Columnمحمد مبشر انوار

انقلاب دہلیز پریا انقلاب کی دہلیز پر ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

مہذب و ترقی یافتہ ممالک کی بے مثال ترقی پر نظر دوڑائیں تو پس منظر میں ایک جہد مسلسل نظر آتی ہے کہ جس میں عوام کی قربانیوں کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان قربانیوں کے عوض جو آزادی ان ممالک نے حاصل کی،اسے شتر بے مہار چھوڑ دیا گیا ہو۔ نظام حکومت ایسا ترتیب دیا گیا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے حکمرانوں کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ من مانیاںکر سکیں بلکہ نظام کی مضبوطی و شفافیت ایسی ہے کہ کمزور کے حقوق کا ہر صورت تحفظ ممکن بنایا گیا ہے اور کسی بھی طاقتور کو محض اپنی سماجی حیثیت کے بل بوتے پر ظلم وستم یا استحصال کی چھوٹ میسر نہیں ہے۔ایسی کسی بھی غیر قانونی حرکت پر ادارے از خود حرکت میں آتے ہیں اور بڑی سے بڑی حیثیت کے حامل شخص کو اداروں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑتا ہے،نظام انصاف صرف انصاف کرتا نہیں بلکہ اس کا انصاف نظر آتا ہے اور حقیقی معنوں میں عدالتیں شخصی حیثیت کے معاملے میں اندھی دکھائی دیتی ہیں۔ عدالتوں کے نزدیک سب سے اہم چیز قانون ہے،جس کی بنیاد پر اگر ایک کمزور شخص کی حق تلفی ہوئی ہے اوراس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو عدالت اس حق تلفی کا ازالہ کرنے کیلئے بغیر کسی سیاسی و سماجی دباؤ کے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے ۔یہی انصاف پسندی ہے ،جس نے ان ممالک میں معاشرتی اقدار کو محفوظ ترین بنا رکھا ہے اور معاشرے میں سکون و اطمینان نظر آتا ہے، تیسری دنیا کے شہری ان ممالک کی شہریت لینے کیلئے اسی وجہ سے بے چین نظر آتے ہیں کہ ایسے معاشروں میں ان کیلئے نہ صرف ذہنی سکون و اطمینان میسر ہے بلکہ ایسے
ماحول میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک کو مواقع کی سنہری سرزمین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین میں کوئی بھی اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کا لوہا منواکر اپنے اور امریکہ کیلئے دنیا بھر میں نام پیدا کر سکتا ہے،ایسی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ امریکہ کی بیشتر بڑی کمپنیوں میں غیر ملکی اپنی صلاحیتیوں اور ہنرمندی کے سبب اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ یہاں البتہ خامی ضرور موجود ہے کہ ایسے اعلیٰ ترین عہدوں پر بالعموم یا اکثریت میں ہمیں غیر مسلموں کی تعداد ہی نظر آ تی ہے جبکہ مسلم افراد اب اس دوڑ میں شامل ہوتے نظر آرہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ وہ حالات رہے ہیں کہ جب جدیدٹیکنالوجی کی یہ دنیا آباد ہو رہی تھی،اس وقت مسلم ممالک کے داخلی حالات کے علاوہ بیرونی عوامل بری طرح اثر انداز ہورہے تھے اور مسلم طالبعلموں کیلئے جدید علوم کے دروازے بھی کسی نہ کسی حد تک بند رکھے جا رہے تھے جبکہ مسلم حکمرانوں کی دوراندیشی بھی اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہی۔بہرکیف وہ وقت گذر چکا اور اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور مسلمان بھی اس دوڑ میں نہ صرف شامل ہو رہے ہیں بلکہ اس میں بہت تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے نظر بھی آ رہے ہیں ،پاکستان جیسے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ بتدریج بڑھ تو رہی ہیں لیکن حکومتیں ابھی تک ان کو وہ وسائل فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس سے اس شعبہ میں جلد ازجلد ترقی ہو سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی حالات روز اول سے ہی قابل فخر نہیں رہے کہ جمہوریت کی بنیاد اور اصول پر بننے والی یہ ریاست ابتداء سے ہی جمہوری طرز حکومت سے بھٹک گئی یابھٹکادی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن ریاست میں سیاسی سرگرمیاں کمزور تر ہوتی رہیں اور سیاستدانوں کی جو کھیپ منظر عام پر آئی،اسے بہر طور سیاستدان کسی طور نہیں کہا جا سکتا۔ نرسری کے گملوں میں پروان چڑھنے والی سیاسی قیادت ،بالخصوص پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں منظر عام پر آنے والی قیادت نے بتدریج اپنی سیاسی حیثیت پر سمجھوتے کئے اور اس کے عوض اس ملک کے سیاسی و سماجی و معاشرتی اقدار کو کمزور کرتے رہے۔اس میں اب کوئی دورائے نہیں رہی کہ گذشتہ چار دہائیوں میں اس ملک کے ساتھ انتہائی بے دردی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ معاشی حالات بھی ایسے ہیں کہ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے کوئی انتہائی خبر سامنے آ سکتی ہے خاکم بدہن لیکن ان حقائق سے نظریں چرانا ایسے ہی ہے کہ جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔اختیار کی رسہ کشی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ قریباً تمام سیاسی جماعتیں ،جیسے ہی اقتدار سے نکلتی ہیں،ان کا اگلا ٹھکانہ
