Columnمحمد مبشر انوار

خوف!!! محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

بالآخرارشد شریف کا جنازہ،ان کی والدہ کی خواہش کے عین مطابق،فیصل مسجد میں ادا کردیا گیااور توقع کے مطابق عوام کا جم غفیر ارشدشریف کے جنازے میں شریک ہوا۔ یقینی طور پر ارشد شریف کی لحد پر ٹنوں نہیں تو منوں پھول اور پتیاں بھی موجود ہوں گی کہ اس کے قریبی صحافی دوستوں کا گذشتہ دنوں جو جذباتی رویہ رہا ہے،یہ ممکن ہی نہیں کہ ارشد شریف کی والدہ کی اس خواہش سے منہ موڑ سکیں ہوں،ویسے بھی ارشد شریف کی والدہ کی یہ خواہش نہ بھی ہوتی تو کم از کم مجھے کوئی شبہ نہیں کہ دیگر صحافی احباب اس سے صرف نظر کر پاتے۔ اپنی حیثیت کے مطابق ہر شخص نے ارشد شریف کی لحد پر پھول اور پتیاں بکھیری ہوںگی کہ اس کے سفر آخرت پر یہی ایک ہدیہ ہے،جو اسے پیش کیا جا سکتا تھا ،لحد میں اتارنے کے بعد بھی یقین واثق ہے کہ احباب اس کے حق میں جو بھی صدقہ جاریہ ممکن ہو گا،وہ جاری رکھیں گے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کسی بھی متوفی کیلئے پیش کیا جانے والا صدقہ،اگلی منازل کی سختیوں کو ٹال دیتا ہے۔ اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے معاشرے کی رسموں کے مطابق کسی لمبے چوڑے اجتماع کا اہتمام کیا جائے، اس عطیہ میں کسی بھی مرحوم کو بالخصوص جبکہ امت مسلمہ کے مرحومین کو بالعموم بغرض ثواب عطیہ کرنے سے اللہ رب العزت اپنے خصوصی کرم سے مرحومین کے درجات کو بلند فرماتا ہے اور ان کی بخشش کے سامان پیدا کرتا ہے لہٰذا کوئی بھی کم حیثیت شخص کم از کم اتنا ہدیہ؍عطیہ ہر نماز کے بعد مرحومین کے درجات کی بلندی کیلئے کر سکتا ہے یا جب بھی موقع ملے یہ عمل کر سکتا ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے اٹھائیس اکتوبر کو بمقام لبرٹی چوک لاہور سے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے،جسے کم و بیش ایک ہفتہ تک اسلام آباد پہنچنا ہے۔اس لانگ مارچ کا نتیجہ یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟کیا اس کے نتیجہ میں حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے؟یا اتنا دباؤ پیدا ہو سکتا ہے کہ حکومت خود انتخابات کا اعلان کردے؟کیا مجوزہ لانگ مارچ عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق ایک مخصوص حصے میں ہی ہو گا؟۔کیا یہ لانگ مارچ واقعتاً پر امن رہے گا؟بظاہر یہ سوالات ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے جوابات ہر شخص اپنے انداز میں سوچ بھی رہا ہے اور اس کا اظہار بھی کر رہا ہے لیکن پردہ غیب سے کیا طلوع ہو گا،اس کا فیصلہ تو لانگ مارچ کے بعد ہی سامنے آئے گا اور سب سے بڑھ کر کہ کیا واقعی لانگ مارچ ہو بھی جائے گا؟یہاں ایک چیز تو انتہائی واضح ہے کہ ماضی کے تجربات کے مطابق کسی بھی قسم کا لانگ مارچ ہو،حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے قطعی کافی نہیں ہوتا کہ یہاں اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش بہرطور کسی بھی دوسری حقیقت سے کہیں زیادہ ہے ماسوائے بے نظیر بھٹو کے لانگ مارچ کہ جس کے اختتام پر نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اس کے پس پردہ کیا محرکات تھے،سب کو علم ہے کہ اس لانگ مارچ سے پہلے ہی یہ طے ہو چکا تھا کہ نواز شریف حکومت کو گرایا جائے لیکن اس کیلئے حالات کا پیدا ہوناضروری امر تھا اور تب بے نظیر ہی متبادل قیادت اور عوامی طاقت کا مظہر سمجھی جاتی تھی البتہ انتخابات اس کے باوجود ،لانگ مارچ کے ختم ہونے پر کروائے گئے جبکہ لانگ مارچ کا اختتام نئے انتخابات کی یقین دہانی پر ہوا۔نئے انتخابات کی یقین دہانی بھی اختیار کے مرکز کی جانب سے ہوئی ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ عمران خان کو لانگ مارچ کے عوض کوئی یقینی دہانی کروائی گئی ہو؟دوسری طرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے واضح اعلان کہ فوج نے سیاست سے دور رہنے کا اداراتی فیصلہ کرلیا ہے؟کیا اس اعلان کے بعد یہ توقع رکھی جائے کہ فوج کے دور ہونے کے بعد سیاستدان اپنے فیصلے بقائمی ہوش و حواس اور دانشمندی سے کر سکیں گے؟
