Columnمحمد مبشر انوار

نااہلیت ،ملکی سیاست اور ردعمل ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

آخرکار چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا محفوظ فیصلہ منظر عام پر آگیا اور عمران خان مخالفین کیلئے بہرطور خوشی کا باعث بنا کہ پچھلے چند مہینوں سے عمران خان اپنے مخالفین کیلئے شدید دردسر بنے ہوئے تھے تو وہیں پاکستانی عوام اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئے۔ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے جھڑپ بھی ہوئی،غلط فہمی یانادانستہ گولی بھی چلی، ایک رکن قومی اسمبلی کو گرفتار بھی کیا گیا جبکہ ایک پولیس آفیسر کی ویڈیو بھی وائرل رہی،جو عوام کے خلاف ایکشن نہ کرنے کی بات کر رہا تھا۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میںنااہلی کے حوالے سے قانونی ماہرین ایک رائے پر متفق نظر آتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار عدالتی ہرگز نہیںاور اس فیصلے کے خلاف بہرحال عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر فوری عملدرآمد رک سکتا ہے۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس بہر کیف ایک حقیقت ہے البتہ اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر اس وقت بات ہو رہی ہے اور مزید ہو گی لیکن عمران خان کے مخالفین کے حوالے سے یہ کہنا کہ عمران خان سے قبل کتنے حکمرانوں نے توشہ خانوں سے کیا کچھ اور کتنی قیمت میں حاصل کیا،اس وصول کردہ تحائف کو اپنے تصرف میں رکھا یا بیچا،ان بیش قیمت تحائف کو اپنے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر کیا یا نہیں کیا؟یہ سب باتیں،کہ عمران خان نے گو توشہ خانہ سے بیش قیمت تحائف کو ان کی اصل مارکیٹ قیمت کے مطابق،حکمرانوں کے صوابدیدی مگر انتہائی کم قیمت پر ان تحائف کو خریدنے کے برعکس اصل قیمت کا پچاس فیصد ادا کرکے حاصل کرنا، اس لیے بے معنی ہو جاتی ہیںکہ بہرطور عمران خان نے اس قانون کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اس کے برعکس اپنے انتخابی منشور کے مطابق ایسے قانون کو سرے سے ہی ختم ہونا چاہیے تھا کہ کسی بھی حکمران کو بیرون ملک ملنے والے تحائف، اس کی شخصیت کو نہیں بلکہ اس کی سربراہ ریاست کی حیثیت کو ملتے ہیں لہٰذا ان تحائف پر کسی بھی حکمران کو کوئی بھی حق حاصل نہیں بلکہ اسے ریاستی توشہ خانہ میں رکھا جانا چاہیے۔عمران خان کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد یہ واویلا کرنا کہ سابقہ حکمرانوں کی نسبت عمران خان نے زیادہ قیمت ادا کرکے یہ تحائف توشہ خانہ سے حاصل کئے جبکہ اس کا استعمال ایک عوامی مقصد کیلئے ہوا،کسی بھی طور قابل ستائش نہیں ہیںہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ماضی میں ایسی مثالیں موجود تھیں،جو ان ادوار میں بھی میڈیا کی زینت بنی رہی ہیں،نہ صرف عمران خان کو اس سے گریز کرنا چاہیے تھابلکہ ماضی کے ایسے کرداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی اور اس قانون کو ہی ختم کیا جاتا مگر چونکہ اس سے فائدہ وقت کے حکمران کو ملتا ہے لہٰذا اس کو ختم کرنے کی بجائے اپنے تئیں مزید سخت کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کی نااہلیت کے قانونی پہلوؤں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اتنا بڑا مسئلہ قطعی نہیں کہ عدالتیں اس فیصلے کو فوری طور پر روک سکتی ہیں لیکن اگر اس کے سیاسی پہلوؤں پر غور کیا جائے تو تحریک انصاف کے کارکنان اس کو کسی صورت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور فوری طور پر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔درحقیقت یہ کارکنوں کی عمران خان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے جس کا اظہار وہ پچھلے چند مہینوں سے تواتر کے ساتھ کر رہے ہیں،فیصلہ سازوں اور بیرونی طاقتوں کو واضح طور پر یہ پیغام دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ جمہوریت کا تقاضہ کرنے والے عالمی ٹھیکیدارو!پاکستانی عوام عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر واقعی پاکستان میں جمہوریت چاہتے ہو تو پھر پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق فوری صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد کراؤ،پاکستانی عوام خود فیصلہ کرے کہ وہ کس کو اپنا حکمران منتخب کرتی ہے۔ بدقسمتی سے حقیقت یہ کہ چور دروازوں سے اقتدار میں آنے والے عمران خان کی مقبولیت اور عوام کی اولو العزمی سے واضح طور پر خائف نظر آتے ہیں کہ پچھلے چند مہینوں میں ہونے والے ہر ضمنی انتخاب میں عمران خان واضح برتری کے ساتھ جیت رہا ہے،تیرہ سیاسی جماعتیں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پارہی، وہ کس طرح عام انتخابات کا انعقاد کریں؟فریقین اس وقت اس زعم میں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو پچھاڑ سکتے ہیں،عمران خان اپنے مؤقف کہ نئے صاف شفاف انتخابات کراؤکے ساتھ تن تنہا ضمنی انتخابات میں اترتے ہیںاور آٹھ میں سے چھ نشستیں جیت کر بھی ہار جاتے ہیں کہ تکنیکی اعتبار سے اس طرح قومی اسمبلی میں ان کی تعداد مسلسل کم ہی ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے مزید پچیس استعفے منظور کر لیے ہیں تو کیا ان پچیس نشستوں پر بھی عمران خان تن تنہا انتخاب لڑیں گے؟اس صورتحال میں ایک طرف تو عمران خان قومی اسمبلی میں عددی برتری سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو دوسری طرف ملکی وسائل ان انتخابات میں جھونکے جا رہے ہیںتیسری طرف رجیم چینج کرنے والے غیر محسوس طریقے سے اپنے منصوبہ میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ بتدریج وہ اس اسمبلی کی مدت پوری کروا رہے ہیں اور عمران خان کو ایک لاحاصل مشق میں مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ بظاہر عمران خان جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر پس پردہ مذاکرات کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس کی خاطرلانگ مارچ میں مسلسل تاخیر کررہے ہیں لیکن اس کا منطقی انجام سعی لاحاصل ہے کہ وقت تیزی کے ساتھ گذر رہا ہے اور منصوبہ ساز اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں،خواہ عمران خان کل لانگ مارچ اسلام آباد لے آئیں،لیکن اس کے نتیجہ میں فوری انتخابات کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔
عمران خان کے خلاف فیصلے پر جو فوری ردعمل سامنے آرہا ہے،اسے جذباتی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے ردعمل کے نتیجہ میں عدالتیں یا محکمے اپنے فیصلے نہیں بدلتے بشرطیکہ مدعیان مخصوص نہ ہوں۔چند ماہ قبل ہی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون نیب میں پیشی کے وقت اپنے ساتھ چند درجن مظاہرین لے گئی،جنہوں نے سنگ باری کرکے اس خاتون کو نیب میں پیشی سے روک لیا۔ بعد ازاں ایک اور بڑے مذہبی سیاسی رہنما نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر مجھے نیب میں طلب کیا گیا تو میرے ساتھ میرے ہزاروں کارکنان بھی نیب میں پیش ہوں گے،نتیجہ یہ کہ نیب میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس مذہبی سیاسی رہنما کو دوبارہ طلب کر سکتی۔ یہ دونوں ہستیاں رجیم چینج کے نتیجے میں آج بالواسطہ طور پر حکومت میں موجود ہیں ،ایک فقط چند درجن سنگ بازوں کے ہمراہ نیب میں پیش ہوئی جبکہ دوسرے نے صرف ہزاروں کارکنان کے ساتھ پیش ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن چونکہ ان دونوں کی ضرورت رجیم چینج میں تھی،لہٰذا محکمے اورادارے چادر تان کر سوگئے۔ اس وقت رجیم چینج سے متاثر سیاستدان کے کارکنان سڑکوں پر ہیں لیکن چونکہ وہ رجیم چینج کی جنگ میں شکست خوردہ ہیں اور اداروں نے ٹھان لی ہے کہ ان کا ہر قسم کااحتجاج نہ صرف غیر مؤثر کرنا ہے بلکہ انہیں سبق سکھانا بھی مقصود ہے لہٰذا حکومتی رٹ ہر صورت قائم رکھی جانے کی توقع ہے۔یہاں اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ رجیم چینج کے نتیجے میں تمام عواقب ونتائج پر بھرپور غوروغوص کیا گیا ہوگا اور اگر بالفرض اس غیر متوقع صورتحال پر گذشتہ چند مہینوں میںخصوصی سوچ بچار کیا جا چکا ہوگااور اس کا تدارک بھی یقینی ہوگا۔نااہلیت کے بعد بھی سیاسی معاملات قابو میں نہیں رہتے اور ردعمل اگر غیر متوقع طور پر بڑھ گیا تو ریاست بہرطور اپنی رٹ کسی بھی صورت قائم رکھے گی کہ بدقسمتی سے یہی اس ملک کی روایت رہی ہے ورنہ مہذب جمہوری ممالک میں ایسے بحران کے نتیجہ میں عوام سے رجوع کر لیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button