ColumnKashif Bashir Khan

کیا پھرمحبت کا زمزمہ بہہ رہا؟ ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

‎‎

پاکستان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اقتدار کے حصول کیلئے مختلف سیاسی شخصیات اور اداروں کی گھولی ہوئی تلخیاں ہی تلخیاں ہی نظر آتی ہیں ۔ایسی تلخیاں جنہوں نے نہ صرف پاکستان کو دو لخت کیا بلکہ بعد میں عوام کوگروہوں میں بانٹ کر پاکستان کی ترقی کو روکا۔پاکستان کے عوام کی رائے کو ہر دور میں روند کر من پسند اشخاص کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا۔ ہمیں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے،ہم 1970 کے حالات کا جائزہ لیں تو افسوسناک اور شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ جنرل یحییٰ خان کی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا تھا اور پاکستان کے اقتدار پر اس کا حق تھا لیکن مختلف وجوہات کا بہانہ بنا کر ارباب اختیار نے اقتدار شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے حوالے نہ کیا بلکہ بنگالی عوام پر فوجی ایکشن اور ظلم و تشدد کا پہاڑ تو ڑ دیا گیا اور شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لا کر مختلف جگہوں پر قید کر دیا گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب مارچ 1971 میں پلٹن گرائونڈ ڈھاکہ میں لاکھوں کے مجمع سے شیخ مجیب الرحمان خطاب کر رہا تھا تو وہاں کے عوام نے سٹیج پر بنگلا دیش کا جھنڈا لہرا دیا تھا اور شیخ مجیب الرحمان نے وہ جھنڈا نیچے گرا کر پاکستان زندہ آباد کا نعرہ لگایا اور کہا تھا کہ عوام نےعوامی لیگ کو اکثریت سے منتخب کیا ہے۔ہمیں فورا ًاقتدار دیا جائے اور مغربی پاکستان بڑا بھائی ہے ہم سب مل جل کر متحدہ پاکستان کے مسائل حل کریں گے، لیکن اس کے چند دنوں بعد ہی شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرکے غدار پاکستان ٹھہرا دیا گیا۔دنیا نے دیکھا کہ اس کے بعد پاکستان کا اکثریتی حصہ علیحدہ ہو گیا اور قائد اعظم کا خواب بری طرح چکنا چور ہوا۔ اس بحث میں جانا فضول ہے کہ
آج قریباً پچاس سال کے بعد بنگلا دیش کہاں کھڑا ہے اور پاکستان کہاں۔ بنگلادیش میں بنگا باندھو شیخ مجیب الرحمان کو قتل کرنے والوں کو پھانسیاں بھی دی گئیں اور عسکری طاقت سے اقتدار پر ماضی میں حکومت پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف عوامی شدید ردعمل بھی دنیا نے دیکھا۔بنگلا دیش میں اقتدار پرغاصبانہ قبضہ کرنے والوں کو اہل خانہ سمیت قید بھی کیا گیا۔اقتدار کسی بھی ریاست میں عوام کی رائے کا محتاج ہوتا ہے۔عوام ہی کسی بھی ریاست میں اقتدار کے مالک ہوتے ہیں اور وہ ہی اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور اگر ان کی رائے کو بلڈوزر کیا جائے تو پھر مشرقی پاکستان جیسے سانحات جنم لیتے ہیں جن کے اثرات قوموں کی آنے والی زندگیوں کا کئی کئی دہائیوں تک کسی بدروح کے مانند تعاقب کیا کرتے ہیں۔پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی جو 1970 کے انتخابات کے باعث آئی تھی اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پیپلز پارٹی کو اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود اس لیے اقتدار ملا کہ اکثریتی جماعت اور پاکستان کا اکثریتی حصہ پاکستان سے الگ ہو گیا تھا۔
یہ اقتدار بھی ایسا ہی تھا جیسے 2018 میں اکثریتی جماعت تحریک انصاف تھی لیکن رجیم چینج کے تحت اتحادی اقلیتی جماعتوں کو 2022 میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمار اور سامراج نے اقتدار پر بٹھا دیا،لیکن بھٹو اور موجودہ اتحادی رہنماؤں میں بنیادی فرق حب الوطنی اور قابلیت کا ہے۔پانچ سالوں میں پاکستان کو دوبارہ سے دنیا میں ایک ملک کی حیثیت سے کھڑا کرنے کی پاداش میں پاکستان میں1977 میں رجیم چینج کیلئے جن مردہ سیاسی گھوڑوں کو منتخب کیا گیا تو وہ بالکل آج کی طرح میدان سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی عالمی سیاست میں نمایاں حیثیت کے سامنے سیاسی میدان میں عوام کی نظروں میں زیروہو چکے تھے۔مفتی محمود،میاں طفیل محمد،نوابزدہ نصراللہ،پیر صاحب پگاڑا،ولی خان،شیر باز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی،ائر مارشل اصغر خان، عبداللہ درخواستی جیسے اور دوسرے مسترد شدہ سیاست دانوں کو بیرونی ایجنڈے(رجیم چینج) کےتحت بھاری فنڈنگ کے تحت میدان سیاست میں اتار کر ری لانچ کرتے ہوئے عوامی رائے کو روند کر پہلے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی مضبوط حکومت تبدیل کروائی گئی اورپھر عوام کے مقبول ترین محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوا دی گئی۔یہ عوام کی رائے کا ایسا قتل عام تھا جس نے پاکستان کو نہ صرف دہشت گردی کا شکار بنایا بلکہ پاکستان کی سیاست کو مستقبل میں ایسے سیاسی بونوں اور لٹیروں کے حوالے کر دیا جنہوں نے ملکی دولت کو وحشیانہ طریقے سے لوٹ کر اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔عوامی رائے کو دبانا کسی بھی آمر اور بادشاہ کاعمل تو صدیوں سے چلا آرہاہے لیکن ماضی قریب کی ایرانی بادشاہت پرنظر دوڑائیں تو وہ تمام تر طاقت کے باوجود عوامی طاقت کے آگے بندھ نہیں باندھ سکا تھا اور ایک عالم دین آیت اللہ خمینی جیسے ملاں جس کی شخصیت میں شہنشاہ جیسا چارم
