ColumnRoshan Lal

گجرات ڈویژن اورسیاسی موقع پرستی .. روشن لعل

روشن لعل

 

’’سیاسی موقع پرستی‘‘ اگرچہ منفی عمل ہے مگر سیاست میں جو عمل زیادہ سے زیادہ مثبت ہو سکتا ہے اس میں بھی ’’موقع‘‘ کا لفظ شامل ہے اور اسے ’’سیاسی موقع شناسی‘‘کہا جاتا ہے۔ اگر خاص صورتحال میں حاصل ہونے والی طاقت یا رعایتوںسے ناجائز فائدہ اٹھانے کو سیاسی موقع پرستی تصور کیا جائے تو میسرمناسب وقت کے مفاد عامہ میں استعمال کو سیاسی موقع شناسی کہا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں سیاسی لوگوں کا خود کو سیاسی موقع شناس ثابت کرنا عین ممکن ہے مگر یہاں زیادہ تر سیاستدان موقع پرستی کے اسیر پائے جاتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں میں ایک نام پنجاب کے دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے چودھری پرویز الٰہی کا بھی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی جس قدر عمدہ طریقے سے موقع پرستی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ان میں اسی قدر موقع شناس ہونے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔چودھری صاحب نے 2002 سے 2007 تک مشرف کے دیئے ہوئے اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں جس طرح ایک سے بڑھ کر ایک ادارہ قائم کرکے نیک نامی کمائی اسے موقع شناسی کی بہترین مثال قرار دیا جاسکتاہے۔دوسری مرتبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد پرویز الٰہی جو ’’کارہائے نمایاں‘‘ سرانجام دے رہے ہیں انہیں موقع پرستی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ انہوں نے جس طرح گجرات کے نام سے صوبے میں دسواں ڈویژن قائم کیا اسے کسی طرح بھی موقع شناسی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
گجرات ڈویژن کو صوبہ پنجاب میںچھ اضلا ع
پر مشتمل سب سے بڑی ڈویژن، گجرانوالہ کو تقسیم کرکے بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چار صوبوں پر مشتمل ہمارے ملک کا ہر صوبہ انتظامی طور پر مختلف ڈویژنوں، ہر ڈویژن مختلف اضلاع اور ہر ضلع مختلف تحصیلوں میں منقسم ہے۔ یہاں ڈویژن کے سربراہ کو ڈویژنل کمشنر کہا جاتا ہے ۔ ڈویژنل کمشنر کا منصبی کردار ڈویژن میں موجود تمام سرکاری دفاتر کے انتظامی نگران کے طور پر کام کرنا ہے۔ ہر ڈویژن میں شامل اضلاع اور تحصیلوں کے لینڈ ریونیو کی وصولی، نہری محصولات کی وصولی اور ڈویژن میں امن و امان قائم کرنے کی براہ راست ذمہ داری ڈویژنل کمشنر پر عائد ہوتی ہے۔ ڈویژنل کمشنر اپنی ڈویژن میں مقامی حکومت کے اداروں کا رسمی سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ڈویژنل کمشنر اپنے ماتحت اضلاع کی ترقیاتی سکیموں کی منصوبہ بندی کرنے اور انتظامی منظوری کا ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ڈویژن میں ریونیو اور زمینوں کی جمع بندی کے لیے دائر درخواستوں پر اپیلٹ اتھارٹی کے طور پر بھی کام کرتا
ہے۔ چھ اضلاع پر مشتمل گجرانوالہ ڈویژن میں اتنی اہم ذمہ داریاں نبھانے والے ڈویژنل کمشنر کے دفتر کو اگر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے تو تقسیم کے اس فیصلے کو نہ غلط قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی موقع پرستی کہا جاسکتا ہے۔ دراصل اس معاملے میں تحفظات گجرانوالہ ڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر نہیں بلکہ ضلع گجرات کو نئی ڈویژن کا صدر مقام بنانے پر ہیں۔ گجرانوالہ ڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کو تو مفاد عامہ میں کیا گیا فیصلہ کہا جاسکتا ہے مگر ضلع گجرات کو نئی ڈویژن کا صدر مقام بنانے کے حکم کو ذاتی سیاسی فائدے کے لیے اٹھائے گئے قدم کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتا۔ گجرانوالہ ڈویژن کا حدوداربعہ، پرویز الٰہی کی طرف سے گجرات ڈویژن بنائے جانے سے قبل اس طرح سے تھا کہ اس کے چھ اضلاع میں سے تین ضلعوں کو شمالی اور تین کو جنوبی کہا جاسکتا تھا۔ گجرانولہ ڈویژن کی سب سے مناسب تقسیم یہ ہو سکتی تھی کہ تین شمالی اضلاع نارووال، سیالکوٹ اور گجرات کونئی ڈویژن میں شامل کر لیا جاتا اور تین جنوبی اضلاع گجرانوالہ، حافظ آباد اور منڈی بہائوالدین کو گجرانوالہ ڈویژن میں ہی رہنے دیا جاتا۔ سابقہ گجرانوالہ ڈویژن کو اگر اس طرح سے مناسب طور پر تقسیم کیا جاتا تو نئی ڈویژن کا صدر مقام گجرات کی بجائے درمیانی ضلع سیالکوٹ کو بنانا پڑتا مگر چودھری پرویز الٰہی نے صرف
