ColumnImtiaz Aasi

اداروں کو سیاست میں کون لایا؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈی جی آئی ایس آئی نے عوام کے ذہنوں سے ملکی سیاست میں اداروں کی مداخلت بارے شکوک وشہبات دور کر دیئے ہیں۔جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی بات ہے دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اسٹیبلشمنٹ نہ ہو ۔یہ اداروں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنسیوں کا مقابلہ کرکے مملکت میں امن وامان قائم کئے ہوئے ہیں ورنہ سیاست دانوں پر ہوتا تو کب کا ملک کو بیچ کھائے ہوئے ہوتے۔سیاست دان تو چند سالوں کیلئے اقتدار میں آنے کے بعد چلے جاتے ہیں جب کہ اداروں کا کردار مستقل بنیادوں پر ہوتا ہے۔ اداروں کی طرف سے کئی بار کہنے کے باوجود کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں سیاست دان انہیں سیاست میں گھسیٹنے سے بازنہیںآتے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ڈی جی آئی ایس آئی کو قومی پریس سے براہ راست مخاطب ہونا پڑا۔ڈی جی آئی ایس آئی اس ناچیز کے مہربان دوست ایک سابق بیورو کریٹ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ایک روز ہم نے انہیں اپنے لئے کسی ادارے میں کوئی عہدہ لینے کا مشورہ دیا تو انہوں نے جواب دیاکبھی اس بارے سوچنا بھی نہیں وگرنہ کوئی اور ہوتا تو کب کسی اہم عہدے پر براجمان ہو چکا ہوتا۔
ڈی جی آئی ایس آئی ایک پروفیشنل سولجر ہیں جس انداز سے انہوں نے بعض سیاست دانوں کی طرف سے اداروں کی سیاست میں مداخلت بارے شہبات کو دور کرنے کی کوشش کی اس کے بعد کسی کو اداروں بارے غلطی فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم ماضی کی طرف لوٹیں تو جنرل محمد ضیاء الحق کو سیاست میں مداخلت کرنے کی دعوت دینے والے سیاست دان تھے ۔ائرمارشل اصغر خان نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق کو خط لکھ کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احکامات نہ ماننے کا مشورہ دیا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977 میں انتخابات کرائے تو سیاست دانوں نے انتخابات کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا۔بھٹو مخالف سیاست دانوں میں پیر آف پگاڑا، سردار شیر باز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان درپردہ جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ اس دوران جون 1977 میں بھٹو کو مذاکرات کے دوران نواب زدہ نصر اللہ خان اور مفتی محمود باور کراتے رہے کہ ہمارے کچھ لوگ
اداروں سے ملے ہوئے ہیں لہٰذا آپ سمجھوتہ کرلیں۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد ملک میں نوے روز کے اندر عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا توانہیں انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دینے والے سیاست دان تھے جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنا بیانیہ بدل لیا اور مثبت نتائج کے آنے تک انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ پنجاب میں دو مرتبہ ہونے والے شفاف ضمنی الیکشن کے بعد کسی کو اداروں بارے کسی قسم کے شبہات ہونے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی ۔باوجود اس کے کسی نہ کسی حوالے سے اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کے بیانات نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے اداروں کی طرف سے یہ وضاحت دینا پڑی ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
ملک میں سیاسی ماحول کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ ہارنے والا فریق اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتاجس کا الزام اداروں پرلگادیاجاتا ہے لہٰذاسیاست دانوں کو اپنی اس روش کو بدلنا ہوگا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ملکی ادارے ہی ہماری سرحدوں اور داخلی امن وامان کے محا فظ ہوتے ہیں بدقسمتی سے سیاست دان ان کے خلاف بے جا تنقید
کرکے ملک دشمن عناصر کو منفی پیغام دیتے ہیں۔ بلوچستان اور سابق فاٹا میں دہشت گردی کا مقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کرنے والے ادارے ہیں جن پر سیاست دان تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام سیاست دانوں کی پرانی روایت ہے آج تک کسی نے انتخابات میں دھاندلی کے طریقہ کار بارے بتانے کی کوشش نہیں کی۔سابق وزیرا عظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جن حالات میں ہوئی اس کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں پی ڈی ایم کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا ۔نواز دور میں ایک طویل دھرنے کے تجربے کے بعد عمران خان کو ایوان میں رہ کر مہنگائی اور بے روز گاری سے جو سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا تھا وہ لانگ مارچ سے نہیںہو سکے گا ۔ عمران خان نے لانگ مارچ کوجہاد سے تعبیر کرکے معاملات کو خراب کیا ہے وہ اب لاکھ دلیلیںدیتے رہیں ان کا لانگ مارچ پرامن ہے حکومت اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہو چکا ہے راولپنڈی اورا سلام آباد کے سنگم فیض آباد تک آنے میں انہیںکسی مشکل کا سامنا نہیں ہو سکتاالبتہ لانگ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں بغیر اجازت داخلے کی صورت میں مشکل کا سامنا پڑ سکتا ہے ۔تادم تحریر اسلام آباد انتظامیہ نے تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی تھی انتظامیہ کا موقف ہے تحریک انصاف نے پہلے بھی قانون کی خلاف ورزیاں کی اب انہیں کس طرح این او سی جاری کیا جا سکتا ہے؟اسلام آباد انتظامیہ نے ایک اعتراض یہ بھی اٹھا یا ہے، تحریک انصاف نے لانگ مارچ سے متعلق تشہیری بینرز انتظامیہ کی بغیر اجازت کیوں لگائے ہیں؟
بقول ڈی جی آئی ایس پی آر عمران خان نے سپہ سالار کو ان کے عہدے میں غیرمعینہ مدت میں توسیع کی پیش کش کی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھاحالانکہ سابق وزیر اعظم جو آئین اور قانون کی بات کرتے نہیں تھکتے اس طرح کی پیش کش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اداروں کی سیاست میںمداخلت کا شکوہ کرنے والے عمران خان کے بقول انہوں نے آرمی چیف کو خود کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو روکنے میں ان کی مدد کریں لیکن سپہ سالار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسی کو سیاسی مداخلت کہتے ہیں۔ عمران خان نے جس طرح عوام میں مقبولیت حاصل کر لی انہیں کسی سہارے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے۔تاہم جو لوگ قومی اداروں کی سیاست میںمداخلت کی بات کرتے ہیں انہیں یہ چیز یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک غیر ملکی ایجنسیاں ہماری قومی سیاست میں مداخلت کرتی رہیںگی ہمارے ادارے سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتے انہیں ان کا توڑ کرنے کیلئے پس پردہ کچھ نہ کچھ سیاست کرنی پڑتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button