ColumnKashif Bashir Khan

اداروں پر احتیاط لازم! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

کرم میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر ضمنی انتخاب میں عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے امیدوار کو الیکشن بڑے مارجن سے ہرا کر ثابت کردیا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کا تمام بڑی جماعتیں سیاسی میدان میں مل کر بھرپور کوشش کے باوجود بھی مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔کرم میں ہونے والے قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب کی جو بات بقیہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے پریشانی کا باعث ہے وہ عمران خان کی اس حلقہ میں کسی بھی قسم کی انتخابی مہم نہ چلانے کے باوجود قومی اسمبلی کی اس سیٹ پر بہت بڑے مارجن سے جیت ہے۔اس وقت پاکستان میں بدترین معاشی زبوں حالی ہے اور اتحادی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح اپنی سیاست اور عوام کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔پاکستان کے عوام کا جینا مہنگائی،مہنگے پٹرولیم و بجلی کے بلوں میں تباہ کن اضافے سے مشکل ترین کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا نقشہ تو واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور وفاقی حکومت جو فوری الیکشن کروانے سے بھاگ رہی ہے بہت بڑی مشکل میں پھنس چکی ہے کہ مشکل سے 9 ماہ باقی ہیں اور وہ اب بھی عوام کی مشکلات حل کرنے کی بجائے عمران خان کو دیوار سے لگانے اور اس پر جھوٹے مقدمات درج کرنے میں مصروف ہے۔کچھ ایسا ہی صحافیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور ان کی زبان بندی کیلئے ان کو مختلف طریقوں اور مقدمات کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے اس اتحادی اقتدار کے ابتدائی 6 ماہ نیب کے پر کاٹ کر اپنے مقدمات ختم کرنے اور عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر پاکستان کے عوام کی زندگیاں
پہاڑ جیسی کرنے میں گزرے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخاب جیتنا تو دور،عوام میں جانے کے قابل بھی نہیں رہیں۔ وفاقی حکومت کی حتیٰ المقدور کوشش ہے کہ عام انتخابات کو جتنا موخر کیا جا سکے ، کیا جائے لیکن ملکی موجودہ سیاسی صورتحال دن بدن اتحادی جماعتوں کی سیاست کو اُجاڑتی دکھائی دے رہی ہے اور اتحادی جماعتوں کا یہ خیال کہ عمران خان کیلئے عوامی حمایت کا سمندر گزرتے وقت کے ساتھ ختم یا کم ہو جائے گا حرف آخر کی طرح غلط ثابت ہو رہا ہے۔اب اتحادی جماعتوں اور بالخصوص شہباز شریف کے پاس چند ماہ ہیں اور پاکستان کی بدترین اقتصادی بدحالی کے تناظر میں ایسا کوئی جادوئی اقدام یا نسخہ ان کے پاس نہیں جس سے وہ عوام کو ریلیف دے کرنون لیگ یا اتحادی جماعتوں کی طرف مائل کر سکیں۔عمران خان کے خلاف جس توشہ خانے کیس میں میڈیا میں آ کر وفاقی وزرا ہلکان ہو رہے تھے اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف فیصلہ بھی عمران خان کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور اس کی مبینہ نا اہلی کے باوجود عوام نے عمران خان کو کرم کی سیٹ پر بہت بڑے مارجن سے جتوا دیا۔اس وقت پاکستان کی سیاست عجیب دوراہے پر کھڑی ہے کہ جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں
وہ حکومت کر رہے ہیں جبکہ عوام کی غالب اکثریت جس کے ساتھ ہے وہ حکومت سے باہر اور احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کر رہا ہیں کہ پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کروائے جائیں۔وزیر اعظم پاکستان کے عوامی مینڈیٹ کے حامل نہیں ہیں اور 2018 میں جس سیاسی جماعت کے بینر تلے انہوں نے انتخاب میں حصہ لیا تھا اس کی مخصوص اور خواتین کی نشستیں ملا کر 82 قومی اسمبلی کی سیٹیں بنتی تھیں۔اسی طرح پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بہت کم تھیں اور اصل مینڈیٹ تو عمران خان کی تحریک انصاف کو عوام نے دیا تھا۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ووٹرز نے ان جماعتوں کو جو ووٹ دیا تھا وہ آپس میں برسوں کی مخالف برسرپیکار جماعتوں کے اتحاد کیلئے نہیں دیا تھا۔ اس لئے جب موجودہ اتحادی وزیر اعظم جب کہتے ہیں کہ مجھے عوام نے بطور وزیر اعظم منتخب کیا ہے تو وہ داراصل سچ نہیں ہوتا۔عمران خان کی تحریک انصاف کے خلاف جن جماعتوں نے اقتدار کے حصول کیلئے اتحاد کیا وہ نظریاتی اور فکری اعتبار سے دریا کے مختلف کناروں کی مانند ہیں لیکن سیاست اور اقتدار کے حصول کیلئے آج ہم ماضی میں ایک دوسرے کی کردار کشی اور ایک دوسرے پر غلاظت انڈیلنے والوں کو بھی ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں،لیکن اصل مسئلہ تو پاکستان کے مستقبل قریب کے سیاسی منظر نامے اور بندوبست کا ہے۔موجودہ سیاسی حالات میں وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سمیت بہت سے علاقوں کو ریڈ زون میں شامل کرنے کے کابینہ کے فیصلے نے وفاقی حکومت
