CM RizwanColumn

بچوں کی تعلیم و تربیت ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

کوئی بھی والدین یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کسی ایک پہلو سے بے بس تھے یا لاعلم تھے۔ ان کا یہ بہانہ سچا بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بالآخر ان کی اپنے منصب اور مقام سے چشم پوشی اور فرائض سے فرار ہی گردانا جائے گا۔ دنیا میں یا آخرت میں ان سے اس غفلت اور کوتاہی کی بازپرس ہوگی کہ انہوں نے اولاد آدم کو تہذیب و شائستگی اور عقل و شعور سے کیوں محروم کیا جس سے یقینی طور پر انسانی معاشرے میں کجی اور خرابی پیدا ہوئی۔ دوسری طرف اگر والدین اور اساتذہ نے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اور پرورش کی ہو تو نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی ان کی تعریف و توصیف کی جائے گی اور نیک اجر سے نوازا جائے گا۔ گزشتہ روز اپنے ایک دوست کی ایک تیسری جماعت کی طالبہ بیٹی میرب اعوان اور کلاس ٹو کے طالب علم بیٹے محمد رجب اعوان سے ملاقات اور گفتگو کا اتفاق ہوا تو محسوس ہوا کہ دونوں بچے بڑے مہذب، ذہین، شائستہ اور تعلیم و تربیت میں غیر معمولی ہیں۔ لاہور کے علاقے ساندہ کے ایک پرائیویٹ سکول میں زیر تعلیم ان بچوں کی سکول پرنسپل مسز انیلا شکیل سے بھی گفتگو کا اتفاق ہوا اور بچوں کی کلاس ٹیچر مس فرح خان سے بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سوال جواب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا بنیادی کریڈٹ ان کی گھر کی تربیت کو جاتا ہے۔ دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان بچوں کو نرسری کلاس سے اب تک ایک ہی سکول اور ٹیچر نے پڑھایا ہے۔ مس فرح خان نے کہا کہ بچوں کی بہتر تعلیم کیلئے یہ امر بہت اہم ہوتا ہے کہ بچے اپنے استاد سے زیادہ سے زیادہ مانوس ہوں اور استاد بھی بچوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہو۔ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد سکولوں اور اساتذہ کی تبدیلی بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا ایک اہم
دائرہ وہ تربیت ہے جو انہیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تربیت کا اہم ترین پہلو بچوں (اولاد) کے ساتھ والدین، بالخصوص ماں کے طرز عمل سے متعلق ہے۔ ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے۔ قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے۔ سات سال کی عمر سے نماز کا اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے۔ بچوں کو بالکل ابتدا سے تقویٰ اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کیلئے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا اور ان میں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے، کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں سچائی، امانت داری، بہادری، احسان، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے، پھر انہیں برے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوچ اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے۔ اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دور رکھا جائے۔ والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشو و نما، غذا اور آرام کا خیال رکھا جائے اور انہیں ورزش کا عادی بنایا جائے۔ جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔ بچوں کی اہانت یا تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے۔ بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا باتیں غلط ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ حضورﷺ کی سنت ہے اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے۔ ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے۔ بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انہیں ضدی اور خود سر بناتا ہے۔ اس میں اعتدال ضروری ہے۔ ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویہ ہے، جس سے بہت سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوکر بچے انتہا پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے۔ ان اصولی نکات کے علاوہ چند عملی اقدامات جن پر والدین آسانی سے عمل کرسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے خاندان میں، بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماًکچھ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے۔ سکول میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔ بچوں کو سخت کوشی اور محنت کا عادی بنانے کیلئے انہیں درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُر مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔ پھر یہ کہ اول تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے اور اگر بچے کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابند بنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے، تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری، بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے، مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا، ان کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبا و طالبات ہوتے ہیں، اس طرح ان میں غیر مطلوب مقابلہ آرائی کو روکا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا ہی سے بچوں سے خود انحصاری یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے، کمرے کو ترتیب دینے کی عادت ڈالی جائے۔ والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے، مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر
قبول کریں گے۔ والدین کو اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی بھی نہیں پیش کرنی چاہئے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تا دیب انہیں اصلاح کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ عدل، انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے بچوں میں متوازن رویہ پیدا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس کیلئے والدین کو خود اپنے آپ کو نظم کا پابند بنانا ہوگا، تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلہ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے، جہاں سب آتے جاتے ہوں تاکہ لغو اور غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ اچھی کتب اور رسالے بھی انہیں مطالعہ کیلئے دینے چاہئیں جو کہ بچوں کی شخصیت سازی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں، بچوں کو مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انہیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کیلئے ذاتی لائبریری بنائیں، ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کرکے کتابیں خریدیں۔ بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے تاکہ ملک وملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے، اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ آج کے بچے ہی کل کے بڑے اور ذمہ دار شہری بنیں گے۔ قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے، والدین اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کر کے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button