ColumnNasir Sherazi

فیس سیونگ مل گئی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اقتدار سے بے دخلی کے بعد قریباً اللہ والے ہوگئے ہیں، ’قریباً‘ میں نے اس لیے کہا ہے کہ لاہور سے روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی مجھے مرحوم صحافی ارشد شریف جیسی موت دینا، وہ وزیر آباد پہنچے تو ان کی جان لینے کے لیے ان پر فائرنگ ہوگئی وہ زخمی ہوئے ان کی جان بچ گئی یوں ان کی آدھی دعا قبول ہوگئی، میں نے اُسی روز اُن کے لیے دعا کی اور کالم لکھ دیا باری تعالیٰ! خان کی یہ دعا پوری نہ کرنا، میری دعا مکمل طور پر قبول ہوگئی، پس کہا جاسکتا ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں، فائرنگ ختم ہونے کے فوری بعد ان کی جماعت کے ایک اور اللہ والے نیک لیڈر اپنی جان کنٹینر پر رکھ کر مائیک پر آئے انہوں نے انتہائی جذباتی تقریر کے دوران بتایا کہ انہیں اس بات کا علم تھا وزیر آباد کے قریب ان پرقاتلانہ حملہ ہوگا، عمران خان نے خود بستر علالت سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس حملے کی قبل از وقت اطلاع تھی، انہیں سکیورٹی اداروں نے بھی خبردار کیا کہ تخریب کاری کا قوی امکان ہے۔ اتنی اطلاعات کے بعد بھی اگر ان کا خیال ہے کہ ان کی سکیورٹی کا انتظام میں نے کرنا تھا تو میں اپنی غلطی مان لیتا ہوں۔
پنجاب میں اُن کی حکومت تھی، آئی جی پنجاب پسند کا افسر تھا، وزارت داخلہ کا صاحب اختیار مشیر داخلہ کنٹینر پر ساتھ کھڑا تھا، اس کے باوجود تخریب کار نوید المعروف ٹھواں جو شکل و حلیہ سے مفلوک الحال اور دو وقت کی روٹی کو محتاج لگتا ہے، پھٹے پرانے کپڑوں اور ٹوٹی ہوئی جوتی میں مگر ہاتھ میں لاکھوں روپے مالیت کا جدید پستول لیے ہدف کے انتظار میں کئی گھنٹے قبل اللہ والا چوک پہنچ گیا۔ سرکار اور سکیورٹی گہری نیند کے مزے لیتی رہی، نوید ٹھواں یعنی بچھو، خودکش مشن پر تھا، اِسے یقیناً ادراک ہوگا کہ اس کے فائر کھولتے ہی خان کے سکیورٹی گارڈز کی آٹو میٹک رائفل سے نکلی ہوئی گولیاں اُسے چشم زدن میں بھون کر رکھ دیں گی مگر اس نے اپنے پروگرام کے مطابق نہایت حوصلے سے فائر کھولا، جواب میں کسی سکیورٹی گارڈ نے اِس پر گولی نہیں چلائی کیونکہ ان کی سب کی بندوقیں خالی کرالی گئی تھیں، کسی بندوق میں گولی ہوتی تو چلائی جاتی، خان کے کنٹینر کے عین پیچھے ایک سیاہ رنگ کی لگژری گاڑی میں ایک سکیورٹی گارڈ سر اور دھڑ گاڑی سے باہر نکال کر کھڑا نظر آتا ہے وہ ویڈیو میں صورتحال کا جائزہ لیتا نظر آتا ہے۔ گاڑی پر پھولوں کی پتیاں بکھری نظر آتی ہیں۔ فائرنگ ہوجاتی ہے یہ گارڈ ٹس سے مس نہیں ہوتا یونہی کھڑا رہتا ہے، کوئی جوابی فائر نہیں کرتا۔ حملہ آور کے پیچھے کھڑا شخص جو حرکات و سکنات سے اس کا دوست لگتا ہے پہلی گولی چلنے کے بعد اسے دبوچ لیتا ہے، گولی چلنے سے قبل وہ حملہ آور کے ساتھ ساتھ متحرک ہے، اس کا اضطراب ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے، جیسے اسے علم ہے کہ گولی چلے گی اور اس کی ڈیوٹی اس کے بعد اسے پکڑنا ہے، خان کے ساتھ بائیں ہاتھ پر ایک رائفل بردار گارڈ کھڑا نظر آتا ہے جبکہ چار گارڈ ٹرک کے بونٹ پر خان کے سامنے کھڑے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی فائر نہیں کھولتا حالانکہ بندوقیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ ویڈیو کو سلوموشن میں دیکھیں تو نظر آتا ہے گولی چلنے سے ایک سیکنڈ قبل سب نیچے کی طرف جھکے پھر گولی چلی، کیا یہ سب حملہ آور کو پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ اب وہ گولی چلائے گا یا یہ محض اتفاق ہے، نظر کا دھوکہ ہے۔
حملہ آور گرفتاری کے بعد نہایت پرسکون تھا، اس کے چہرے اور لہجے میں گھبراہٹ کا کوئی عنصر نہ تھا گویا سسرال کے ہفتہ وار وزٹ پر آیا ہو، گرفتاری کے بعد اس نے ڈٹ کر کھانا کھایا اور پرسکون نیند سوگیا، جسے سامنے موت نظر آرہی ہو اُسے نیند کہاں آتی ہے، کچھ دیر بعد بیدار ہوا تو بولا اک کولا پیادے۔