بھی نہیں تھا، کو ایران میں داخلے سے نہیں روک پایا تھا،لیکن آج پاکستان میں جو صورتحال پیدا کی گئی ہے وہ نہایت خطرناک ہے اور ایک سزا یافتہ مجرم کو پاکستان میں واپس لانے کیلئے پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان کے خلاف جس قسم کی کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں ریاست پاکستان کےکرتا دھر تاؤں کی تمام کارستانیاںعوام میں بے نقاب کر رہی ہیں اور آج پاکستان کے عوام میں اتنا شعور نظر آرہا ہے کہ وہ اپنی رائے کو روندنے والے تمام پردہ نشینوں کی جھوٹی کہانیوں اور کارروائیوں پر یقین کرنے کو قطعی تیار نہیں۔ماضی میں محمد خان جونیجو،نواز شریف، ظفراللہ جمالی، شوکت ترین اور اب شہباز شریف کو عوامی تائید کے بغیر وزارت اعظمی کی کرسی پر بٹھا کر ملک و قوم کا نقصان کیا گیا اور یہ تجربے ہمیشہ ہی ناکام رہے۔گو کہ ماضی میں جب ڈھاکہ جل رہا تھا تو الطاف حسن قریشی جیسے قلم فروش اس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت جسے امپورٹڈ حکومت بھی کہا جاتا ہے، کے پاس سینکڑوں ایسے جگاڑی قلم فروش آج بھی سب اچھا کی گردان لگائے بیٹھے ہیں اور بدترین فاشزم کو’’محبت کا زمزمہ‘‘قرار دینے کی بھیانک کوششوں میں مصروف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے غیر آئینی، کمزور اور نواز شریف کو واپس ملک لانے کیلئے مریم صفدر کی خواہش پر مبنی فیصلے کے خلاف چند گھنٹوں میں جیسے عوام گھروں سے نکلے اس نے ان سب رجیم چینج کے زمہ دار حصے داروں کو ان کی اصل سیاسی حقیقت اور اوقات یاد دلا دی۔الیکشن کمیشن کے عمران خان کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کو ملک کے تمام بڑے قانون دان غیر منصفانہ اور غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔حکومت نے الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے عمران خان کے خلاف اپنا آخری حربہ استعمال کر لیا لیکن یہ حربہ ان کی رہی سہی سیاست کی موت ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے اور عمران خان انتہائی مقبولیت کے ساتھ پوری طاقت سے سیاسی میدان میں واپس آ کر اتحادی حکمرانوں کی سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھوکتا نظر آرہا ہے۔سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق کا بیان کہ عمران کی وزارت اعظمی کے دور میںشہباز شریف کار کی ڈکی میں چھپ کر جی ایچ کیو جاتے رہے، ان سیاستدانوں کی سازشوں اور ہوس اقتدار کو ننگا کر رہا ہے۔ہم نے عوامی رائے کو روند کربیرونی آقائوں کے حکم پر پہلے 1971 میں اپنا اکثریتی مشرقی حصہ گنوایا اور پھر 1977میں عوامی مینڈیٹ کو قتل کر کے اپنے ملک میں دہشت گردی اور نفرت کے بیج بونے کے ساتھ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔آج 2022 میں ایسا(عوامی رائے کو کچلنے)کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے کہ مستقبل کا عالمی منظر نامہ اور پاکستان کی اس خطے میں جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر عوام اپنی حقیقی نمائندہ حکومت کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں اور جولائی اور اکتوبر میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں وفاقی حکومت میں شامل تمام طاقتور اتحادی جماعتوں(جن پر رجیم چینج کے آلہ کار ہونے کا الزام ہے) کی سیاسی قبریں کھود کرچارہ سازوں کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور اعلیٰ محترم عدلیہ کو عملی حقیقی اقدامات اٹھانےہوں گے اور پاکستان کے عوام کی رائے کو اداروں کی طاقت سے دبانے کے مذموم روایتی طریقوں کو چھوڑ کر اب کے فیصلوں پر لبیک کرنا ہو گا کہ ماضی کے ایسے تمام تجربات پاکستان کی سالمیت، خودمختاری اور عدم استحکام کا باعث بن کر بڑی بڑے قومی سانحات کو جنم دیتے نظر آےہیں۔ آج کا پاکستان بہت کمزور ہو چکا اور اس پر ملکی دولت لوٹنے والوں کو عوام راے کچل کر مسند اقتدار پر بٹھانا عوام کو ہضم نہیں ہو رہا اور اگر ایسے وقت میں کوئی بھی عوامی تحریک یا عوام کا ردعمل آیا تو ریاست پاکستان اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ماحول تو ’’راج کرے گی خلق خدا‘‘والا بنا ہوا ہے اور الیکشن کمیشن اور دوسرے ریاستی اداروں کی مدد سے غیر نمائندہ حکومت مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اور اس کو لانے والوں کیلئے ’’محبت کا زمزمہ کہیں بھی نہیں بہہ رہا‘‘۔ چارہ سازوں کو سوچنا ہو گا کہ کہیں دیر نہ ہو جاے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button