Editorial

لانگ مارچ کے دوران امید کی کرن!

 

وزیراعظم شہبازشریف نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی آرمی چیف کی تقرری اور الیکشن کی تاریخ کی شرط پر مذاکرات کی پیش کش پر انکار کردیا تھا ۔ قریباً ایک ماہ پہلے مشترکہ کاروباری دوست کے ذریعے رابطہ کیاگیا لیکن میں نے انکار کیا تاہم میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت پر بات کرنے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ عمران خان نے کہاکہ تین نام میں بھجواتا ہوں اور تین آپ دیں، مل کر آرمی چیف لگا لیتے ہیں، میں نے شکریہ کہہ کر انکار کردیا اور پیغام بھجوایا کہ یہ ایک آئینی فریضہ ہے جو وزیراعظم نے ادا کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مجھ سے اجازت لے کرپریس کانفرنس کی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر جاری اپنے بیان میں عمران خان مذاکرات کو افواہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں گزشتہ چھ ماہ سے دو ہی مطالبہ کر رہا ہوں۔ جلدی اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں اور اس کی تاریخ دی جائے، اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو میرے یہی مطالبہ ہوگالیکن وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین حکومت کی کسی کمیٹی سے بات نہیں کریں گے۔ عمران وہاں بات کریں گے ’’جتھوں گل مکدی اے‘‘ بات چیت ہو رہی ہے۔ بات چیت میں الیکشن کی تاریخ میں کامیابی کی کرن نظر آئی ہے۔ کامیابی کی کرن لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ آئی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ دی جائے لیکن حکومت چاہتی ہے کہ مدت ختم ہونے پر الیکشن ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ بات چیت کا کوئی نتیجہ نکل آئے گا۔ اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف نے آرمی چیف کے تقرر اور انتخابات کی تاریخ کی شرط ماننے سے معذرت کرلی ہے اور وفاقی وزرا کا بھی مشترکہ موقف ہے کہ مارچ کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے انٹرویو کے ذریعے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے قوم کو دلاسہ دیا ہے اور بلاشبہ چودھری پرویز الٰہی کا ایسا کہنا حقیقت کے زیادہ قریب لگتا ہے کیونکہ چودھری برادران کا ماضی سیاسی قوتوں کے درمیان ثالثی کرانے کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اور چودھری پرویز الٰہی چونکہ عمران خان کے اتحادی بھی ہیں اورانہیں عمران خان کا اعتماد بھی حاصل ہے تو ہمیں یقین ہے کہ ایسی کوششوں کے نتیجے میں برف ضرور پگھلے گی اور کوئی نہ کوئی راہ ایسی ضرور نکلے گی جو سبھی کے لیے قابل قبول ہوگی مگر یاد رہے کہ اِس میں کسی فریق کی ہار یا کسی کی جیت نہیں ہوگی بلکہ اِس کو ہم سیاسی قیادت کی بصیرت کا نام دیں گے کہ انہوں نے افہام و تفہیم کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور انتشار کو پھیلنے سے روک ہے تاکہ پاکستان دشمنوں کو ملک کے داخلی حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہ ملے کیونکہ ملکی سیاسی و معاشی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور نازک ہے اور پیچیدہ بھی اس لیے کہ درمیان راستہ اختیار نہیں کیا جارہا جو سبھی کے لیے قابل قبول ہو، اِس کے برعکس سبھی اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں اور ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں لیکن اگر پس پردہ سیاسی تنائو اور عدم استحکام کے خاتمے کے لیے کوششیں ہورہی ہیں تو ہم دعاگو ہیں کہ یہ کوششیں جلد از جلد بارآور ثابت ہوں اور عوام کو سیاسی قیادت کے مابین تنائو اور عدم استحکام دیکھ کر مزید پریشانیوں سے نجات مل سکے کیونکہ اگر سیاسی قیادت موجودہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتی اور بے یقینی کی صورتحال یونہی برقرار رہتی ہے تو اِس کا نقصان ملک و قوم کو تو ہوگا ہی لیکن سیاسی نظام کو اِس سے کہیں نقصان ہوگا اور اگر کسی کوشبہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا تو ماضی کے ادوار میں سیاسی قیادتوں کی غلطیوں اور اُن کے نتائج کو ضرور ایک بار دیکھ لیا جائے جن کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت اور سیاسی عمل کو نقصان پہنچا اور پھر سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں کے برملا اعترافات بھی کئے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ایسے ہی حالات میں میثاق جمہوریت بھی سامنے آیا۔ بلاشبہ احتجاج جمہوری ملک میں سبھی کا حق ہوتا ہے لیکن کیا لانگ مارچ طاقت کا مظاہرہ اور اِس کا مقصد اپنے مطالبات کے لیے دبائو بڑھانا نہیں ہوتا؟ اب جبکہ سیاسی عدم استحکام مسلسل ملک میں کئی طرح کے عدم استحکام لارہا ہے۔ لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے اور اگر خدانخواستہ مثبت نتیجے پر نہیں پہنچاجاتا تو حالات مزید گمبھیرہوتے جائیں گے۔ سیاسی قیادت کا تو کام ہی اپنی بصیرت کے ذریعے مسائل کو سلجھانا ہے اِس لیے اول تو ملک کے سیاسی حالات اِس نہج پر جانے ہی نہیں چاہئیں تھے اور اب جبکہ پہنچ چکے ہیں تو اِن کو معمول پر لانا بھی تو سیاسی قیادت نے ہی ہے۔ رواں سال مرکز میں تبدیلی رونما ہونے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف سڑکوں پر ہے، اگر کوئی اور ملک ہوتا تو شاید ان ہائوس تبدیلی کے بعد ایسا نہ ہوتا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں وہ سب کچھ ہوجاتا ہے جو دوسرے ممالک میں نہیں ہوتا، پس اب مزید ایسی روایات کا تسلسل بند ہونا چاہیے کہ ہمیں بھی مہذب ممالک میں شامل ہونا چاہیے۔ ماضی گواہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے کبھی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور اِس کی سب سے بڑی مثال ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا اور پارلیمان کی بجائے سڑکوں پر رہنا ہے، پی ٹی آئی حکومت نے بھی اپنے دور حکومت میں تین سے چار لانگ مارچ اور کم و بیش اتنے ہی دھرنوں کا سامنا کیا پس جو کل سڑکوں پر تھے آج ان کا سامنا ویسے ہی صورت حال اور ویسے ہی مطالبات سے ہےجو کم و بیش چار سال اُن کے اپنے تھے۔ پس تاریخ اپنے آپ کو دھرارہی ہے لیکن براہ کرم ماضی کی غلطیوں جیسی غلطیوں سے بچا جائے اورجلد ازجلد ملک و قوم کو اِس بے یقینی کی صورتحال سے باہر نکالا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button