ایجنسیوں کو شاباش جنہوں نے حملہ آور کو پکڑ کر بیان ریکارڈ کرکے فوراً میڈیا پر چلوادیا اور دودھ کادودھ پانی کا پانی کردیا، بصورت دیگر اُسے منہ سر پر کالا کپڑا ڈال کر پہلے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جاتا پھر دن میں چار مرتبہ نت نئے انکشافات سامنے لائے جاتے، کچھ عجب نہ تھا کہ
واقعات کی کڑیاں امریکہ اور سی آئی اے سے جا ملتیں۔ حملہ آور سے یہ بھی کہلایا جاسکتا تھا کہ اُسے رجیم چینج کے بعد امریکہ بلاکر سی آئی اے نے ٹریننگ دی پھر مجھے صدر امریکہ جو بائیڈن نے نیک تمنائوں سے رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب حکومت امریکہ اور سی آئی اے کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے، ہمیں مایوس نہ کرنا، حملہ آور کو پکڑنا اور اس کا بیان میڈیا پر چلوانے کا سب سے بڑا دکھ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو نظر آتا ہے، ان کے رزق پر بہت بڑی لات پڑی ہے، وہ تو آئندہ ایک ماہ تک واقعے کی بال کی کھال نکالنے اور درجن بھر بریکنگ نیوز دینے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے تھے۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ’’تھری سٹوجز‘‘ کو چند روز قبل مشن پر اسی پروگرام کے تحت ملک سے باہر بھجوایاگیا تھا کہ واقعے کے بعد زمین آسمان ایک کردیں اور دنیا بھر کو آنکھوں میں آنسو بھر بھر کے باور کرائیں کہ یہ سب کچھ خان کے دشمن نمبر ایک امریکہ اور اس کے بعد آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ساتھ نوازشریف، شہبازشریف ، مریم نواز، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے کرایا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ جس سیاسی لیڈر کو گھر میں بیگم روٹی پکا کر نہ دے وہ بھی اس کا الزام انہی شخصیات پر دھرتا ہے جن کا ذکر کیاگیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے زمانے میں نواب محمد احمد خان کے قتل میں جن افراد پر نامزد پرچہ ایف آئی آر ہوئی وہ سب پھانسی چڑھ گئے، سوائے ایک وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے، جب سے یہ وطیرہ ہے کہ کسی بھی واقعے میں اپنے تمام ناپسندیدہ شخصیات کے نام ایف آئی آر میں لکھوادو یا اپنے اوپر پرچہ ہونے کی صورت میں کراس پرچہ کرادو، پنجاب میں یہ فیشن گذشتہ پچاس برس سے رائج ہے، اپنی ٹانگ، بازو پر خود گولی مارنا بھی دشمنوں کو پھنسانے کا ایک مروجہ طریقہ ہے، حملہ آور نوید ٹھواں، حراست کے دوران یا جیل بھیجنے کے بعد کسی اور محب خان ملزم کے ہاتھوں قتل ہوسکتا ہے، وہ اپنی شلوار سے کمر بند نکال کر خودکشی کرسکتا ہے جبکہ فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس مقابلے میں مارا بھی جاسکتا ہے، یوں طوطے کو پٹی پڑھانے والے تمام استادوں کے نام وہ سینے میں لیکر ہمیشہ کے لیے لمبی نیند سو جائے گا۔ ہائی پروفائل قاتلوں کا ایسا ہی انجام ہے۔ پی ٹی آئی کراچی کے ایم این اے اسے اپنا سکیورٹی گارڈ تسلیم کرچکے ہیں، لاہور کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا میں خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، مردوزن جذبہ جہاد سے سرشار تھے، وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے کہ ایک چوک میں پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی جہاد ملتوی کردیا جائے گا۔ تلواریں نیام میں رکھ دی گئی ہیں زرہ بکتر اتار دیئے گئے ہیں، ہاتھی گھوڑے کھول کر انہیں گھاس چرانے کی اجازت دے دی گئی ہے، جہاد ملتوی کرانے میں جن شخصیات نے اپنا کردار ادا کیا ہے انہیں جہاد جتنا ہی ثواب ملے گا، ملک کے حق میں یہی بہتر تھا، مبارک مبارک، التوا جہاد مبارک، فیس سیونگ تو مل گئی، مگر فیس کہاں گیا کسی کو اندازہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button