ColumnRoshan Lal

کرپشن کاالزام اور نااہلی کی سزا .. روشن لعل

روشن لعل

 

عمران خان اس ملک کی وہ شخصیت ہیں جو ایک عرصہ سے صرف اپنے مخالف سیاستدانوں پرکرپشن کے الزامات عائد کرتے چلے آرہے ہیں۔اسی عمران خان کوالیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کرپشن کیس میں نااہل قراردیاہے۔ اس وقت عمران خان کی سز ا ویسے تو ہر خاص و عام کی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے مگران بحثوں میں اس الزام کا ذکر بہت کم سننے کو ملتاہے جس کی بنیاد پر انہیںنااہلی کی سزا سنائی گئی۔عمران خان کی نااہلی کے بعد یہ سوال زیادہ اٹھایا جارہا ہے کہ ان کی مقبولیت متاثر ہوئی یا نہیںہوئی مگر اس بات پر توجہ نہیں دی جارہی کہ ان کی وجہ شہرت کیا اب بھی ان کے شفاف کردار کا تصور ہے یا پھر لوگوں کی اندھی عقیدت ان کی مقبولیت کا محرک بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے نااہل قرار پانے والے سیاستدانوں کی فہرست کافی طویل ہے ۔ ان سیاستدان میںایسے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے پہلے تو بدعنوانی کے خاتمے جیسے نعروں کو اپنی سیاست کی بنیاد بناکر نام کمایا مگر بعد ازاںخود بھی اپنا دامن بدعنوانی کے الزامات سے محفوظ نہ رکھ سکے۔اس طرح کے سیاستدانوںکی مثال صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی ہیں۔ ضیا مارشل لا کے بعد جب ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوئی تو اس کے فوراً بعد میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے یہاں کرپشن ، کرپشن اور احتساب احتساب کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک عرصہ تک میاں صاحب تن تنہا اس کھیل کے چیمپئن
بنے رہے مگر جب وہ خود کو چیمپئن بنانے والوں کے منظور نظر نہ رہے تو انہیں بھی اسی طرح احتساب کا نشانہ بننا پڑا جس طرح قبل ازیں یہ اپنے سیاسی مخالفوں کو بناتے رہے۔ میاں نوازشریف کو احتساب کا نشانہ بنانے والے پرویز مشریف نے بھی اپنے کردار کے شفاف ہونے کا تاثر دے کر کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگایا مگر جب انہیںاقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا تو وہ بھی اپنے دامن پر کرپشن جیسے الزامات کے کئی داغ ساتھ لے کر گئے۔ مشرف کے بعد جب اقتدار آصف علی زرداری کو ملا تو میاں نوازشریف اور عمران خان نے متحد نہ ہونے کے باوجود یک زبان ہو کر زرداری کے خلاف کرپشن کرپشن کا کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ اس کھیل میں انہیںملک کے ہر بڑے اور طاقتور ادارے کی حمایت اور تعاون حاصل رہا۔ کرپشن کرپشن کا کھیل تو میاں نوازشریف اور عمران خان نے اپنے اپنے طورپر طاقتوروں کی طاقت یکساں طور پر استعمال کرتے ہوئے کھیلا مگر کسی کی کمال مہربانی سے کامیابی صرف میاں صاحب کے حصے میں آئی۔ عمران خان نے جس گھن گرج کے ساتھ آصف علی زرداری کی مخالفت میں کرپشن کرپشن کا کھیل شروع کیا تھا اسے اسی جوش و خروش سے میاں نوازشریف کی حکمرانی کے دوران بھی جاری رکھا۔ عمران خان کے اس کھیل کا نتیجہ میاں نوازشریف کی نااہلی کی شکل میں برآمد ہوا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان کی تحریک پر جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے میاں نوازشریف کو 28 جولائی 2017 کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت نااہل قرار دیااس وقت میاں صاحب پہلی مرتبہ نااہل نہیں ہوئے تھے۔ میاں نوازشریف کو پہلی مرتبہ جولائی 2000 میں مشرف کی قائم کردہ ایک احتساب عدالت نے ہیلی کاپٹر سکینڈل میں 14 سال قید کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ 21 برس کیلئے نااہل قرار دیا تھا۔ میاں نوازشریف نے جب مشرف سے معاہدہ کر کے جدہ میں جلاوطنی اختیار کی، اس وقت ان کے ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں اس کیس میں اعلیٰ عدالتوں سے اپنی بریت کی قطعاً کوئی امید نہیں تھی، لہٰذا پاکستانی جیلوں میں بند رہنے کی بجائے انہوں نے جدہ میںآزاد رہنے کو ترجیح دی تھی۔ میاں نواز شریف نے جب وطن واپس آنے کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کی کوشش کی تو ریٹرننگ افسر نے مذکورہ احتساب عدالت کے فیصلے کی بنا پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے۔ اس کے بعد لاہور
