور عوام اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اپنی ماضی کی حکمرانی میں وہ ایسا کرنے میں ناکام کیوں ہوا اور کیوں بیساکھیوں کا سہارا لیا کہ آج وہ مقبولیت کی جس معراج پر ہے،امید یہی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی کارکنان کو ٹکٹ دے کر رکن اسمبلی بنا کر اصلاحات کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستانی شہری یقیناً حقیقی آزادی حاصل کر لیں گے اور اس قفس کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے،کیا قفس ٹوٹ سکے گا،اس فیصلے کا انتظار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button