Editorial

سیاسی کشیدگی کے خاتمے کی ابتداکریں!

 

سابق وزیراعظم عمران خان ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے ہیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے جمعرات کو وزیرآباد سے ایک بار پھر اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کے معالجین کے مطابق انہیں کم ازکم دو ہفتے تک آرام کرنا ہوگا اسی لیے بظاہر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی لانگ مارچ کی قیادت کریں گے اور عمران خان دن میں ایک یا دو بار لانگ مارچ کے شرکا سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کریں گے۔ مارچ اگلے 10 سے 14 روز تک پنڈی پہنچے گااور اسی مقام سے عمران خان روبصحت ہوکر لانگ مارچ کا حصہ بنیں گے اور اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، لہٰذا کم و بیش دو ہفتے تک لانگ مارچ جاری رہے گا اور اِس کے بعد عمران خان اگلا لائحہ عمل دیں گے، البتہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کو خوش آمدید کہتے ہوئے مقصد صاف اور شفاف تحقیقات ظاہر کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے ریاست اور اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزام میں ایف آئی اے کو عمران خان، شاہ محمود اور دیگر رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا اختیار دے دیاہے ۔ حکومت نے اسی اختیار کے تحت عمران خان، شاہ محمود قریشی اور دیگر افراد کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے انکوائری کروا کر قانونی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور پنجاب پولیس نے بھی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے بیانات کو متنازع قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کے لیے کہہ رکھا ہے۔ آج بھی دوطرفہ پیش رفت بیان کرنے کا مقصد فقط الفاظ کے ذریعے اُس وقت کی منظر کشی کرنا ہے تاکہ آنے والے وقت میں ملک میں حالات کیسے ہوسکتے ہیں اُن کا قبل ازوقت ادراک کیاجاسکے۔ لاہور میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی ضرورت پر زوردیا ہے اور شاید صدر مملکت ہی اِس وقت سیاسی عدم استحکام اور انتشار کے لیے عملاً پس پردہ کوششیں کررہے ہیں اور ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے سبھی سے اپیل کررہے ہیں کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے سبھی ایک پیج پر مل بیٹھیں۔ وطن عزیز کی صورتحال اول تو کبھی ایسی اطمینان بخش نہیں رہی کہ اُس دور کو ہم تاریخ کا سنہری دور قرار دے سکیں لیکن جیسے حالات ہم اب دیکھ رہے ہیں، ہمارے بزرگوں کے مطابق پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ ہماری تاریخ میں بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے، دشمن ملک نے جنگیں مسلط کیں، قومی رہنما انجام کو پہنچے لیکن جیسی بے سکونی اور بے چینی اب دیکھنے کو مل رہی ہے تاریخ شاید ہے کہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ملک بھر میں مظاہروں کا وسیع پیمانے پر سلسلہ جاری ہے اور کہیں صورت حال ایسی نہیں جسے دیکھ کر ضبط کیاجاسکے بلکہ جن جگہوں پر سیاسی لوگ مظاہرے کررہے ہیں اُن جگہوں پر ایسا کئے جانے کا تصور بھی نہیں تھا، حالات جس تیزی سے پلٹ رہے ہیں سنجیدہ پاکستانیوں
کے لیے ہر لمحہ تشویش ناک ہے، اِس کے باوجود وہ سب کچھ ہورہا ہے جس کا خدشہ بھی نہ تھا۔ پس کیسے سیاسی انتشار کا خاتمہ ہوگا اور قوم کو سکون کا سانس میسر ہوگا۔ اگرچہ لانگ مارچ کے نتیجے میں آج تک ہمارے ملک میں کسی سیاسی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا، ماضی میں کم و بیش تمام جماعتوں نے لانگ مارچ کئے، بعض جماعتوں نے لانگ مارچ کودھرنے میں بھی تبدیل کیا اورسب سے طویل دھرنے کا اعزاز عمران خان کے حصے میں ہے، لیکن نتیجہ سبھی جانتے ہیں کہ حکومتوں کا خاتمہ کبھی لانگ مارچ کے نتیجے میں نہیں ہوا، البتہ لانگ مارچ اوردھرنوں کے نتیجے میں حکومت پر دبائو ضرور بڑھا ہے اور عام پاکستانی بالخصوص کاروباری طبقہ اِس کے اثرات کا شکار ہوا ہے لہٰذا ایک طرف تو عمران خان سانحہ وزیر آباد کے معاملے پراپنی خواہش کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج چاہتے ہیں دوسرا ان کا وہی پرانا مطالبہ کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ گذارش کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ سیاسی بحران کا خاتمہ کرنا ہو تو سیاسی قیادت کیلئے قطعی ممکن نہیں اور سبھی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کیسے ختم ہوگا یہی نہیں بلکہ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کو مزیدکیسے بڑھایا جاسکتا ہے، پس واضح ہے کہ ملک و قوم جس کشمکش اور انتشارکا شکار ہیں، اِس کا حل ارباب اختیار کے پاس موجود ہے لیکن سیاسی دائو پیچ اور حکمت عملی کی وجہ سے ابھی مسئلے کے حل کی طرف نہیں بڑھا جارہا، مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ کم و بیش چھ ماہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے کیا یہ تمام ’’نظارے‘‘ دیکھنا ضروری تھا، جمہوریت کی دیوی کو ملک و قوم کا امن و سکون بھینٹ کرنا انتہائی ضروری تھایا ہے؟ سبھی اپنی چیزیں اپنی اپنی جگہ پر آجائیں تو سب ٹھیک ہوسکتا ہے، لہٰذا سب کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے کیونکہ معاشی بحران کو حل کرنا تو بظاہر آپ کے بس کی بات نہیں لیکن آپ سیاسی انتشار کا خاتمہ تو کرسکتے ہیں، سیاسی عدم استحکام کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے جس کے اثرات واضح ہیں،عام لوگوں کے الفاظ، ان الفاظ کی ترتیب، سوچ، انداز بیاں اور ردعمل سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا، ایسا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ارباب اختیار ان امور سے بخوبی واقف نہ ہوں پس کس کا انتظار ہے، سیاسی بحران کو حل کرنا آسان ہے مگر بہت سے لوگ اس بحران سے نکلنا نہیں چاہتے، کیا صدر مملکت کا یہ فرمان درست نہیں؟ تلخیاں ختم کرنے کے لیے سیاست دانوں کے درمیان ڈائیلاگ کیوں نہیں ہوسکتے، تحریک انصاف سے قبل مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑے خریف لیکن اب حلیف ہیں تو کیا نازک ملکی حالات کو اِس نہج پر دیکھ کر بھی کلیجہ منہ کو نہیں آتا؟ سیاسی مسائل حل ہوں گے تبھی معاشی اور داخلی مسائل حل ہونے کی ابتدا ہوگی، پس انتظار ہے کہ لوگ مایوس اور دلبرداشتہ ہوں ؟ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز اب مزید بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتااور اب تومعیشت کی زبوں حالی پر ایسے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں جن کا الفاظ میں اظہار ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button