CM RizwanColumn

یہ سب چور ہیں؟ ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس پر فیصلہ میں عمران خان کو مبینہ طور پر کرپٹ اقدامات میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہونے پر انہیں نااہل قرار دے دیا ہے۔ یوں ایک اور قومی سیاست دان صادق امین نہیں رہا۔ جیسے کہ عمران خان اپنے مخالف سیاست دانوں کو سرعام اور بلا جھجک چور کہہ کر پکارتے تھے، اب ان کے مخالفین بھی انہیں بددیانتی کا مجرم قرار دینے کے سزاوار قرار پا گئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اس فیصلے کے فوری بعد کہہ دیا ہے کہ عمران خان مجرم ٹھہرا دیئے گئے ہیں۔ اب جیسا کہ نواز شریف کو چور کہا جاتا ہے عمران خان کو بھی مریم نواز نے پاکستان کا پہلا سرٹیفائیڈ چور قرار دیا اور کہا ہے کہ پانامہ یا اقامہ پر نہیں بلکہ عمران خان الیکشن کمیشن کی جانب سے الزام ثابت ہونے پر چور ثابت ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جاچکی ہے مگر الیکشن کمیشن کے مطابق تو عمران خان کو چور کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ نااہلی ریفرنس پر 19 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو 21 اکتوبر کو سنایا گیا۔ توشہ خانہ تحائف ظاہر نہ کرنے پر عمران خان نااہلی ریفرنس پر متعدد سماعتیں ہوئیں، دوران سماعت مسلم لیگ نون کے وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں سوال عمران خان کی جانب سے تحائف ظاہر نہ کرنے کا تھا۔ عمران خان نے جواب میں تحائف کا حصول تسلیم بھی کیا تھا کہ تحائف انہوں نے اپنے تازہ انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے۔ خالد اسحٰق نے کہا کہ جواب میں کہا گیا کہ کسی نے بھی روزمرہ ضرورت کی چیزیں ظاہر نہیں کیں، جس پر عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا تھا کہ تسبیح اور ٹائی تو میں نے بھی ظاہر نہیں کی ہوئی۔ جواب میں مسلم لیگ نون کے وکیل نے کہا تھا کہ کمیشن میں کیس عمران خان کا ہے کسی اور رکن اسمبلی کا نہیں۔ خالد اسحٰق کا کہنا تھا کہ ظاہر نہ کیے گئے ایک کف لنک کی قیمت 57 لاکھ روپے ہے۔ جواب میں دوسری دلیل یہ دی گئی تھی کہ کچھ تحائف اسی مالی سال کے دوران ہی فروخت کر دیئے گئے تھے۔ عمران خان کے بقول فروخت کیے گئے تحفے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ ایک سماعت کے دوران رکن الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا اکرام اللہ نے کہا تھا کہ تحائف خرید کر فروخت کرنے اور ظاہر نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا؟ جبکہ مسلم لیگ نون کے وکیل نے کہا تھا کہ عمران خان کے بقول ایف بی آر گوشواروں میں فروخت شدہ تحائف کی آمدن ظاہر کی ہے لیکن الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشوارے الگ الگ ہیں۔
ایک اور پہلو اس مقدمے کا یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے وکیل نے کہا تھا کہ عمران خان کے بقول الیکشن کمیشن مقدمہ سننے کا مجاز ہی نہیں حالانکہ ننکانہ صاحب کی نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران بھی توشہ خانہ تحائف کا اعتراض اٹھا، جس پر ریٹرننگ افسر کو جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن مجاز فورم ہے۔ خالد اسحٰق نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل الیکشن کمیشن ہی کرسکتا ہے، ذاتی استعمال کی اشیا ظاہر کرنا ارکان اسمبلی کیلئے ضروری ہے، کیا 50 لاکھ کی گھڑی ذاتی استعمال کی چیز نہیں؟ اعتراض کیا گیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے چار ماہ بعد کسی کو نا اہل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح رکن الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی نے کہا تھا کہ ممکن ہے اثاثے ظاہر کرنے میں غلطی ہوگئی ہو، غلطی سے اثاثے ظاہر نہ ہوں تو نااہلی نہیں ہوتی، جس پر وکیل خالد اسحٰق نے کہا تھا کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو تسلیم کریں،ایک اور اعتراض عمران خان نے 62 (ون) (ایف) لگانے کے اختیار پر کیا تھا اور کہا تھا کہ فیصل واوڈا کیس میں کمیشن نے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کا اطلاق کیا، جس پر مسلم لیگ نون کے وکیل خالد اسحاق نے دوران دلائل پانامہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانامہ نظر ثانی کیس میں اعتراض لگایا گیا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ٹرائل کے بغیر نہیں ہوسکتا، عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے تنخواہ مقرر ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔ خالد اسحاق نے کہا کہ عدالت نے کہا اگر حقائق متنازع نہ ہوں تو ٹرائل کی ضرورت نہیں ہوتی، عمران خان حلفیہ بیان پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہی خالد اسحاق ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہوگئے۔ بعد ازاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے قرار دیا تھا کہ ان کے پاس عمران خان کی نااہلی کیلئے ٹھوس مواد موجود ہے۔ سپیکر نے ریفرنس میں عمران خان کے 2017 اور 2018 کے گوشواروں کا حوالہ دیا تھا۔ آرٹیکل 62 ون ایف کیلئے عدالت کی ڈیکلریشن لازمی ہے۔ سپیکر کے پاس فیصلہ کرتے وقت کوئی عدالتی ڈیکلریشن موجود نہیں تھا۔ سپیکر آرٹیکل 62 ون ایف کا ریفرنس بھیجنے کا اہل ہی نہیں ہے، یہ ایک سیاسی کیس ہے، ثابت کروں گا جو تحائف ظاہر کرنا ضروری تھے وہ کیے گئے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ کرنا عدالتوں کا اختیار ہے۔ کیا کسی عدالت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان صادق اور امین نہیں، الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو تو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔ انہوں نے دلائل دیئے کہ الیکشن کمیشن خود کو عدالت قرار نہیں دے سکتا،الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ ارکان کی ایمانداری کا تعین کرسکے جبکہ سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں، جس پر رکن کے پی اکرام اللہ نے کہا کہ آپ کے مطابق کوئی بے ایمان ہو بھی تو الیکشن کمیشن اس پر کارروائی نہیں کر سکتا جبکہ رکن الیکشن کمیشن پنجاب نے کہا تھا کہ کمیشن اگر کچھ کر نہیں سکتا تو سپیکر کے ریفرنس بھیجنے کی شق کیوں ڈالی گئی؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) کے تحت کوئی رکن سزا یافتہ ہو تو سپیکر نااہلی کا ریفرنس بھیجتا ہے، عمران خان کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ ہے نہ ہی وہ سزا یافتہ ہیں۔
وکیل خالد اسحٰق نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے تحائف وصول کرنے اور فروخت کرنے کو تسلیم کیا، تحائف کس تاریخ کو اور کتنے کے فروخت کیے نہیں بتایا گیا، عمران خان نے اپنے لندن فلیٹ کی رسیدیں دی تھیں لیکن تحائف فروخت کی نہیں دیں، ایک اکاؤنٹ میں موجود 5 کروڑ روپے کو فروخت شدہ تحائف کی رقم ظاہر کیا گیا۔ اس دوران خالد اسحٰق نے جواب الجواب مکمل کرلیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا۔ جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیئے گئے۔ بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان،
دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کف لنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ؍لاکٹس بھی شامل تھے۔ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر کے خریدا۔ گوکہ اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے قریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کف لنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔ خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے عمران خان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کوجوریفرنس بھیجا تھااس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ کے تحائف اور ان کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔ پھر اسی سال اپریل کے آغاز میں سابق وزیر اعظم نے توشہ خانہ میں ملنے والے تحائف کے تنازع پر ایک غیر رسمی میڈیا گفتگو کے دوران جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کے تحفے ہیں اور یہ ان کی مرضی ہے کہ انہیں رکھنا ہے یا انہیں فروخت کیا جانا ہے۔
بہرحال اس فیصلے کے خلاف عدالتوں کی طرف سے کل کلاں کوئی عبوری یا التوائی تجویز یا فیصلہ بھی آ سکتا ہے مگر عوام کی اکثریت جو عمران خان کی زبان سے یہ سن چکے ہیں کہ ان کے مخالف سیاست دان سب کے سب چور ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عوام سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہ سب چور ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button