Editorial

آئینی مدت پوری کرنیکا دوٹوک اعلان

 

وزیراعظم شہباز شریف نے کہاہےکہ عام انتخابات گیارہ ماہ بعد ہوں گے،ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ معیشت کو بہتر کیے بغیر الیکشن میں جائیں۔ جلسے جلوسوں سے نہیں ملکر کام کرنے سے مسائل حل ہوں گے،آنے والی نسلوں کے لیے ہردرپر جانے کو تیار ہوں۔ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف قبل ازوقت انتخابات، پاکستان تحریک انصاف کے متوقع لانگ مارچ ، توشہ خانہ سمیت کئی ملکی و سیاسی معاملات پر گفتگو کی تاہم اُن کی اہم گفتگو کا نچوڑ ہم نے یہی لیا ہے کہ اتحادی حکومت اسمبلی کی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے گی اور قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ قطعی تسلیم نہیں کیا جائے گا خواہ اِس کے لیے دوسری طرف سے کتنا ہی دبائو کیوں نہ بڑھایا جائے اوراگر لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مطابق وہ جمعہ کے روز اپنے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں گے اور وزیراعظم شہبازشریف نے بھی فرمادیا ہے کہ ایسی صورت میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ ہم آج بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ جمہوری اداروں کو پوری آزادی کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، چاہے دور ِ حکومت کوئی بھی ہو۔ اگرچہ موجودہ قومی اسمبلی تیسری قومی اسمبلی ہے جو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور وزیراعظم شہبازشریف نے بھی کہا ہے کہ عام انتخابات گیارہ ماہ بعد ہوں گے لیکن دوسری طرف سے جلد انتخابات کا مطالبہ اپنی جگہ پر اٹل موجود ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئینی طریقے سے ختم کی گئی، اِس وقت بھی ہماری رائے یہی تھی کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پورے کرنے دی جاتی تو نہ صرف اپنی معیاد پوری کرنے والی تیسری اسمبلی ہوتی بلکہ سیاسی تاریخ میں ایک نیا اعزاز بن جاتا کہ ایک وزیراعظم نے پانچ سال ایوان کی قیادت کی لیکن پی ڈی ایم کو کچھ اور ہی منظور تھا پس تحریک عدم اعتماد کے ذریعےکایا پلٹ گئی اور عمران خان بھی اُن وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہوگئے جنہیں اپنے پانچ سال پورے نہ کرنے دیئے گئے، دس سال قبل 2012میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم نہ رہے تو اُن کی جگہ پیپلز پارٹی کے راجہ
پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم اُن کی جگہ ایوان چلاکر اسمبلی کی آئینی مدت پانچ سال پوری کرائی، یہ ملکی سیاست میں پہلی بار تھا جب کوئی اسمبلی اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرنے جارہی تھی، اس کے بعد میاں محمد نوازشریف عوامی مینڈیٹ لےکر وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے لیکن انہیں بھی چند سال بعد ہی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں گھر جانا پڑا اور پھر اِن کی جگہ شاہد خاقان عباسی نے آئینی مدت کا باقی عرصہ بطور وزیراعظم پاکستان ایوان کو چلایا ۔2018 میں عمران خان وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے لیکن تحریک عدم اعتماد کے جمہوری طریقے سے انہیںگھر جانا پڑ گیا اور کایا پلٹ کے نتیجے میں حزب اختلاف کو حزب اقتدار بننے کا موقعہ ملا جو ابھی تک حزب اقتدار ہے اور یقیناً عام انتخابات کے اعلان تک حزب اقتدار ہی رہے گی۔ یوں تیسری اسمبلی یعنی ایواں زیریں تو اپنی آئینی مدت پوری کرے گی لیکن منتخب وزیراعظم کوئی دعوے دار نہیں ہوگا کہ اُس نے پانچ سال ایوان کی قیادت کرکے ملکی سیاست میں پہلا وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے، حالیہ چند سال میں دو وزرائے اعظم عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے اور اُن کی جماعتوں نے متبادل شخصیات کو باقی مدت کے لیے وزیراعظم کے منصب پر بٹھایا لیکن عمران خان عدالتی فیصلے کی بجائے پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں جمہوری عمل کے ساتھ اقتدار سے محروم ہوئے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی ہم یہی گذارش دہراتے رہے تھے کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرنے دی جائے اور پی ٹی آئی کی قیادت نے عوام کو کیا دیا، اِس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیاجائے جو جسے چاہیں گے منتخب کریں گے اور اب بھی جب پی ڈی ایم کا اتحاد برسراقتدار ہے ہم پھر اپنا موقف دھراتے ہیں کہ اتحاد کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے اور وزیراعظم شہبازشریف نے کہا بھی ہے کہ ابھی گیارہ ماہ باقی ہیں تو اگر گیارہ ماہ انتظار کرلیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نےرابطہ عوام مہم تو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلے دن سے جاری رکھی ہوئی ہے اس کو عام انتخابات کے شیڈول تک جاری رکھاجائے یقیناً مستقل رابطہ عوام مہم کے بہترین نتائج برآمد ہوں گے اسی طرح اِن گیارہ ماہ میں موجودہ حکومت کو اُن تمام چیلنجز سے نمٹنے کےلیے مناسب نہیں لیکن کچھ تو وقت مل سکے گا جن مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت تبدیل کی گئی اور اِن میںمعیشت کی بہتری، مہنگائی میں کمی اور اولین ڈیفالٹ کے خطرے سے ملک کو باہر نکالنا بڑے چیلنجز تھے، مگر اِسی دوران سیلاب کی صورت میں غیر متوقع عفریت سامنے آن کھڑی ہوئی ، یوں جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کے کرونا وائرس اور اُس کے نتیجے میں معاشی مسائل نے چھکے چھڑائے تھے موجودہ حکومت کو بھی مہنگائی اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہلاکر رکھ دیا ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی، معاشی مسائل سے باہر نکلنا ، اناج کی متوقع قلت اور مہنگائی سمیت کئی مسائل ایسے ہیں جن کو چھوڑ کر یقیناً موجودہ حکومت عام انتخابات کی طرف نہیں جاسکتی کیونکہ ایسا کرنا یقیناً حکومتی اتحاد کی سیاست کے لیے انتہائی نقصان دہ تو ہوگا ہی اِس کے ملک و قوم پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بالفرض آج عام انتخابات کے لیے نگران سیٹ اپ اور پھر شیڈول اعلان کردیاجاتا ہے تو کیا نگران ٹیم وہ تمام ذمہ داریاں بخوبی نبھاسکی گی جو موجودہ حکومتی ٹیم اپنے تجربہ اور چیلنجز کی وجہ سے نبھارہی ہے، کیا نئے سیٹ اپ کے لیے موجودہ بحرانی کیفیت سے نمٹنا آسان ہوگا؟ اور پھر عا م انتخابات کے شیڈول سے لیکر نئی حکومت کے ذمہ داریاں سنبھالنے تک اِن تین سے چار مہینوں میں ملکی انتظامی معاملات نہایت اسلوبی سے چل سکیں گے؟ اِس پر ہمارا موقف یہی ہے کہ ایسا قطعی نہیں ہوگااور اس کی مثال بالکل ایسے ہی دی جاسکتی ہے جیسے نیا کھلاڑی میدان میں اُترے تو اُسے صورتحال سمجھنے اور اپنے سنبھلنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے یہی معاملہ نئی حکومت اور اُن کی ٹیم کے لیے ہوگا ،لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اسمبلی کو ہی نہیں بلکہ وزیراعظم کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ دینا چاہیے اگرچہ دو وزرائے اعظم عدالتی فیصلوں سے گھر گئے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا ہے اگر وہ اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرکے ہی گھر جاتے اور پھر عوام اُن کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے، یہی موقف ہم پی ٹی آئی کے دور میں جاری تحریک کے دوران بار بار ظاہر کرتے رہے ہیں اور یہی اب بھی ہمارا ہے کہ صرف ایوان ہی نہیں ایوان کے سربراہ کو بھی پانچ سال آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ دینا چاہیے تاکہ قبل ازوقت گھر بھیجنے کے نتیجے میں ایسی صورت حال پیدا نہ ہو ، جیسی آج ہے، اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تسلسل کو صرف اسی طرح جاری رکھ سکتی ہیں کہ سب ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام اور اُن کی آئینی مدت پوری ہونے کا انتظارکریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button