شنید تو ہے کہ سیاستدانوں کے درمیان پس پردہ مذاکرات جاری ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کے ساتھ انفرادی مذاکرات بھی جاری ہیںتو کیا کوئی ایسا فارمولا طے ہو سکے گا کہ جس کے نتیجہ میں ملک میں جاری قیاس کا خاتمہ ہو سکے اور ملک میں استحکام نظر آئے؟تحریک انصاف کے نزدیک استحکام کا ایک ہی فارمولا ہے کہ فوری طور پر نئے صاف و شفاف انتخابات کروائیں جائیں اور نو منتخب حکومت انصرام حکومت سنبھالے جبکہ دوسری طرف حکومت کا مؤقف ہے کہ چونکہ حکومت آئینی طریقے سے برسراقتدار آئی ہے لہٰذا اسے مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔حالانکہ حکومت ملنے سے قبل تک یہی 13سیاسی جما عتیں یک زبان ہو کر اس اسمبلی کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کا طعنہ دیتی تھی اور فوری انتخابات کا مطالبہ کرتی نظر آتی رہی ہیں لیکن جیسے ہی’’ اقتدار نصیب‘‘ہوا یہی اسمبلی مقدس ٹھہری جبکہ تحریک انصاف کا مؤقف اس کے برعکس ہو گیا،یعنی مقصد صرف اور صرف اقتدار ہی رہا ہے۔بظاہر معاملات جس تیزی کے ساتھ بگڑ رہے ہیں،اس میں یہی نظر آ رہا ہے کہ ملک مزید انتشار کا شکار ہو گا لیکن اس انتشا رسے فائدہ کون اٹھائے گا؟بارہا اس امر کا اظہار مختلف احباب کر چکے ہیں کہ اس کا براہ راست فائدہ غیر سیاسی قوت ہی اٹھا سکتی ہے کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ پاکستان میں کوئی پڑوسی ملک اس انتشار کا فائدہ اٹھا سکے۔ لانگ مارچ کو مشکوک بنانے کیلئے کیا کچھ کیا جا رہاہے،کتنے جتن اور ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں ،اس کا ایک مظاہرہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنمافیصل واؤڈا،اب تو خیر سابقہ ہی کہنا چاہیے ،کی ایسی پریس کانفرنس کہ جس میں لانگ مارچ اعلان کے بعد اس کو واشگاف الفاظ میںخونی مارچ قرار دیا ہے۔اس پریس کانفرنس کاجو پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے،اس کے بعد یہاں مکرر تحریر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس پریس کانفرنس سے مطلوبہ نتائج بہرکیف حاصل نہیں ہو سکے۔
حیرت انگیز طور پر اگلے ہی دن ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ارشد شریف کی شہادت اور لانگ مارچ پر انتہائی کھل کر ایک اور پریس کانفرنس کی ہے۔ جس میں ارشد شریف کی شہادت کے حوالے سے ایک دوسرا رخ سامنے لایا گیا ہے اور اس رخ کے مطابق اے آر وائی کے مالکان سلمان اقبال کے گرد شکوک و شبہات کے ہالے تنے ہوئے نظر آ تے ہیں ،حقیقت کا علم تو یقینی طور پر اللہ رب العزت کو ہے یا پھر وہ کردار جو اس گھناؤنے جرم میں ملوث رہے ہیں،کو علم ہے۔ لیکن جو رخ سامنے لایا جار ہا ہے اس سے دونتائج ہی سامنے نظر آتے ہیں کہ یا تو واقعتاً پس پردہ یہ حقائق موجود ہیں ،جن پر تحقیق و تفتیش ہونی چاہیے یا دوسری صورت تکلیف دہ نظر آتی ہے کہ رخ تبدیل کیا جا رہا ہے۔بہرکیف جو بھی ہے ،تفتیشی ٹیم یقینی طور پر دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اپنی تحقیق و تفتیش کرے گی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جس ٹیم کا اعلان حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے،اس پر متوفی کے متاثرین اعتبار کریں گے؟علاوہ ازیں ! دونوں صاحبان نے انتہائی واشگاف الفاظ میں لانگ مارچ کے حوالے سے اداراتی پالیسی کااعلان کر دیا ہے اور کسی بھی غیر آئینی اقدام کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کی مخالفت کردی ہے۔آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کو وفاقی حکومت کسی بھی ایمرجنسی میں طلب کر سکتی ہے ،جو وفاقی حکومت طلب کر چکی ہے ،لہٰذا یہ امکان بھی خارج ہو جاتا ہے کہ عمران خان کو پس پردہ کوئی یقین دہانی ہو چکی ہے۔
گذشتہ دنوں الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو نااہل قرار ینے پر جب پاکستانی شہری سڑکوں پر نکلے تو وفاقی وزیر داخلہ نے یہ کہا تھا کہ صرف تیس چالیس بندے باہر نکلے ہیں لیکن دوسری طرف وفاقی حکومت توہین عدالت کی درخواست لے کر عدالت عظمی پہنچ گئی تھی کہ عمران خان دوبارہ لانگ مارچ لا کر توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں لہٰذا انہیں روکا جائے،جو عدالت عظمی نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے اورقبل از وقت قراردے کر مسترد کر دی۔حقیقت یہ ہے کہ ارشد شریف کے جنازے کا منظر،عوام کی عمران خان کیلئے حمایت نے حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے اور لانگ مارچ عوامی حمایت نہ ہونے کے باوجود،ڈرون خریدے جاتے ہیں،آنسو گیس خریدی جاتی ہے،صوبائی پولیس کے دستے طلب کئے جاتے ہیں، کبھی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے،کبھی پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے کہ لانگ مارچ کو روکا جائے۔ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں کو،لانگ مارچ سے نہیں بلکہ لانگ مارچ میں شامل ہونے والے جمہور کا’’خوف‘‘لاحق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button