کے بوکھلائے جانے اور ہاتھ پاؤں پھولنے کی نشاندہی کر دی ہے۔اس طرح کے اقدامات کو عدالت میں فوری چیلنج کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عوامی طاقت کے ساتھ کھلم کھلا تصادم کی ابتدا ہے اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طرح عمران خان کے لانگ مارچ میں عوام کی ہزاروں کی تعداد میں شرکت ہو رہی ہے وہ ناقابل یقین اور بے مثال ہے۔جو لوگ عمران خان کے لانگ مارچ کو رک رک کر چلنے کا طعنہ دے رہے ہیں انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ نے 16 اکتوبر 1934 میں جو لانگ مارچ کیا تھا اسے اپنی منزل تک پہنچنے میں ایک سال سے زائدوقت(368 دن)لگے تھےاور اس لانگ مارچ نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی تھی پھر جا کر چیئرمین ماؤزے تنگ نے منزل حاصل کی تھی اور قوم کو غلامی سے نجات دلائی تھی۔مجھے یقین ہے کہ عمران خان نے بھی تحریک انصاف کا لانگ مارچ چیئرمین ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کی طرز پر ڈیزائن کیا ہے جس میں عوام کو آرام بھی دیا جا رہا ہے اور پھر دوبارہ سے چارج بھی کیا جا رہا ہے۔اس لانگ مارچ میں عوام کی جانب سے عمران خان سےوالہانہ محبت، روایتی حکمرانوں کے خلاف شدیدعوامی نفرت اور پاکستان کی سیاست و حکومتوں میں اندرونی و بیرونی مداخلت کے خلاف عوام کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے جو وفاقی حکومت کو انتخابی عمل سے بھاگنے پر مجبور کر رہا ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ عوامی تائید سے محروم وفاقی اتحادی حکومت کیا لانگ مارچ کو روک سکتی ہے تو اس کا جواب نہیں میں ہی ہے۔
ارباب اختیار جو کہ مقتدر حلقے ہیں کو سوچنا ہو گا کہ وفاقی حکومت جسے عمران خان کے ساتھ ساتھ عوام کی اکثریت بیرونی ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آنے والے سمجھ چکے ہیں اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اتحادی تمام جماعتیں مستقبل میں انتخابی سیاست میں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کے پاس واحد حل عوام کے لانگ مارچ سے تصادم ہی رہ جاتا ہے کہ نئے انتخابات ان کی سیاسی موت کے مترداف ہیں۔عوامی سیلاب کو طاقت اور جبر سے روکنے کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں اور یہ اس غیر مقبول اقلیتی اور مالی کرپشن کے مقدمات کی شکار وفاقی وزرا کی حامل وفاقی حکومت ایسا کچھ بھی کر گزرے گی کہ ماضی میں ایک سپہ سالار کے جہاز کو کراچی اور دوسرے ملکی ائر پورٹس پر نہ اترنے دینے والی جماعت کے پاس اقتدار ہے اور ارباب اختیار کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیےکہ لاہور میں ریاستی طاقت کا ماڈل ٹاؤن میں وحشیانہ استعمال کر کے لاشیں گرانے والے حکمران ہی اب وفاق میں اقتدار میں ہیں۔پاکستان میں موجودہ احتجاجی تحریک کے بعد اس وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں کی سیاست دفن ہو چکی اور فوج سمیت رینجرز اور اسلام آباد پولیس کو احتیاط برتنی ہو گی کہ عوامی احتجاج پر ریاستی جبر اور تشدد کیلئے رینجرز اور پولیس وغیرہ کو استعمال کرنا اس اتحادی کمزور حکومت کا آخری حربہ ہو سکتا کہ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے پاس اپنا اقتدار چند ماہ بڑھانے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔اگر عوام کے احتجاج پر ریاستی اداروں سے تشدد اور ظلم کروایا گیا تو اس کے نتائج نہایت بھیانک ہو سکتے ہیں۔ایسا کوئی بھی اقدام عوام اور اداروں کو لڑانے کی قبیح سازش ہو گی۔ماضی میں ڈھاکہ میں عوام پر تشدد کے بعد جو ہوا پاکستان میں بھی حالات اس جیسے ہو سکتے ہیں کہ اب تو اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق بھی بہت کمزور کیا چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button