Editorial

پاک فوج کی عمران کے الزامات کی مذمت

 

پاک فوج نے چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ادارے کے اعلیٰ افسر کے خلاف بے بنیاد الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے ان الزامات کی شدید مذمت کی ہے ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے ادارے اور خاص طور پر ایک اعلیٰ فوجی افسر کے خلاف بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات قطعی طور پر ناقابل قبول اور غیر ضروری ہیں۔ پاکستان کی فوج ایک انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط کی حامل تنظیم ہونے پر فخر کرتی ہے جس کے اندر ایک مضبوط اور انتہائی موثر احتسابی نظام ہے جس کے تحت کسی بھی افسر کی جانب سے کی جانے والی بے ضابطگی پر بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اگر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مفاد پرستوں کی جانب سے افسروں پر بے بنیاد الزامات کے ذریعے ادارے کی عزت، ساکھ اور وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ادارہ اپنے افسروں اور سپاہیوں کی حفاظت کرے گا۔ ادارے اور اہلکاروں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔ اس طرح کسی کو بھی ادارے یا اس کے سپاہیوں کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرائے اور بغیر کسی ثبوت کے ادارے اور اس کے اہلکاروں کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرے۔ چند روز قبل ہی ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیر متوقع طور پر پریس کانفرنس کرکے سائفر اور رجیم چینج والا بیانیہ جھوٹا قراردیتے ہوئے متعدد سوالات اٹھائے تھے اور اب ایک بارپھر ترجمان پاک فوج کو مذمتی بیان جاری کرنا پڑا ہے کیونکہ آج ملک کے حالات سیاسی انتشار کی وجہ سے جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ایسا پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی سنا اور سوشل میڈیا نے ملک میں انتشار پھیلانے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی، ملکی سلامتی اور مفاد کو پس پشت رکھتے ہوئے غیر ذمہ داری کا جتنا مظاہرہ سوشل میڈیا پر کیا جارہا ہے اِس کے اثرات جلد ختم نہیں ہوں گے بلکہ سماج کے بانجھ پن اور ہماری کم عقلی کی وجہ سے ہمارے اداروں اور معاشروں کو گہرائیوں تک کھوکھلا کرکے ہمیں ایک نئی دریافت بنادیں گے جو ملک و قوم کے بنیادی مفادات اور عالمی حالات سے ناآشنا صرف بیانیہ کی محتاج ہوگی اور جیسا بیانیہ اُسے دیا جائے گا وہ اُس کے پرچار میں لگ جائے گی اِس لیے سنجیدگی سے معاملات کو قابو میں لینے کی ضرورت ہے اور ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ذاتی مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں بیٹھنا ہوگا کہ انارکی اور انتشار سے ہم اندر سے کھوکھلے ہوجائیں گے اور ففتھ جنریشن وار اسی کا نام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم پاکستان دشمنوں کی چھیڑی گئی ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کی بجائے اُن کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔کیا سیاسی قیادت اِس حقیقت سے انکارکرسکتی ہے کہ ملکی سیاسی بحران انتہائی گمبھیر اور خطرات کی تہہ تک پہنچ چکا ہے اور سیاسی محاذ پر تلخی اور انتہا پسندی عروج پر ہے اور بلاشبہ مصالحت اور معاملات کی بہتری کے لیے کوشش بھی ہوتی نظر نہیں آرہی اور جیسے معاملات کی بہتری کے لیے تمام راستے مسدود کردیے گئے ہیں مگر اِن کے بغیر اختلافات اور تلخیاں کیسے ختم ہوں گی جبکہ جلتی پر تیل کا کام ہر طرف سے ہورہا ہے، اپنے بیانیہ کے فروغ اور مدمقابل کو جھوٹا اور دشمن ثابت کرنے کا یہ وقت قطعی نہیںبلکہ یہ وقت ملک و قوم کو داخلی و خارجی درپیش چیلنجز سے مل کر نکالنے اور قائد اعظمؒ کے پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ہے۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس انتشار اور انارکی کا فائدہ صرف اور صرف پاکستان کے دشمنوں کو ہورہا ہے، کیا ہمیں دشمنوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ ہمارے داخلی حالات اور ہماری کمزوریوں اور ہمارے نفاق اور انتشار سے فائدہ اٹھائیں؟ عوام میں ریاست کے اہم ستونوں سے متعلق جیسے جذبات بھڑکائے جارہے ہیں ان کو فوری روکنے کی ضرورت ہے وگرنہ ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ عمران خان کا لانگ مارچ جاری تھا اسی دوران اُن پر حملے کا افسوس ناک واقعہ ہوا اور وہ دیگر رہنمائوں اور کارکنوں سمیت زیر علاج ہیں، ملک دشمن قوتیں ایسے واقعات رونما کرانے کے بعد عوام کو مشتعل کرنے کے لیے ماحول بناتی ہیں اور اُن کا فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرتی ہیں جب قوم منتشر ہوکر تقسیم نظر آئے تو سمجھ لیں دشمن نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں نظر آبھی رہا ہے، لہٰذا ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت ملک کی داخلی و خارجی صورت حال کا ادراک کرے، عوام میں موجود انتشار اور بے چینی کو محسوس کرے اور اِس کے پیچھے ملک دشمنوں کی کارستانیوں اور اُن کے مقاصد کو مدنظر رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اقتدار اور جمہوریت کو بچانے کے چکر میں کوئی بڑا نقصان اُٹھالیں۔ سیاسی قیادت فوری طور پر ڈائیلاگ کا سہارا لے، انتشار اور افراتفری اور تصادم والے بیانات کی بجائے افہام و تفہیم والا لہجہ اختیار کیا جائے، وطن عزیز اِس وقت درجنوں داخلی مسائل سے دوچار ہے، ہمہ وقت ہم پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلارہا ہے، اور ایسا قطعی نہیں کہ سیاسی قیادت یا عام پاکستانی کو اِن حالات کا ادراک نہ ہو، مگر اِس کے باوجود سبھی اپنے بیانیہ پر پیش قدمی کررہے ہیں کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، پس حالات کی سنگینی کا ادراک اور کس نے کرنا ہے؟ مذاکرات کے لیے اہتمام کیوں نہیں کیا جارہا؟ ہم امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کرسکتے ہیں، چین کو امریکہ کے ساتھ لابٹھاسکتے ہیں مگر اپنے داخلے معاملے میں کیوں کمزور پڑ رہے ہیں، کیونکہ ہم تفریق کا شکار ہیں، لہٰذا ضرورت ہے کہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کیا جائے اور بلاشبہ ایساکرنے سے کسی فریق کی شکست نہیں ہوگی بلکہ سبھی کی جیت ہوگی اور صرف ملک دشمنوں کی ہار ہوگی۔ خدارا حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور صورت حال مزید گمبھیر ہونے سے پہلے سنبھال لیں اِسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے اور اسی سے جمہوریت اور جمہور کوفائدہ پہنچے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button