ColumnNasir Sherazi

جہاد اور اعلانِ جہاد .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

احساس زیاں ختم ہوجائے تو قوم اپنی شناخت کھودیتی ہے، بس انسانوں کا ریوڑ رہ جاتا ہے جسے کوئی کسی بھی طرف ہانک سکتا ہے، ملک دولخت ہونے کے ٹھیک ایک برس بعد اس شکست پر جشن منانے کا آغاز ہوا تھا قوم کو بتایاگیا تھا کہ پاکستان تو ٹوٹ گیا ہے لیکن اب ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے اس کے بعد ہر پانچ بعد کوئی نیا آجاتا ہے اور نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرتا ہے، اپنی مرضی کی اینٹیں مٹی اکٹھاکرتا ہے کئی برس بعد اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جو کہتا تھا جو کرنے آیا تھا وہ اس کے بس کی بات نہیں۔ مختلف بہانے تراشے جاتے ہیں کہ نئے پاکستان کی تعمیر میں یہ کمی رہ گئی وہ کمی اُس وجہ سے رہ گئی لہٰذا مزید دو سال دیئے جائیں یا مزید پانچ دیئے جائیں۔
نیا پاکستان بنانے والے چند روز قبل ضمنی انتخابات سے فارغ ہوئے ہیں، قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں انہوں نے چھوڑی تھیں جن میں سے دو ہار دی گئی ہیں اپنی ہی خالی کردہ چھ نشستیں حاصل کرنے کے بعد یوں جشن فتح جاری ہے جیسے ایک مفروضے کے تحت حکومت کو بے دخل کرنے والے امریکی صدر جوبائیڈن سے مقابلہ کرکے اس کی سیٹیں جیت گئی ہیں۔جس اسمبلی سے مستعفی ہوئے اُسی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینا ضروری تھا تو کس احمق نے مشورہ دیا تھا کہ پہلے اس اسمبلی سے باہر نکلو، جب مکمل باہر جانے کا وقت آئے تو پھر دوبارہ اندر داخل ہونے کی کوشش کرو، جیسے کوئی غم نہ ہو، کہتے ہیں اسے بکری پال لینا چاہیے، جس سیاسی جماعت کو کرنے کیلئے کچھ نہ بچے اس کیلئے ضروری ہے وہ اندر باہر کا کھیل جاری رکھ کر نیا پاکستان بناتی رہے، ضمنی انتخابات نے تین ماہ تک ہر توجہ طلب کام سے توجہ ہٹائے رکھی، ان میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے ارکان کے مجموعی طور پر کئی ارب روپئے اس کی نذر ہوگئے نتیجہ پھر وہی کہ خان اگر قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے باوجود چھ نشستیں جیت بھی گیا ہے تو اپنے پاس تو ایک ہی نشست رکھ سکتا ہے یہ چھ کی چھ جیتی ہوئی نشستیں چھوڑے بنا کوئی چارہ نہیں پس کہہ سکتے ہیں دل پشوری کیاگیا جس کی قیمت یہ چکانا پڑی کہ گھر کی دو نشستیں گھر والوں سے خالی کراکے اپنے مخالفین کو دے دیں، اس پر جشن فتح ہے کہ تھمتا نظر نہیں آتا۔
آپ کسی کو بے وقوف کہہ دیں وہ برا مان جائے گا اُسے کہہ دیں کہ جناب آپ بھی بس بادشاہ آدمی ہیں سننے والا خوشی سے پھولا نہ سمائے گا وہ فوراً تصور ہی تصور میں اپنے آپ کو اکبر اعظم کا جانشین سمجھنے لگے گا اگر اس نے فلم مغل اعظم نہیں دیکھی تو چارلس تو ابھی کل ہی بادشاہ بنا ہے وہ تو ضرور دیکھا ہوگا، اگر وہ بھی نہیں دیکھا تو مڈل ایسٹ کے کسی ملک کے بادشاہ کے رہن سہن سے تو ضرور واقف ہوگا بس وہ پہلی فرصت میں ٹخنوں تک لمبی قمیص خریدے گا اور بادشاہوں والی حرکتیں شروع کردے گا اسی طرح آپ کسی نوجوان کو پاگل کہہ دیں وہ آپ کے گلے پڑ جائے گا، آپ لفظوں پر نظرثانی کریں اور کہہ دیں آپ بھی بس شہزادے ہی ہیں، یہ سنتے ہی وہ ایک لمحے میں شہزادہ سلیم کا روحانی وارث بن جائے گا، وقت کی انارکلی اُسے منہ لگائے نہ لگائے بس اُس کا چال چلن شہزادہ سلیم کا سا ہوگا۔
