ColumnRoshan Lal

تنزلی در تنزلی .. روشن لعل

روشن لعل

 

وطن عزیز میں کسی بھی شعبہ زندگی کے معاملات کبھی اتنے سادہ نہیں رہے کہ ان سے متعلق الجھنوں کو کسی مشکل میں پڑے بغیر سلجھایا جاسکے۔ جو معاملات شروع دن سے مشکل اور دقیق تھے انہیں اس طرح ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے تحت نمٹانے کی کوشش کی گئی کہ پہلے سے موجود سختیوں، مشکلات اور دشواریوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلاگیا۔ اس طرز عمل کا عام لوگوں کی نفسیات پر یہ اثر ہوا کہ سمجھنے سمجھانے کی صلاحیت پیدا ہونے کی بجائے ان کی ناپختہ سوچ مسلسل متزلزل ہوتی چلی گئی۔ عام لوگوں کی سوچ کا یہ معیار ا س ملک کے پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے تھا مگر ایساکبھی نہ ہو سکا۔ جنہیں ہمارے ملک کا پالیسی ساز سمجھا جاتا ہے انہوں نے عام لوگوں کی سوچ کی سمت درست کرنے کی بجائے انہیں بے رحمی سے اس طرف دھکیلا جہاںوہ زیادہ فکری انتشار کا شکار ہوگئے ۔ اس فکر ی انتشار کی وجہ سے ہمارا سماجی کردار مجموعی طور پر غیر مستحکم ہونا شروع ہوا ۔متزلزل سوچ کے حامل لوگوں کے غیر مستحکم سماجی کردار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے یہاں مختلف اداروں نے بے خوف و خطر اپنے غیر آئینی مفادات حاصل کیے ، پھر یہی رویہ ان اداروں کے پروردہ سیاستدانوں نےاپنایااور اب یہ سیاستدان اس رویے کو اپنی میراث سمجھ کر اس کے مطابق ہر جائز و ناجائز سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس رویے کا استعمال صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہابلکہ خاص ادارے، میڈیا ، عدلیہ اور حتیٰ کہ مذہبی پیشوا بھی بقدر ضرورت اسی رویے کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں۔ اس رویے کا وسیع پیمانے پر استعمال ملک کیلئے زیر قاتل سے کم نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس زہر قاتل کو یہاں تریاق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اگر کسی کو یقین نہیں کہ کوئی زہر کس طرح تریاق بنا کر بیچا جاسکتا ہے تو وہ یہ دیکھ لے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران ہونے والے فائرنگ کے واقعہ کے بعد یہاں کیا کچھ ہو رہا ہے ۔فائرنگ کے اس واقعہ سے متعلق یہاں بہت کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ دکھایا بھی جاچکا ہے ۔ بہت کچھ دیکھنے اور سننے کے باوجود بھی عام لوگوں کے رویوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے وہ آگاہ ہونے کی بجائے شدید غیر یقینی اور فکری انتشار کا شکار ہو نے کے بعد بد ترین ابہام میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ عام لوگوں کی اس حالت کو ذہن کند کرنے والے زہر کے اثر کی بجائے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے۔ لانگ مارچ کے دوران رونما ہونے والے فائرنگ کے واقعہ کے بعد مختلف گروہوں کی طرف سے جو کہانیاں بیان کی گئیں انہیں نہ یہاں دہرانے کی
ضرورت اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے ۔یہاں ہر گروہ کی تراشیدہ اور بیان کردہ کہانی کے مخصوص سامعین و ناظرین ہیں۔ یہ کہانیاں عام لوگوں کی فکری سطح کے مطابق ان پر خاص قسم کے صوتی و بصری اثرات مرتب کرنے کیلئے تیار کی گئی ہیں۔ ان کہانیوں میںجو کچھ بیان کیا جاچکا ہے،جو کچھ تبدیل کیا جاچکا اور مزید کس طرح کا ترمیم و اضافہ جاری ہے ، اس سے متعلق بھی کوئی تفصیل یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ یہ کام مختلف سیاسی گروہوں کی تشہیری مہم کا حصہ بنے ہوئے میڈیا گروپ آئوٹ پٹ کے طور اسی قدر کر رہے ہیں جس قدر انہیں کہیں سے ان پٹ مل رہی ہے۔ قریباً ہر میڈیا گروپ یہ کام اپنے اپنے طریقے سے کر رہا ہے۔ کئی میڈیا گروپ تو ایسے ہیں جو لگی لپٹی کے بغیر کسی خاص سیاسی گروہ کیلئے ایسے کام کر رہے جیسے انہوں نے خبریں نشرکرنے والے ادارے کا نہیں بلکہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا لائسنس حاصل کر رکھا ہو۔ اس طرح سے پراپیگنڈے کا زہر پھیلانے کیلئے سوشل میڈیا کو زیادہ بے رحمانہ طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے ۔پراپیگنڈے کے اس زہر کااثر ویسے تو اسے پھیلانے والوں کے پرستاروں پر بھی منفی ہی ہوتا مگروہ اس لیے مطمئن رہتے ہیں کہ انہیں ان کی خواہشات کے
