ColumnImtiaz Ahmad Shad

سازش کا خوفناک گڑھا ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

اقوام کی تاریخ میںبہت سارے اتار چڑھائو آتے ہیں مگر زندہ قومیں ہمیشہ پس پردہ ہونے والی غداریوں کو بے نقاب کر کے آگے بڑھتی آئی ہیں۔ میں کسی ایسے ملک معاشرے یا قوم کے بارے میں آگہی نہیں رکھتا جس کے خیالات اپنے غداروں کے متعلق ’’نیک‘‘کہلا سکتے ہوں۔ غدار ہر دور ہر معاشرے ہر ملک اور ہرقوم میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہر دور میں معاشرے،ملک اوراقوام کو اپنے غداروں کے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ سب سے زیادہ خمیازہ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے متعدد ادوار میں بھگتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سب سے زیادہ غدار مسلمانوں کی صفوں میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺکے دور سے ہی مسلمانوں کو غداروں اور غداریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قرون اولیٰ میں غداروں کی دو قسمیں ہواکرتی تھیں۔ایک قسم کی پہچان بنی قنوطہ اور بنی حذیفہ کے اُن یہودی قبائل سے ہوتی ہے جو ایک معاہدے کے تحت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے لیکن جب انکی وفاداریوں کے امتحان کا وقت آیا تو انہوں نے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھوپننے کی کوشش کی ا ور نتیجے کے طور پر انہیں ہر دور کے غداروں کیلئے نشان عبرت بننا پڑا۔دوسری قسم کے غدار وہ تھے جن کے باطن نے اسلام قبول نہیں کیا تھا مگر جو مصلحت کے تحت ظاہری طور پر مسلمان ہوگئے تھے اور اپنا شمار اہل ایمان میں کراتے تھے۔ دکھاوے کیلئے کلمہ پڑھنا ان کا شیوہ تھا لیکن اندر ہی اندر وہ مسلمانوں کیخلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے اور آپﷺ کے سچے پیروکاروں اور جاں نثاروںکو ایذا یا نقصان پہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ایسے غداروں کی پہچان کرانے کیلئے سب سے بڑا نام جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ عبداللہ ابن ابی کا ہے۔ یہ وہ بدبخت تھا جو نماز مسجد نبوی میں آکر بھی پڑھ لیا کرتا تھا لیکن اس کی پوری زندگی مسلمانوں کیخلاف منصوبے بنانے اور سازشیں کرنے میں گزری۔ غدار تیسری قسم کے بھی تھے جنہیں آپ ﷺنے مرتد قرار دیا۔ یعنی وہ لوگ جو کسی مصلحت یا دبائو کے تحت مسلمانوں کی صفوں میں شامل تو ہوگئے مگر موقع ملتے ہی ان کا ساتھ چھو ڑ کر کفار سے جاملے۔ہماری تاریخ غداریوں اور غداروں کے ابواب سے بھری پڑی ہے۔ پہلے بڑے غدار کے طور پر میرے ذہن میں عباسی خلیفہ مستنصر باللہ کا وہ باتدبیر اور معتمد وزیر اُبھر رہا ہے جس نے چنگیز خان کے دربارمیں ایک سفارتی وفد اس انتباہی پیغام کیساتھ بھیجا تھا کہ اگر منگول شہنشاہ نے خوارزم کی اسلامی سلطنت پر یلغار کی تو بغداد سلطان خوارزم علاو الدین کا ساتھ پوری قوت سے دیگا۔ مگراس سفارتی وفد میں ایسا شخص بھی شامل تھا جس نے بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے جو اُس نے منگول دارالحکومت میں پہنچ کر منڈوا لیے۔ سفارتی وفد میں اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کی کھوپڑی پر ایک خفیہ پیغام کندہ تھا جس میں منگول
خاقان کو یقین دلایاگیا تھا کہ منگولوں اور خوارزمیوں کی جنگ کی صورت میں بغداد مکمل طور پر غیر جانبدار رہے گا۔عباسیوں سے غیرجانبداری کی یقین دہانی حاصل کرنے کے فوراً بعد چنگیز خان وسطی ایشیا پر ٹوٹ پڑا اور اسلامی تہذیب کے مراکز بلخ بخارا، مرو، تاشقند اور قوقند نے جو تباہی دیکھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔چند برس بعد عباسی دربار سے ہی ایک اور بڑی غداری نے جنم لیا۔ آخری عباسی خلیفہ النصر کے وزیراعظم ابن علقمی نے خفیہ طورپر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان سے سمجھوتہ کیا کہ بغداد کے دروازے تاتاریوں پر کھول دیئے جائیںگے جس کے عوض ہلاکو خان مسندِ خلافت ابن علقمی کے سپرد کردیگا۔ ابن علقمی نے جو کہا کر دکھایا لیکن اس کے مقدر میں نہایت عبرتناک انجام لکھاہوا تھا۔ اُسے اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارتے وقت ہلاکوخان نے کہا۔ جو شخص اپنی قوم کا نہ بن سکا وہ میرے ساتھ وفاداری کیسے نبھائے گا۔؟ کم و بیش ایسے ہی عبرتناک انجام کا سامنا غرناطہ کے آخری حکمران ابو عبداللہ نے کیا جس نے اس امید پر الحمرا کی چابیاں فرڈی نینڈ کے سپرد کی تھیں کہ قسطلہ کا حاکم انعام میں اسے غرناطہ کی بادشاہی بخش دیگا۔ غداروں اور غداریوں کی یہ طویل داستان تاریخ کی شاہراہ پر سفر کرتے کرتے برصغیر میں بھی پہنچی اور اس ضرب المثل سے کون نا آشنا ہوگا کہ جعفر ازبنگال صادق ازدکن ننگِ قوم ننگِ دیں ننگِ وطنـ۔میر صادق ہماری تاریخ کا آخری غدار نہیں تھا۔ غداروں اور غداریوں کا سفر ہماری تاریخ میں مایہ ناز حُب الوطنوں اور حُب الوطنی کی بے مثال داستانوں کے ساتھ ساتھ مسلسل جاری رہا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ غداری کسی بھی سطح کی ہو اس کے ارتکاب کیلئے ایک مخصوص انداز کی سوچ اور ایک مخصوص نوعیت کا ضمیر رکھنے والے لوگ چاہئیں۔ کیا ایسے لوگ ہماری صفوں میں موجود ہیں؟ اور کیا وہ کوئی ایسا گھنائونا کھیل بھی کھیل رہے ہیں جو کسی بھی وقت غداری کی کسی خوفناک داستان کا عنوان بننے کے امکانات رکھتاہو؟ یہ بڑے تکلیف دہ سوالات ہیں۔ تکلیف دہ سوالات یہ اسلئے ہیں کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غداروں کے چہرے تب تک ہمیشہ اسرار کے پردوں میں چھپے رہے جب تک ان کی غداریوںکے بھیانک نتائج ہمارا مقدر نہ بن گئے۔ایک المیہ اس ضمن میں یہ ہے کہ غداروں کو خود اپنی غداریوں کا یا تو ادراک ہی نہیں ہوا کرتا یا ان کے ضمیروں میں ایسے احساس کی گنجائش ہی نہیں ہوا کرتی جو کانٹا بن کر چبھ سکے اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ غدار اکثر حُب الوطنی کے پردے میں ہی کام کیا کرتے ہیں اور اپنا کام آسان بنانے کیلئے اکثر حُب الوطنی کی تعریف اپنے اہداف کے مطابق ڈھال لیا کرتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں حسین حقانی اورمیمو گیٹ سے شروع ہونے والا قصہ آخر کارامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کے بھیجے جانے والے سائفر تک جاپہنچا ،اور اس سے اگلی کہانی ابھی جاری ہے۔75سالوں میں وطن عزیز پر بہت سے مشکل وقت بھی آئے ہیں اور یقیناً ملک میں بہت سی ترقی اور خوشحالی بھی ہوئی ہے ۔ لیکن ایک بات جو میرے دماغ کے ایک ایک خلیے پر قابض ہے وہ یہ کہ پاکستان کسی بڑی سازش اور غداری کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ موجودہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ تمام قوتیں اپنی پوری شدت کے ساتھ میدان عمل میں ہیں، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کس کا کیا کردار ہے؟ خاص طور پر پاکستان کی سیاست بہت زیادہ مایوسی اور گمبھیرتا پھیلا رہی ہے۔کوئی چیز کسی پر واضح نہیں۔ قوم منقسم ہے۔ ریاستی اداروں پر سخت امتحان ہے۔ملک کے بڑے گلی محلے کے بچوں کی طرح دست و گریبان ہیں، ایسے میں سازشی عناصر لڈیاں اور بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ مفاد پرست ٹولے کو ابن علقمی کا انجام یاد رکھنا چاہیے جسے ہلاکو خان نے یہ کہہ کر اذیت ناک موت دی تھی کہ جو اپنی قوم سے وفا نہیں کر سکتا وہ مجھ سے کیا وفا کرے گا۔ ریاست اور مملکت کے معاملے میں جب زد اور انا شتربے مہار ہوں تو حاسدین،سازشی عناصر اور ننگ وطن غدار اپنا کھیل اس طریقے سے کھیلتے ہیں کہ عقل و دانش سے لبریز ذہن بھی بھول بھولیوں میں بھٹک جاتے ہیں۔اگر کہیں تھوڑا بہت شعور باقی ہے تو خدا را کردار ادا کرتے ہوئے وطن عزیز کو سازش کے خوفناک گڑھے میں گرنے سے بچا لیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button