Ali HassanColumn

جج اور پریشر ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

لاہور میں حال ہی میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا ہے کہ جج حضرات یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے ، اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ 5 سال بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے، جج حضرات یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر پریشر آتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس پر پریشر ہے تو وہ اپنے حلف پر عمل پیرا نہیں۔ایک چیف جسٹس کا ٹی وی پر انٹرویو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسوآگئے تھے ، اس چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ پریشر کی وجہ سے کیا گیا۔آپ پریشر میں آکر ملک بیچ دیتے ہیں تو تاریخ آپ کو یاد رکھے گی ؟۔ آج کے پاکستان میں ایک اور چیف جسٹس محمد رستم کیانی المعروف ایم آر کیانی اپنی بے باکی اور اپنے فیصلوں کی وجہ سے لوگوں کو آج بھی یاد ہیں؟وہ کہتے ہیں ایک بار جب مَیں سینئر جج تھا تو ایک شخص کا مقدمہ زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا تو اس نے کہا کہ عدالت تو نہ ہوئی۔مَیں نے تلخی سے جواب دیا کہ کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے۔ یہ تو کچہری ہے اور آپ یقین جانئے کہ میری ساری عدالتی زندگی اسی عدالت اور کچہری میں تواز ن قائم کرنے میں صرف ہوئی ہے۔پاکستان میں عدلیہ کے بارے میں ہمارا اجتماعی رویہ متنازعہ ہی رہا ہے۔ فیصلے جب لوگوں کے حق میں آتے ہیں تو عدلیہ کی تکریم کا ورد کرتے نہیں تھکتے ،لیکن جب کوئی فیصلہ ایسا آجائے جس کی وجہ سے ان کے مفادات پر زد آتی ہو تو پھر عدلیہ کا احترام جاتا رہتا ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی کا دور بھی اسی صورت حال سے دوچار رہا۔ قدرت اللہ شہاب کا شمار ماضی کے اہم ترین سرکاری افسران میں ہوتا ہے۔
لائل پور( اب فیصل آباد ) میں ایک تعلیمی ادارے میں تقریر کرتے ہوئے جسٹس محمد رستم کیانی پر بڑے سخت حملے کئے۔ ان کو سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کسی ایسے شخص کو جو منصب قضا پر فائز ہو، یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ غیر متعلقہ سیاسی موضوعات کو زیر بحث لائے، جلسوں سے خطاب کرے، صدر مملکت پر طنزو مزاح کے تیر برسائے اور اخبارات میں اپنی تقریریں شائع کراکے عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے عہدے کی حرمت کو خاک میں ملائے۔ قدرت اللہ شہاب کو اس کے علاوہ یہ اعتراض بھی تھا کہ جس حکومت سے تنخواہ مل رہی ہو، اسی کو تختہء مشق بنانا کہاں کی شرافت ہے۔ اگر ہمت ہے تو عدالت کے عہدئہ جلیلہ سے استعفیٰ دیں، اس کے تحفظ سے دست بردار ہوں اور پھر میدان میں آکر ایک عام شہری کی طرح حکومت سے مخاطب ہوں۔ جسٹس کیانی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ فوجی حکمت عملی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ساری توجہ اپنے ہدف پر مرکوز رکھی جائے۔ مجھے شہاب (قدرت اللہ شہاب کی طرف اشارہ) سے کیا لینا ہے۔ میرا ہدف تو ایوب خان ہے، جس نے مسیحا کا روپ دھار لیا ہے۔ شہاب نے تو اپنے آقا کے کارندے کی حیثیت سے کام کر کے خود ہی اپنے آپ کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آج بھی دیکھیں یہ کارندے عدالت کے خلاف کس طرح متحرک ہیں۔ عدالت کا ہر حکم ان کے سر پر سے گزر جاتا ہے یا سرکاری فائلوں میں دبا دیا جاتا ہے۔