اور صرف گجرات کو نئی ڈویژن کا صدر مقام بنانے کے لیے اس ڈویژن میں گجرات ، منڈی بہائوالدین اور حافظ آباد کو شامل کر لیاجبکہ سیالکوٹ اور نارووال کو حسب سابق گجرانوالہ ڈویژن میں ہی رہنے دیا۔
سیاسی موقع پرستی کے تحت گجرانوالہ ڈویژن کی تقسیم کے بعد ضلع حافظ آباد اور ضلع سیالکوٹ میں سخت احتجاج دیکھنے میں آیا ۔ سیالکوٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گجرات کی نسبت نہ صرف ان کے ضلع کا صنعتی حجم بہت زیادہ ہے بلکہ اپنی برآمدات کے بل پر یہ قو می خزانے میںگجرات کی نسبت کئی گنا زیادہ زقیمتی زر مبادلہ بھی جمع کراتا ہے ۔اس کے علاوہ سیالکوٹ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اتنا اہم ضلع ہے کہ نئی ڈویژن کے صدر مقام ہونے کا حق اس کے مقابلے میں کسی دوسرے ضلع کو نہیں دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف حافظ آباد کے لوگوں نے اپنے ضلع کے گجرانوالہ کی بجائے گجرات ڈویژن میں شامل کیے جانے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ حافظ آباد کے عوام کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے ان کے ضلع کو گجرات ڈویژن میں شامل کرتے وقت یہ احساس کرنا گوارا نہ کیا اس ضلع کے عوام کو ڈویژنل آفس میں اپنے معاملات نمٹانے کے لیے گجرانوالہ کی بجائے گجرات جاتے وقت کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حافظ آباد کو گجرات ڈویژن میں شامل کیے جانے کو اپنے ساتھ ناانصافی قرار دیتے ہوئے اس ضلع کے لوگوں نے داد رسی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ گجرات ڈویژن کے قیام کو عدالت میں چیلنج کیے جانے کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے تحصیل وزیر آباد کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اسے بھی گجرات ڈویژن میں شامل کر لیاتاکہ اگر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ حافظ آباد کے عوام کے حق میں آجائے تو گجرات ڈویژن کے قیام کا جواز ختم نہ ہو ۔
چودھری پرویز الٰہی جس طرح نئی ڈویژن اور اضلاع بنانے کا اعلان کر رہے ہیں اس سے یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی سنجیدہ کام نہیں بلکہ گڈے گڈی کے کھیل جیسا شغل ہے ۔ واضح رہے کہ یہاں نئے ڈویژن اور اضلاع بنانے کا کام کسی پارلیمانی عمل کے ذریعے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جنرل ایوب کے آمرانہ دور میں بننے والے لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے دوسرے چیٹر کے تحت صوبائی حکومت محض انتظامی حکم نامہ جاری کر کے نئی ڈویژن، اضلاع اور تحصیلیں بنانے یا ان کے حدود اربع میں تبدیلی کا کام کرسکتی ہے۔راقم کے لیے یہ بات کسی دھچکے سے کم نہیں یہاں نئے ڈویژن یا اضلاع بنانے کے لیے اسمبلی کے کردار کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ گجرات ڈویژن کا معاملہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ کی سپرداری میں آچکا ہے ۔ عدالت اس معاملے میں حافظ آباد کے شہریوں کی داد رسی کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں حکومت کو تاکید کر سکتی ہے کہ نئے ڈویژن یا اضلاع کے قیام میں اسمبلی کے عمل دخل کی راہ ہموار کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ اس اہم معاملے میں کسی کے سیاسی موقع پرستی کا مظاہرہ کرنے اور نامناسب سیاسی فائدہ اٹھانے کا امکان کم سے کم ہو سکے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button