ہائیکورٹ نے بھی جون2008 میں میاں نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے 25 فروری 2009 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں میاں صاحب کی نااہلیت کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ فروری 2009 میں سنایا گیا میاں نوازشریف کی نااہلیت کا فیصلہ اصل میں احتساب عدالت کے اس فیصلے کا تسلسل تھا جوسال 2000 میں آیا مگر میاں نوازشریف اور ان کے میڈیاسیل نے اس فیصلے کو آصف علی زرداری کی ساز ش قرار دیا۔ اس کے بعد میاں نوازشریف نے چودھری اعتزاز احسن کی معاونت سے وہ تحریک چلائی جس کے دبائو میں آکر آصف علی زرداری، افتخار چودھری کو بحال کرنے پر مجبور ہوئے اور افتخار چودھری کی بحالی کے بعد ہی میاں نوازشریف کی نااہلی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ افتخار چودھری کی بحالی کے بعد صرف میاں نوازشریف کی نااہلی ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس سے پہلے ان کا ہیلی کاپٹر سکینڈل کا زائد المعیاد کیس سنا گیا اور پھر اس کیس میں ان کی بریت ہوئی تھی۔
میاں نوازشریف کے بار بار نااہل اور اہل ہونے کی کہانی سے ایک تو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ان کی نااہلیت کے موجودہ فیصلے کو بھی ناقابل واپسی نہیںسمجھنا چاہیے، اس کے بعد دوسری سوچ یہ پیدا ہوتی ہے کہ میاں نوازشریف کی نااہلیت کے فیصلوں کے تناظر میں عمران خان کی نااہلیت کے فیصلے کو بھی ناقابل ترمیم تصور نہیں کیا جاسکتا۔عمران خان کی نااہلی کی سزا کا فیصلہ چاہے کسی کو جتنا بھی کمزور لگے مگر جس الزام کے تحت انہیں یہ سزا ہوئی ہے ،اس الزام کو کسی طرح بھی ناتواں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان پر لگنے والے کرپشن کے اس الزام کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے ابھی تک کسی ایجنسی کا ہاتھ تلاش نہیں کیا جاسکا۔ یہ الزام ایک عام صحافی رانا ابرار خالد کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے اس قدر مضبوط بنا کہ عمران خان اور ان کے نامی گرامی وکیل بھی اس سے ابھرنے والے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ رانا ابرار خالد اصل میں عمران خان کے خلاف کوئی کیس نہیں بلکہ اپنی پریس سٹوری مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ رانا ابرار کے بقول ان کے اس پیشہ ورانہ کام کے سامنے صرف عمران خان کی حکومت ہی نہیں بلکہ حیران کن طور پر عدالتوں نے بھی روڑے اٹکائے۔رانا ابرار کا کہنا ہے کہ ان کی کوششوں سے سامنے لائی گئیں توشہ خانہ کیس کی جن معلومات کی بنا پر عمران خان کے خلاف کیس مضبوط ہوا وہ ا ب بھی مکمل نہیں ہیں، اگر انہیں ان کی درخواست کے مطابق تمام معلومات فراہم کردی جاتیںتو پھر عوام درست طور پر آگاہ ہوتے کہ توشہ خانہ کیس میں بدعنوانی کا حجم کتنا بڑا ہے۔
توشہ خانہ کیس میںسامنے آنے والی معلومات چاہے جتنی بھی کم اور اس کیس میںنااہلی کی سزا کا فیصلہ عام لوگوں کیلئے چاہے جیسا بھی ہو مگر بالغ نظرافراد یہ بات جان چکے ہیں کہ اس کیس میں عمران خان پر لگنے والے الزامات ہر گز بے بنیاد نہیں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button