مطابق مطلوبہ نتا ئج حاصل ہو جاتے ہیں۔اس پراپیگنڈے کا اثر اگر ان کے پرستاروں پر متشدد رویوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تواندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مخالفوں پر سائیڈ افیکٹ کس قدر خطرناک ہوتا ہوگا۔ جس شخص نے عمران خان کو گولیوں کا نشانہ بنایااس کے متعلق جومختلف کہانیاں بیان کی جارہی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس طرح ملک کا وزیر اعظم رہنے والا شخص یہاںکے آئین و قانون کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھ کر خود ہی اپنا مدعی ، وکیل اور منصف بنا ہوا ہے ، ہو بہو اسی طرح اس فائرنگ کرنے والے نے بھی خود ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر کسی کا رویہ اسے اپنے اخذ کردہ مذہبی تصور کے برعکس لگے گا تو وہ واجب القتل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے یہ بات انتہائی عجیب لگتی ہے کہ جن لوگوں کا اپنا ہر عمل ملک کے آئین و قانون سے متصادم ہے وہ کسی دوسرے کے اپنے خلاف کیے گئے آئین و قانون سے ماورا عمل پر سیخ پا ہوکر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی طرح قانون شکنی کا حق ملک میں کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ بنیاد پرستی کی خاص فصل بونے کے بعد اگر یہاں خود کش دہشت گرد پیدا ہوسکتے ہیں تو انتہاپسندی پر مبنی متشدد رویوں کے بیجوں سے ناپسندیدہ لوگوں کو واجب القتل تصور کرنے والے پودے کیوں برآمد نہیںہو سکتے ۔
عرصہ دراز تک متشدد رویوں کے بیج بوئے جانے کی وجہ سے اگر یہاں قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل کرنے پر مائل لوگ پیدا ہوئے ہیں تو لوگوں سے سچ چھپانے کی پالیسی کے تحت بنایا گیا نصاب پڑھانے سے متزلزل فکر کے ذہن پروان چڑھے ہیں۔ متزلزل فکر کے حامل لوگ اپنے سامنے موجود سچ کو پہچاننے کی بجائے ان باتوں پر سر کھپانے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے بیک وقت غیر یقینی، پیچیدگی اور ابہام برآمد ہوتا ہو۔ عام لوگوں کی اس ترجیح کی وجہ سے یہاں جان بوجھ کر ایسا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس سے شک اور بداعتمادی پیدا ہواور بے یقینی کا اسیر ہونے کی وجہ سے لوگ کبھی سچ تک نہ پہنچ پائیں۔ اسی طرح سادہ معاملات کو گھما پھرا کر اتنا پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے کہ لوگ شک و شبہ میں الجھ کر کبھی فیصلہ کن نتیجے تک نہ پہنچ پائیں۔ پیچیدبنا دیئے گئے معاملات میں لوگوں کو الجھانے کے بعد بھی اگر ان سے سچ چھپانا ممکن نہ رہے تو پھر اس سچ میں اس طرح سے جھوٹ کی آ میزش کر دی جاتی ہے کہ سچ یا جھوٹ ظاہر ہونے کی بجائے سامنے صرف ابہام نظر آتا رہے۔ جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ ہمارے سماجی رویوں کا عکس ہے۔ ان سماجی رویوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح گراوٹ در گراوٹ کی طرف رواں ہیں ۔ ہماری اس بے پناہ تنزلی سے بے نیاز ہو کر یہاں پراپیگنڈہ مشینری کے زور پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام حسب سابق جاری و ساری ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ کام کرنے والے یہاں قومی وقاربلند کرنے کے سب سے بڑے دعویدار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button