ColumnNasir Naqvi

پچھتاوا .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سب اچھا کی خواہش رکھنے والے ، اچھی طرح جانتے ہیں کہ سب اچھا نہیں،پھر کیا وجہ ہے کہ معاملات کو بہتری طرف لے جا نے کی بجائے ایسے راستے پر لے جایا جا رہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں،اس صورت حال تک کس نے پہنچایا کوئی ماننے کو تیار نہیں،حکومت عمرانی دور کو ذمہ دار قرار دیتی ہے اور کپتان موجودہ حکومت کا کار نامہ کہتے ہیں فیصلہ کون کرے گا۔ خان اعظم نے تمام ادارے متنازعہ بنا دئیے ہیں یہی نہیں،بیچ بچائو کرانے والوں کو بات بات پر اس قدرمورودالزام ٹھہرایا کہ انھوں اپنے کئے کی توبہ کرکے نیوٹرل ہونا ہی مناسب سمجھا،لیکن عمرانی موقف ہے کہ عقل ،بوجھ اور سمجھ رکھنے والا نیوٹرل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ نیوٹرل تو جانور ہوتاہے۔ خان صاحب نے اپنی منطق کو درست ثابت کرنے کیلئے دبائو بڑھایا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اورایک نہیں دو جنرل مدمقابل آ گئے،یہ حقیقت ہے کہ ایسا پہلی بارہوا،تو سخت ردعمل آ نا ہی تھا آ گیا کسی نے تسلیم کیا کسی نے اختلاف،لیکن اس طرح حکومت اوراپوزیشن کی لڑائی کھل کر سامنے آ گئی عمران خان نے ارشد شریف کے قتل سے بھی نرم گرم انداز میں کھیلنے کی کوشش تو کی ہی تھی الزامات لگا دئیے،واقع کینیا میں ہوا لہٰذا وہاں اور یہاں دو پوسٹ مارٹم ہوئے،دونوں کی رپورٹ مختلف ہے۔
اسی دوران لانگ مارچ کی کال بھی منظر عام پر آ گئی،عمران خان لاہور سے نکلے اور پہلا مرحلہ لاہور میں ہی ختم کر دیا لوگ مناسب تھے لیکن
اعلان اور امید سے کم تھے دوسرا مرحلہ شاہدرہ سے شروع ہوا وہاں بھی تعداد سینکڑوںسے آ گے نہ بڑھ سکی، اس دوران خبر آ ئی کہ بیک ڈور مذاکرات میں عمران خان بھی شامل ہیں لیکن اگلے ہی روز تردید آگئی کہ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے پھر بھی وزیراعظم شہباز شریف نے راز فاش کر دیا کہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے عمران مذاکرات چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ سپہ سالار کیلئے وہ اور ہم تین تین نام سامنے رکھ کر ایک نام پر اتفاق کر لیں اور نئے الیکشن کی تاریخ بھی دے دی جائی ہم نے بتا دیا ایسا نہیں ہو سکتا،اس لئے کہ عمران مستقل طور پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ،ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، لانگ مارچ بھی ناکام ہو گیا لوگوں کو بھی ان کی سرگرمیاں مشکوک اس لئے محسوس ہو رہی ہیں کہ ان کے بیانوں پر بھارت میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں،وہ کہتے ہیں آ ئی ایس آئی ہمارے لئے مصیبت تھی اب سابق وزیر اعظم ہمارا کام کر رہے ہیں۔ ہمارا اعتراض کوئی قبول نہیں کرتا تھا لیکن عمران نے ہمارا کام آ سان کر دیا اب پاکستان کس طرح انکار کرے گا وہ کہتے تھے میں سب کیلئے
خطرناک ہوں اس وقت ایسا ہی ثابت ہو گیا ہے کہ عمران کی اب سیاست میں کوئی گنجائش نہیں،دوسری جانب وقفے وقفے سے لانگ مارچ جاری ہے لیکن ایک آ ڈیو لیکس سے یہ شور مچ گیا ہے کہ اس مرتبہ پھر لانگ مارچ میں بندوقیں ہیں نہیں بلکہ بہت ہیں،یہ آ ڈیو علی امین گنڈا پور کی ہے جس میں وہ کسی شخص سے معلومات حاصل کر رہے ہیں، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا دعوی ہے کہ عمران اپنے ہی کارکنوں کی لاشیں گرانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ جا کر ثبوت دیں گے ان کا کہنا تھایہ جرم ہے۔ خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری اور آ ئی جی کو کارروائی کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں ہمیں ماریں گے تو ہم ہارلے کر نہیں کھڑے ہو سکتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی فرماتے ہیں کہ ہر لانگ مارچ پر بیک ڈور مذاکرات ہوتے ہیں عمران خان ایک ویثرن لے کر چلے ہیں ۔ کامیاب ہوں گے۔ عمران بھی حکومت سے بات نہیں کریں گے بلکہ وہاں بات کریں گے، ’’جتھوں گل مکدی اے‘‘ یہ بات پکی ہے کہ عمران کسی حکومتی کمیٹی سے بات نہیں کریں گے،لانگ مارچ ابھی تک نہ صرف پر امن ہے بلکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آ یا، لیکن اسلحے کی موجودگی لمحہ فکر ہے ۔
