ColumnJabaar Ch

عمران خان پر حملہ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

عمران خان کے لانگ مارچ پرکل شام حملہ ہوگیا ۔یعنی وہ انہونی ہوگئی جس کا خدشہ اور خطرہ تھا لیکن اچھی بات یہ کہ خان صاحب کی جان سلامت رہی اور وہ معمولی زخمی ہوئے۔پاکستان سیاسی تخریب کاریوں،محلاتی سازشوں ،حکومتیں گرانے، بنانے اور سیاسی لیڈروں کو راستے سے ہٹائے جانے کے حوالے سے بڑاہی زرخیز ملک ہے۔پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام سیاست ہے ۔ایک اسمبلی اور وزیراعظم پانچ سال کیلئے منتخب ہوتا ہے ۔اس وقت پاکستان کی عمر75 برس ہے۔اس ملک میں اگر نارمل حالات اور طریقہ کار کے مطابق سسٹم چلتا تو اس وقت تک پاکستان میں پندرہ وزیراعظم آنے چاہئیں تھے لیکن کیا آپ کو اب تک آنے اور لائے گئے وزرائے اعظم کی تعداد کاعلم ہے؟جی اس وقت شہبازشریف 24ویں وزیراعظم ہیں۔پاکستان میں اب تک چوبیس وزیر اعظم آچکے ہیں اس کے باوجود کہ ملک میں ان75 سالوں میں تیس سال مارشل لاء لگارہا۔ یہ30 سال نکال دیں توپاکستان کی عمر45سال رہ جاتی ہے اور انہی 45سالوں میں یہاں چوبیس وزیراعظم حکومت کرچکے ہیں حالانکہ صرف نووزرائے اعظم ہونے چاہئیں تھے۔
پاکستان وزرائے اعظموں کے بدلنے میں اتنا زرخیز ہے کہ ایک وزیراعظم کو توصرف ایک ماہ بعد ہی نکال دیا گیا۔نوے کی دہائی ہماری سیاست کی تاریک دہائی کہلاتی ہے۔ان دس سالوں میں چاربار انتخابات ہوئے اور آخرکار مارشل لاآگیا۔ اس دور میں محلاتی سازشوں کا یہ عالم تھاکہ ایک حکومت کرپشن کے الزامات پر نکالی جاتی لیکن نہ کرپشن کی انکوائری ہوتی نہ کیس بنتا اوروہی وزیراعظم جس کو کرپشن کے الزامات لگاکر نکالاجاتا وہ ڈیڑھ سال بعد دوبارہ وزرات عظمیٰ کا حلف لے رہا ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ جب انیس سو ننانوے میں مارشل لا لگا تو نوازشریف کی حکومت کو دوتہائی اکثریت حاصل تھی۔اس افراتفری سے سیاسی جماعتوں نے سبق بھی لیا ۔بے نظیربھٹواور نوازشریف جو 90کی دہائی میں ایک دوسرے کی حکومتیں گرواتے رہے ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں میں مصروف رہے انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھااور دونوں دوہزار چھ میں لندن میں ایک چھت تلے بیٹھ گئے اور میثاق جمہوریت کرلیا۔اسی کا ہی نتیجہ تھا کہ حکومت کوگرانے اور وزیراعظم کو گھر بھیجنے کو اتنا مشکل بنادیا گیا کہ خود وزیراعظم نہ چاہے تو کوئی دوسرا حکومت تحلیل کرنے کا اختیار ہی نہ رکھے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صدر پاکستان سے حکومتوں کو گرانے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔سیاستدانوں کی کوشش یہیں تک تھی کہ وزرائے اعظموں کونکالے جانے کا سلسلہ رک جانا چاہیے تھا لیکن اس میں ایک اورپلیئر درمیان میں آگیا ۔وہ کام جو پہلے صدر کرتے رہے اب عدلیہ نے کرنا شروع کردیا۔ پیپلز پارٹی،جس نے اٹھارویں ترمیم پاس کی اسی کا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی عدلیہ کے ذریعے گھر چلا گیا۔اس وقت نوازشریف نے خود وزیراعظم گیلانی کے خلاف عدلیہ کا ساتھ دیا تو اس کے ٹھیک چار سال بعد وہ نوازشریف خود اسی عدلیہ کے ہاتھوں گھر جانے پر مجبورہوگئے۔کیونکہ پاکستان سیاسی تخریب کاریوں اور محلاتی سازشوں کیلئے بڑاہی زرخیزملک ہے۔
عمران خان کا لانگ مارچ اگر اپنے پلان کے مطابق چلتا تو آج اسلام آباد پہنچ چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان نے اپنی حکمت عملی بدلی اور مارچ کی رفتاراس قدر سست کردی کہ یوں لگتا تھا کہ جب تک لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا اس حکومت کی مدت ویسے ہی ختم ہوجائے گی۔ یہ لطیفہ اپنی جگہ لیکن مارچ کی رفتار سست بلکہ انتہائی سست کرنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں یہ تو خان صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔
گوجرانوالہ کا ضلع کافی حوالوں سے خطرناک بلکہ اس طرح کے سیاسی اجتماعات اور مارچز کے حوالے سے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جب خان صاحب نے لانگ مارچ کیا تھا تو اس وقت بھی ان کے مارچ پر گوجرانوالہ میں پتھراؤ کیا گیا تھا۔ گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی مخالف لوگ کافی زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور اس ضلع میں عمران خان کالانگ مارچ پچھلے چار دن سے موجود تھااور پی ٹی آئی اس بات پر جشن منارہی تھی کہ نون لیگ کے گڑھ میں عمران خان نے اپنا جھڈاگاڑ دیا ہے۔ ہمارا معاشرہ تقسیم ہے۔ گوکہ میں اس وقت کسی بھی قسم کی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ پولیس کی تحقیقات سے بہت سی پرتیں کھلیں گی۔ پولیس نے ابتدائی طورپریہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ پکڑا جانے والا حملہ آور اکیلا یہ کام انجام دینے والا نہیں تھا بلکہ اس کے مزید ساتھی بھی منصوبے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ایک سوال بڑا ہی اہم ہے اس کا جواب کوئی ماہر تفتیش کارہی دے سکتا ہے کہ عمران خان سمیت سب کو گولیاں ٹانگوں پر لگی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو خان صاحب کا کنٹینرسڑک سے پندرہ فٹ اونچا ہے ۔ یہاں عمران خان اور باقی لوگ کھڑے ہوتے ہیں وہاں کنٹینر کے اوپرڈھائی فٹ کی حفاظتی باڑ بھی موجود تھی۔ایسی صورت میں زمین سے چلائی گئی گولی کیا جسم کے اتنے نچلے حصے یعنی ٹانگ پر لگ سکتی ہے ؟عمومی طورپر یہی دیکھا گیا ہے کہ اگر نیچے سے گولی چلائی جائے تو اس کے جسم کے اوپری حصے پرلگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ پہلو بھی یقینی طورپرتفتیش کرنے والوں کے پیش نظر ہوگا۔
عمران خان نے اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کے تین نام لیے ہیں ان میں سے شہبازشریف ، رانا ثنا اللہ اور ایک حساس ادارے کا افسر ہے انہوں نے ان کو فوری طورپرعہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی نے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے اس لیے ایسامقدمہ درج کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی لیکن کیا پنجاب حکومت اس مقدمے میں حساس ادارے کے افسر کو بھی نامزدکرے گی؟۔ سوال یہ بھی بہت بڑا ہے کہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے تو سکیورٹی کی ذمہ داری بھی ان کی ہی بنتی تھی ۔ پنجاب حکومت اس سوال کا کیا جواب دے گی ؟کیاسارا الزام وفاقی حکومت پر ہی لگے گا یا عمران خان کسی تیسری وقت پربھی انگلی اٹھاسکتے ہیں؟
اس حملے کا ذمہ دارکوئی بھی ہو۔ گرفتار ملزم ہی اکیلا ذمہ دار ہویا اس کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز،اس کی تفصیلات آنے والے دنوں میں سامنے آتی رہیں گی ۔لیکن اب یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ لانگ مارچ یہیں سے ختم اور عمران خان احتجاج کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوجائیں گے۔ اب اس احتجاج کا مطالبہ شہبازشریف اور رانا ثنا اللہ کو عہدوں سے ہٹانا ہوگا۔آنے والے دنوںمیں پی ٹی آئی کے اس احتجاج میں مزیدتیزی آئے گی۔لانگ مارچ جو ایک غیرضروری اور فضول مشق بنتی جارہی تھی اس میں نئی جان ڈالی جائے گی۔ عمران خان پیچھے ہٹ کر اپنی اس احتجاجی تحریک کو مزید منظم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ سازشی نظریات بھی زیرگردش ہیں کہ اس حملے کا اصل مقصد کیاہے تویہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حملہ آور کا مقصد صرف وہی ہو جو پکڑاجانے والا ملزم بیان کررہاہے۔یا اس کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا کوئی حملہ کرکے عمران خان کو ڈرایا جائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے حملے سے عوام کا رد عمل جانا جائے اور ایک سازشی نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ حملہ سراسرایک سٹیج کارروائی ہو جس سے ایک سے زیادہ مقاصد حاصل کرنا مقصود ہو۔جیسا کہ عمران خان نے فوری طورپرتین ناموں پر الزام ڈال کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔خیر جوبھی آنے والے دنوں میں بہت سی باتیں سامنے آئیں گی لیکن فی الوقت ہمیں سب کو اس بات پر شکر کرنا چاہیے کہ عمران خان صاحب کو نقصان پہنچنے سے بچ گیا۔اللہ پاکستان کی خیرکرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button