سیاسی جماعتوں میں ایسے بادشاہ اور ایسے شہزادے بکثرت پائے جاتے ہیں جو ان جماعتوں کے زوال کا سبب بن رہے ہیں، کیا حکومت اور کیا اپوزیشن ہر طرف ان ہی کا راج ہے لیکن سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب کا راج الٹنے والا ہے، عمران خان اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ایک مرتبہ پھر ضمنی الیکشن کا شوق ضرور پورا کریں اور نتیجہ دیکھ لیں، انہوں نے کہا تو یہی تھا کہ پوری تیاری سے میدان میں اُتر رہے ہیں مگر جب میدان سجتا ہے تو ان کی پوری تیاری ادھوری ثابت ہوتی ہے، بہتر ہوتا وہ چھ نشستوں پر جیت کا مزہ لینے کی بجائے صاحب کردار ڈھنگ کے امیدوار سامنے لاتے۔ خبر یہ ہے کہ ان کی ٹکٹ کا کوئی ایسا امیدوار نہ مل سکا جو ٹکٹ کی خواہش رکھنے کے علاوہ الیکشن کیلئے پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا۔ الیکشن کا شوق رکھنے
والے اور سیاست کی عبادت کے پردے میں اس کاروبار کا ذوق رکھنے والے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ ان اسمبلیوں کی عمر بس اب چند ماہ کی رہ گئی ہے لہٰذا چند ماہ کی زندگی کیلئے وہ کئی کروڑ کیوں خرچ کریں، سب نے اپنا پیسہ آئندہ عام انتخابات کیلئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ سب تیل اور اس کی دھار دیکھ رہے ہیں، اب ہر کسی کے پاس تو سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر اکٹھا کیا گیا پرایا دھن تو نہیں ہے جسے ’’شوق دامُل‘‘ سمجھ کر بے دریغ خرچ کیا جاسکے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے امیدواروں نے بھی الیکشن الیکشن کھیلا ضرور ہے، سیٹ جیتنے کی کوشش نہیں کی، کروڑ دو کروڑ پھر بھی ہر ایک کا خرچ ہوگیا، لیکن ہر ہارنے والے نے اپنا تین سے چار کروڑ روپیہ بچاکر دانشمندی کا ثبوت دیا ہے، یہ روپیہ ان کے آئندہ جنرل الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اے این پی کے رہنما جناب بلور کا طرز عمل مثبت تھا، انہوں نے اسی طرح الیکشن لڑا جیسے لڑنا چاہیے تھا، ان کی اور ان کے خاندان کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس حلقے سے بلور خاندان کے مقابل ملک کے چوٹی کے سیاست دان بلکہ بعض پارٹی رہنمائوں نے شکست کا ذائقہ چکھا ہے، انہیں ان کے آبائی حلقے میں شکست دینا آسان نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا نے یہ معجزہ بھی کردکھایا، اگر ان کی جانب سے اس حلقے کو کھولنے کا مطالبہ سامنے آیا تو صدفیصد یقین رکھئے ایسا کبھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ کرنے والوں کو خوب معلوم ہے انہوں نے پورے صوبے میںکہاں کہاں کیا کیا،کیا ہے۔ چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد شہزادے، بادشاہ سلامت سے کہہ رہے ہیں کہ جناب ہر نشست پر ووٹرز نے آپ کا چہرہ دیکھا ہے ان سے پوچھا جائے کہ ووٹر کو یہ چہرہ ملتان اور کراچی میں کیوں نظر نہیں آیا تو ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں۔
ضمنی انتخابات میں چھ نشستیں حاصل کرکے کارکنوں کا لہو مزید گرماکر لانگ مارچ اور دھرنے کا فوراً اعلان کردینا چاہیے تھا بلکہ جشن کے بعد مارچ شروع کردینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیںہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے چھ نشستوں کے چھ زینے کافی نہیں
لانگ مارچ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کارکنوں سے کہا جارہا ہے کہ اِس جہاد میں اپنے اہل و عیال سمیت شریک ہوں لیکن جہاد کے قائد محترم کے اپنے اہل و عیال اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کیلئے موجود نہیں، کچھ برطانیہ میں بیٹھ کر اور کچھ چلمن سے لگ کر جہاد کا نظارہ کریں گے۔ کارکنوں کی ٹوٹتی ہڈیاں ٹوٹتی اور سرپھٹتے دیکھیں گے، وہ جیل جائیں گے تو وہاں ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا جبکہ جہاد کا اعلان کرنے والے قائدین تو ایک روز پہلے فائیو سٹار معیار کے ریسٹ ہائوسزپہنچادیئے جائیں گے جہاں وہ اپنے وائرلیس فون پر اور ٹی وی کی سکرینوں پر جہاد کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اعلان جہاد میں تاخیر کیوں ہے خان صاحب ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button