پنجاب حکومت اور ان کے ترجمان عمر سرفراز چیمہ کا دعویٰ ہے کہ لانگ مارچ نے وفاقی حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اسے عمران خان کی تحریک کا کریڈٹ کہا جا سکتا ہے جبکہ پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ عمران دشمن بھارت کی زبان بول کر حقیقی آزادی کی بات کر رہے ہیں انہیں شرم آ نی چاہیے کیونکہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں پر تنقید کر کے دشمن کی خدمت کر رہے ہیں اسی لئے پنجاب اور لاہور کے غیور عوام نے عمران کے بیانیے پر کان نہیں دھرے۔ عمران لاشوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں نہیں ملیں گی اور ملک میں فتنہ فساد پھیلانے کی کوشش ناکام ہوگی۔ انہیں پتا ہے کہ اسلام آ باد پہنچیں گے تو ان استقبال کیسے ہوگا اس لئے وہ اب پنڈی میں کوئی ڈرامہ رچانے کی فکر میںہیں ۔
اقتدار کی اس لڑائی میں اگر جوش میں ہوش سے کام نہ لیا گیا تو خون خرابہ ضرور ہو گااس کی نشاندہی بہت پہلے شیخ رشید کر چکے ہیں جنہیں ان کا بیان یاد نہیں،وہ فیصل واوڈا کا تازہ بیان یاد رکھیں کہ میں خون ہی خون اور لاشیں دیکھ رہا ہوں،اس کے علاوہ ازلی دشمن کی خوشیاں اور بھنگڑے دیکھیں،جو ہر گز عام بات نہیں،اس نے دہشت گردی اور گرے لسٹ میں پاکستان کو پھنسانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی اب یہ فکر لاحق ہے کہ اگر ہمارے سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو مستقبل میں یہی ازلی دشمن عالمی اداروں میں شور مچاتے دکھائی دیں گے کہ وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔وہاں قومی ادارے غیر فعال ہیں لوگوں کو ننگا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس بیانیہ کو جان بوجھ کر عام کیا جارہا ہے،عمران کا کہنا ہی یہی ہے کہ ہم ظلم وناانصافی کے سامنے کھڑے ہیں،مجھے لگتا ہے کہ یہی چار شیٹ ہمارے لئے مشکل بن جائے گی اورہم اپنے نادان دوستوں کے منہ تکتے رہ جائیں گے،حالات کا تقاضا ہے کہ جذبہ قومی یکجہتی کا دامن پکڑ کر ایسے اتحاد کا مظاہرہ کریں کہ وطن عزیز کے دشمنوں کامنہ کالا ہو جائے اور ملک وملت کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہو جائیں،یہ وقت ہے ہوشمندی کا۔ ہم نے جوش کے نام پر بہت سے نقصانات اٹھائے ،تن تنہا اور اجتمائی بھی،ہمیں ہوش میں لانے کے ماضی کی سب غلطیاں تاریخ میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ہمیں منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہیں لیکن ہم نے معمولی مفاد پر آ نکھیں بند رکھنے کی عادت اپنا رکھی ہے اگر ہم سقوط ڈھاکہ سے کچھ سیکھ لیتے تو آ ج ایک قوم بن چکے ہوتے،ہم نے نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ لمحہ موجود میں بھی ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جن سے کچھ سیکھا نہ گیا تو ہماری آ ئندہ نسلیں نہ صرف پچھتائیں گی بلکہ اس پچھتاوے پرہمیں اچھے الفاظ میں ہرگز یاد نہیں کریں گی۔ ہم نے برسوں جہاد افغانستان ایک آ مر کی پکار پر اسلام کے نام پر لڑا اورجو کچھ ہمارا نصیب بنا وہ بھگت رہے ہیں اورجن کیلئے لڑا،جنہیں محفوظ بنانے کی کوشش کی وہ آ ج ہماری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی ایک جہاد اور انقلاب کے نام پر قوم مشکل میں پھنسی ہوئی ہے اگرہوش کی بجائے جوش میں رہے تو م اتحاد و اتفاق کی بجائے مزید تقسیم در تقسیم وو کر دشمن کا ایجنڈا مکمل کرنے کے سہولت کا ثابت ہوں گے اور ہمارے پاس صرف پچھتا واہو گاجوہمیں دیمک کی طرح کھوکھلا تو کر سکتا ہے، طاقت کا باعث ہر گز نہیں بنے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button