Ali HassanColumn

خلفشار کی سیاست ! ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

پاکستان جب قائم ہوا تو آج کے مقابلے میں صورت حال انتہائی بر عکس تھی۔ خستہ حال ملک میں وسائل کا بدتر فقدان تھا، سہولتوں کی کمی تھی بلکہ نہ ہونے کے برابر تھیں، مراعات وغیرہ کا تصور نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن ملک میں قانون کی پاسداری، انصاف کی عملداری، اخلاق کی بلندی تھی۔ آج جب بہت کچھ موجود ہے لیکن اخلاقی پستی بہت گہری ہو چکی ہے، کیا ملک اسی طرح چلتے ہیں۔ ابتداء اس وقت ہوئی جب بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گراف لیک کئے جاتے تھے۔ ان فوٹو گراف کی ایڈیٹنگ ہوتی تھی اور عوام میں پھیلا ئے جاتے تھے۔ بعد میں ان فوٹو گراف کو پھیلانے کے لیے ہوائی جہاز بھی استعمال کئے گئے۔ اب ٹیکنالوجی ترقی کر گئی ہے، مواصلات کی ایسی سہولتیں دسترس میں ہیں کہ لمحہ بھر میں جو چاہا، وہ اِدھر سے اُدھر بھیج دیا۔ اسی دوران ویڈیو فلمیں بھی لیک ہوئیں جن میں سے کئی کو تو اخلاق باختہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان وڈیو فلموں کا تعلق سیاست دانوں سے ہے۔ سیاست دانوں میں کوئی مخصوص گروہ یا گروپ محدود نہیں ہے۔ یہ برملا ایسی جنگ ہے جو ملک کو کسی اندھی سرنگ میں دھکیل رہی ہے۔ اندھی سرنگ میں داخل ہونے کا نتیجہ بہت واضح ہے۔ خلفشار ہی خلفشار۔
بیانات کی صورت میں الفاظوں کی لڑائی سے ابتداء ہوئی۔ کسی کے ساتھ کسی نے بھی کوئی رعایت نہیں کی۔ الفاظوں کا ایسا چنائو کیا گیا جو کسی طور پر اخلاقی قدروں سے ہمکنار نہیں تھا۔ طنز کرنا تو معمولی بات ہے، ایک دوسرے کے نام رکھے گئے۔ ایک دوسرے کی نقلیں بنا کر تقاریر کی گئیں۔ پھر آڈیو لیک کا سلسلہ شروع ہوا،اکثر آڈیو ایڈیٹ شدہ بتائی گئی تھیں، یہ تو کاریگر لوگ ہی سمجھتے ہیں کہ آڈیو ایڈیٹ ہے یا نہیں۔ عام آدمی تو اسے حقیقت ہی سمجھتا ہے۔ آڈیو نے ترقی کی تو ویڈیو سے معاملہ شروع ہوا تو بات پہنچی شوہر اور بیوی کی ویڈیو کی۔ ملک کے اقتدار کے دعویٰ دار عناصر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس حد تک مصروف ہو گئے ہیں کہ تمام اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔
اعظم سواتی مقننہ کے ایوان بالا کے رکن ہیں، گزشتہ دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی تھے۔وہ بھرے پریس کے سامنے دوسری بار بھی بلک بلک کر رو پڑے۔ ان کی ایک وڈیو اخلاق باختہ وائرل ہے ۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ انتہائی جذباتی تھے۔ سینیٹر اعظم خان سواتی کی پریس کانفرنس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کو وزارت داخلہ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ویڈیو وائرل کرنے کے اس عمل کی جلد از جلد تحقیقات کریں اور اسے روکیں اور حقائق سے وزارت داخلہ کو آگاہ کریں، جس کے بعد ایف آئی اے نے باقاعدہ تحقیقات شروع کر دی ہیں، اور اپنی ابتدائی رپورٹ بھی جاری کر دی ہے۔ایف آئی اے کے اعلامیہ کے مطابق سینیٹر اعظم خان سواتی کی فحش ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی کی اس ویڈیو کا فرانزک تجزیہ کیا گیا ہے جس کو جعلی پایا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے ویڈیو اور آڈیو کا فریم وائرل پر فریم فرانزک تجزیہ کیا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق بین الاقوامی فرانزک کے معیار کے مطابق ویڈیو کا ابتدائی تجزیہ کیا گیا ہے جس میں ابتدائی فرانزک تجزیہ کی رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ ویڈیو ایڈیٹ شدہ ہے اور مختلف ویڈیو کلپس کو ملا کر ایک ویڈیو بنائی گئی ہے، جس میں مسخ شدہ چہرے ہیں۔ ویڈیو میں فوٹو شاپ کا استعمال کرتے ہوئے تصاویرکو تبدیل کیا گیا ہے۔پہلی نظر میں یہ اصلی ویڈیو معلوم ہوتی ہے جبکہ یہ ایک جعلی ویڈیو ہے، جس میں ایڈیٹنگ کی گئی ہے۔ جس کا مقصد غلط فہمی پیدا کرنے اور بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
اینکر پرسن حامد میر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک سینیٹر سے آئی ہے۔حامد میر کے ٹویٹ، اگر آپ اس ویڈیو کو غور سے دیکھیں تو مختلف ٹوٹے جوڑ کر بنائی گئی ہے یہ جعلی ویڈیو ہے اس ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرایا جائے تو پتا چل
جائے گا کہ یہ کمپیوٹر ورک ہے انویسٹی گیشن یہ ہونی چاہیے کہ ایک جعلی ویڈیو بنا کر ڈارک ویب پر کس نے ڈالی؟ جس پر زلفی بخاری نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ ویڈیو ڈارک ویب اور کہیں اور موجود نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ غریدہ فاروقی اور حامد میر کے پاس یہ ویڈیو کیسے پہنچی؟عمران خان نے چیف جسٹس سے شہباز گل، اعظم سواتی و دیگر پر تشدد کے واقعات پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہناتھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے۔اسی دوران عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ ان کے ٹانگ میں بھی گولی لگی۔ ان کارکن ہلاک بھی ہوا لیکن گولی چلانے والا شخص پکڑا گیا۔ ابتدائی علاج کے بعد عمران خان نے ایک چینل پر تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ کسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تحت ان کی پارٹی نہیں بنی۔ انہوں نے 22 سال جدوجہد کی اور عوام میں واپس گیا۔رات کے 3 بجے جا کر لوگوں کے گھروں میں تشدد کیا، لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، اسلام آباد میں پر امن احتجاج پر شیلنگ کی، انہوں نے سمجھا ممی ڈیڈی پارٹی ہے ختم ہوجائے گی، بند کمروں میں فیصلے ہوتے ہیں تو گراؤنڈ پر نہیں پتا ہوتا کیا ہو رہا ہے۔عمران خان نے حملہ آوروں کی تعداد د و ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اْن پر دو مختلف سمتوں سے دو برسٹ فائر کیے گئے اور وہ زخمی ہو کر گر گئے تو ممکنہ طور پر حملہ آور سمجھے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر آباد واقع سے ایک دن قبل تین لوگوں نے اْنہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔اینکر پرسن سید طلعت حسین کا اپنے ایک تجزیہ میں کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کے اب تک7 نتائج سامنے آئے ہیں۔اپنے ایک ٹویٹ میںانہوں نے کہا کہ اس حملے کے بعد عمران خان مزید مقبول ہوگئے ہیں، ان کے کارکن مزید متحرک اور مشتعل ہوگئے ہیں، عمران پرست چینل اور وی لاگرکرنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اس حملے کے بعد حکومت حیران و پریشان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ تیز ہوگیا ہے۔ اس حملے کا ساتواں نتیجہ یہ ہے کہ ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button