جسٹس محمدرستم کیانی نے ایک اور تقریر میں کہا تھاکہ ایران میں ایک شاعر تھا ،جس کا نام خواجہ حافظ تھا اور اس نے خال ہندو کے بدلے سمر قند و بخارا بخشنے کا وعدہ کیا تھا۔ بدخواہوں نے تیمور کے پاس جاکر اس کی چغلی کھائی کہ دیکھئے حضور آپ نے تو اتنی محنت سے سمر قند و بخارا فتح کئے اور یہ شخص ایک خال سیاہ کے بدلے انہیں مفت بخش رہا ہے۔ یہ چغلی کھانے والے ہر عہد میں ہوتے ہیں اور حافظ ان قلندر منش کے خلاف تیموران زمانہ کو اکساتے رہتے ہیں۔ خود نہ تو سمر قند و بخارا فتح کر سکتے ہیں، نہ بخش سکتے ہیں۔ اوروں کو بھی بخشش سے روکتے ہیں اور بخشش بھی کس چیز کی؟ صرف ایک فکر آزاد کی جو دل کے تاریک ویرانوں میں اجالا کر دے۔
جسٹس محمد رستم کیانی کی کتاب Not the whole truth میں ان کی ایک تقریر موجود ہے۔ یہ تقریر انہوں نے 14اپریل 1960ء میں پاکستان بار ایسوسی ایشن میں کی تھی۔ اپنی طویل تقریر میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دور میں مصر کے اس وقت کے گورنر کو ایک مراسلہ بھیجا تھا۔ اس مراسلے میں خلیفہ وقت فرماتے ہیں کہ اپنے درمیان میں سے بہترین شخص کو چیف جج منتخب کرو، ایسا شخص جسے گھریلو پریشانیوں نے گھیرا ہوا نہ ہو، ایسا شخص جسے مرعوب اور خوف زدہ نہ کیا جاسکے، ایسا شخص جو اکثر غلطیاں نہ کرتا ہو، ایساشخص جو ایک مرتبہ صحیح راستہ پا لے تو منہ نہ موڑے، ایسا شخص جو محوبالذات نہ ہو، ایسا شخص جو تمام حقائق جاننے سے قبل فیصلہ صادر نہ کرے، ایسا شخص جو فیصلے سے قبل موجود ہر شخص کی بات توجہ سے سنے اور تمام شکوک پر توجہ دے ، ایسا شخص جو واضح فیصلہ دینے سے قبل تمام صورت حال کا جائزہ لے، ایسا شخص جو وکیلوں کے دلائل پر ہی انحصار کرتے ہوئے اڑ نہ جائے، ایسا شخص جو صبر و تحمل کے ساتھ ہر نئے پہلو اور اجاگر کئے گئے نئے حقائق پر غور کرے اور جو سختی کے ساتھ غیر جانبدار رہ کر فیصلہ صادر کرے، ایسا شخص جسے بے جا تعریف و توصیف گمراہ نہ کر سکے، ایسا شخص جو اپنے عہدے پر نہال نہ ہو، لیکن ایسے شخص کی تلاش آسان نہیں، البتہ جب تم ایسے شخص کو عہدے کے لیے (چیف جج) منتخب کر لو تو اسے نہایت بہتر تنخواہ دو تاکہ وہ نہایت سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے اور اپنے آپ کو ہر قسم کی تحریص سے محفوظ رکھ سکے۔ اپنے دربار میں اسے اتنا اونچا مقام دو کہ کوئی بھی اس کی حیثیت تک پہنچنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے، اتنا اونچا مقام کہ کوئی اس کی چغل خوری نہ کر سکے اور نہ ہی اسے کوئی سازش چھو سکے۔ جسٹس کیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب مَیں نے یہ پڑھا کہ کوئی اس کی حیثیت تک پہنچنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکے تو مَیں نے سوچا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے گورنر سے مخاطب ہیں یا پاکستان میں آنے والے مستقبل کے حکمرانوں سے۔ دین اسلام میں عدل کی اہمیت اور درجے جس جس انداز میں پیش کئے گئے ہیں، اس کے بعد تو کہیں بھی گمان نہیں رہنا چاہیے کہ عدل کیا، کس طرح اور کیوں ہوگا؟ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہدایت کے بعد کسی اور بات کی گنجا ئش رہ جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button