پاکستان کی سڑکیں ہوتی ہیں اور وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے بہانے مقتدرہ پر تنقید کے نشتر لگانے لگتی ہیں،وہ خواہ نواز شریف ہوں یا پیپلز پارٹی او ر اب تحریک انصاف بھی اس صف میں شامل ہو چکی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہی سیاسی جماعتیں جب تک اقتدار میں رہتی ہیں،ان میں کوئی بھی جماعت سویلین اختیار کی خاطر ،اپنے حقوق کی خاطر اقتدار کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتی البتہ دبے لفظوں میں اختیار نہ ہونے کا شکوہ ضرور کرتی ہے کہ انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف نہ صرف سڑکوں پر ہے بلکہ تاریخی اعتبار سے،پچاسی کے بعد سے،عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ہمرکاب ہے اور بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ عوام کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کا دوسرا بڑا لیڈر بن کر سامنے آیا کہ جسے حکومت سے نکلنے کے بعد اتنی بڑی عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے وگرنہ اپنی زندگی میں ماسوائے بھٹو کے کسی بھی دوسرے سیاسی قائد کو اتنی عوامی حمایت و پذیرائی ملتے نہیں دیکھی۔یہاں عمران خان بھی اس وقت اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں اور دہائیوں سے جمہوریت سے محروم عوام اور سیاسی قیادتوں کے حکومتی اختیار کی لڑائی اس وقت سڑکوں پر ہوتی نظر آ رہی ہے،یہ جنگ کون جیتے گا،اس کے متعلق فی الوقت کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ بعد ازاں کے حالات پر کوئی رائے دی جا سکتی ہے کہ جیسے عمران خان قانون کی بالا دستی کی بات کررہے ہیں،وہ حقیقتاً اس ملک میں نافذالعمل ہو سکے گا یا نہیں۔عمران خان نے کنٹینر سے عمران ریاض خان کو اپنے حالیہ انٹرویو میں مارشل لاء کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مارشل لاء سے ڈرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ اس دھمکی سے ڈر نے کیلئے تیار ہیں،ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔عمران خان اس وقت صرف ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں فی الفور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جائے کہ موجودہ صورتحال میں یہی ایک واحد راستہ ہے کہ جس سے ملک میں استحکام ممکن ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی اراکین کی طرف سے اس کی نفی یہ کہہ کر کی جا رہی ہے کہ جس طرح ان کی حکومت کو لانگ مارچ کی صورت غیر مستحکم کیا جار ہا ہے بعینہ اگر وہ اپوزیشن میں آتے ہیں تو عمران حکومت کیلئے بھی حکومت کرنا مشکل ہو گا اور وہ اسی طرح سڑکوں پر ہوں گے۔یہ ساری صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ ملکی معاملات کی بجائے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کرتی نظر آتی ہے اور کہیں بھی سیاسی بصیرت و بلوغت کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا۔ کل تک موجودہ حکومت مراسلے کو ڈھکوسلہ قرار دے رہی تھی جب کہ آج اس مراسلے پر سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کروا کراس کی حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے اور عمران خان اپنے مؤقف پر سختی کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ان کی حکومت کو غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر ہٹایا گیا ہے اور اس مؤقف کو عوام میں پذیرائی بھی مل چکی ہے۔علاوہ ازیں! عمران خان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے عوام کی آنکھوں میں انقلاب دیکھ رہے ہیں ،اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس انقلاب کو نرم انقلاب تک مخصوص رکھتے ہیں یا خونی انقلاب کی طرف لے جاتے ہیں۔کیا پاکستان واقعی انقلاب کی دہلیز پر ہے یاانقلاب،دہلیز پر ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button