ColumnImtiaz Ahmad Shad

لیڈر شپ کا امتحان ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

لیڈر وہ ہوتا ہے جسے عوام تسلیم کریں، کامیابی کیلئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، جب لوگ کسی رہنما کے گرد جمع ہو کر اسے اپنا قائد تصور کرتے ہیں تو وہ لیڈر ہوتا ہے۔ وطن عزیز سمیت کرہ ارض کے بہت سے ملکوں میں عوام مشاہدہ کر چکے ہیں کہ طاقت یا محلاتی سازشوں کے بل پر ایوان اقتدار میں پہنچ جانے والوں کی قیادت کو سہارا دینے کیلئے پراپیگنڈے یا تحریص و تخویف کی کتنی ہی فصیلیں کھڑی کرلی جائیں، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ظاہری طور پر بہت مضبوط محسوس ہونے والی قیادت اپنی اندرونی کمزوری کے باعث ایک بحران، ایک احتجاج، ایک عوامی ابھار یا ایک چیلنج کے آگے نہ صرف زمین بوس ہوجاتی ہے بلکہ ملک وقوم کیلئے ایسی مشکلات کھڑی کرکے جاتی ہے جن پر قابو پانے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لوگ جوشارٹ کٹ اپناکریا بیساکھیوں کے ذریعے لیڈر بنے اور پھر اقتدار میں آئے وہ جلدیا بدیرایکسپوز ہوئے۔لیڈر کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ بھی کر کے اقتدار میں آجائے اور عوام پر حاکم بن کر بیٹھ جائے بلکہ ہر مرحلے پر اسے ایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔متعدد ملکوں میں بہت سے لیڈر آزمائشوں سے گزر کر ایک منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ان میں سے کئی ایک نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں لیکن جب یہ قائدین اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تو ان کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ ان کا ایک نیا مرحلہ امور مملکت کی بہتر ادائیگی کے امتحان کی صورت میں سامنے آیا۔ سیاست و قیادت وہ خارزار ہے جس میں کسی ایک وقت میں صعوبتوں سے گزرنے کو ہمیشہ کیلئے کفارہ سمجھنا یا مقبولیت کا دائمی پیمانہ سمجھنا عام طور پر درست نہیں ہوتا۔ایک عوامی رہنما کا سیاسی کیریئر آغاز سے انتہا تک آزمائشوں اور امتحانوں سے عبارت ہوتا ہے۔ لغزشوں کے مقابلے میں جن لوگوں کی خوبیاں زیادہ ہوتی ہیں انہیں عوام پسند کرتے، لیڈر مانتے اور ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس مرحلے پر ایک نئی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ یہ کارکردگی کی آزمائش ہوتی ہے جس میں اپنے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے اچھے تاثر کو قائم رکھنا، خود کو کرپشن اور اسکینڈلوں کی آلائش سے دور رکھنا اور اس پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ منتخب ہو کر حکومتی مناصب تک پہنچتے ہیں۔ اسی کارکردگی سے لیڈر کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے یا اس کی شخصی مقبولیت دھند کے پیچھے چھپنے لگتی ہے۔ ایک عوامی رہنما کو یہ بات بہرصورت پیش نظر رکھنی ہوتی ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کیلئے ایک آئیڈیل شخصیت ہونے کی بنا پر اخلاق و کردار، خصوصاً آئین اور قانون کی پابندی کے حوالے سے ہر وقت جانچا جاتا رہتا ہے۔ عوام اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ان کا لیڈر آئینی روایات کا کس حد تک احترام کرتا اور انہیں کس طرح خود پر لاگو کرتا ہے۔ مشکلات سے گھبرا کر میدان چھوڑ جانے والے افراد کبھی لیڈر نہیں ہوا کرتے۔انسانی تاریخ میں بہت سے ابن الوقت آئے مگر جب ان کی قوم پر کوئی مشکل وقت آیا تو تاریخ کے اوراق گواہ ہیں وہ دم دبا کر بھاگ گئے۔لیڈر شپ میں حق گوئی و بے باکی ایسے عناصر کا ہونا لازم ہے۔جدید چین کے بانی ماوزے تنگ سے سوال کیا گیا کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں؟ ماوزے نے جواب دیا کہ قومیں بحرانوں، مصیبتوں آفتوں اور پریشانیوں میں ترقی کرتی ہیں! سوال کیا گیا: کیسے؟ ماوزے نے جواب دیا قوموں کو عام حالات میں اپنی صلاحیتوں کا ادراک اس طرح نہیں ہو پاتا جتنا مصائب و پریشانیوں میں ہوتا ہے؟ مصائب اور پریشانیاں قوموں کو ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ادراک بخشتی ہیں اور قومیں اپنی کوتاہیوں پر قابو پا کر ترقی کی شاہراہ پر چل پڑتی ہیں اور جو قومیں بحرانوں سے نہیں سیکھتی اور اپنی غلطی کو دہرائے چلی جاتی ہیں وہ ترقی نہیں کر سکتیں۔ پاکستان مملکت خداداد میں بسنے والے کئی دہائیوں سے مشکلات کا سامنا کرتے آرہے ہیں۔بہت سے لیڈر آئے اور چلے گئے،کچھ تو ایسے بھی ہیں جو عوام پر قربان ہو گئے۔پاکستانی قوم کا مزاج ہے کہ موقع سب کو دیا جاتا ہے،یہ آزمائے ہوئے کو بھی آزمانے سے نہیں کتراتی مگر جب یہ فیصلہ کر لے کہ اب ایسی قیادت کو موقع نہیں دینا تو پھر وہ جتنا مرضی طاقتور ہو عوام کسی صورت اسے اپنانے کو تیار نہیںہوتے۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ جمہور کی رائے کو کتنا احترام دیا جاتا ہے، اور کس طرح عوامی مینڈیٹ کو روندا جاتا ہے۔قومی ترقی کیلئے جن مصائب اور مشکلات کا ذکر ماوزے تنگ نے کیا ہے ان کاپاکستانی قوم کو اس وقت سامنا ہے۔ اگر اس کو کسوٹی بنایا جائے تو واضح ہے کہ پھر پاکستانی قوم کا تنزلی سے ترقی کی جانب سفر شروع ہوا چاہتا ہے۔
فطرت جب مہربان ہوتی ہے تو پھر وہ ایسی قوموں کو نڈر اور بے باک قیادت بھی فراہم کر دیتی ہے۔ثابت قدمی کسی بھی لیڈر کو عروج بخشتی ہے۔راستے میں جتنی مرضی روکاوٹیں آئیں وہ حکمت و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں انتشار سے گریز کرتا ہے۔اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ایک اشارے پر پورے ملک میں آگ لگائی جا سکتی ہے مگر وہ کسی صورت اپنی قوم کو مذید مشکلات میں نہیں ڈالتا، بلکہ آئین اور قانون کا راستہ اپناتا ہے۔اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر آج قوم کو میں اپنے مفاد کیلئے استعمال کروں گا تو قوم کبھی خودار قوم نہیں بن پائے گی۔پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے،مہنگائی اپنی انتہا پر ہے،فکر معاش نے نصف سے زائد آبادی کو ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے، ایسے میں ملک کسی افراتفری اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔عوام کے ساتھ یہ لیڈر کا بھی امتحان ہے کہ وہ اس مشکل ترین دور میں کس طرح حکمت عملی سے قوم کو نکال کر آگے کی جانب بڑھتا ہے؟ جیل، قید، الزام تراشیاں اور بہتان کبھی کسی عوامی لیڈر کو کمزور نہیں کر سکتے۔عوامی لیڈر ہوتا بھی وہی ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر عوام کی ترجمانی کرے۔وہ کبھی لیڈر نہیں ہوتا جو قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کراپنی اور اپنے خاندان کے چند افراد کی پناہ کیلئے خود دیار غیر میں بھاگ جائے اور پھر معصومیت کا دعویٰ بھی کرے۔موجودہ حالات میں قوم نے جس کو اپنا لیڈر چنا ہے،جس کی ایک آواز پر متعدد بار جمع ہوئے ہیں،اور ثابت کیا ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے، اس وقت وہ لیڈر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا۔اب اس کی لیڈر شپ کا اصل امتحان ہے ،اور یہی امتحان اس لیڈر اور قوم دونوں کے مستقبل کا تعین کرے گا۔سب کو معلوم ہے کہ موجودہ پریشانی کسی صورت بھی ناکامی نہیں لاسکتی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ جذبات میںشدت غالب آتی ہے یا حکمت و دانش کا اظہار کیا جاتا ہے۔اگر حکمت اور مصلحت ،صبر اور برداشت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تو بہت جلد فتح نصیب ہو گی، اگر جذبات سے کام لیا گیا تو ساری محنت اور تپسیا برباد ہوجائے گی۔بو علی سینا کہتے ہیں کہ سمندر کے متلاشی کنویں کے گرد طواف نہیں کرتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button