Editorial

نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں سماعت

 

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربرا ہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہوگئے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب قانون عوام مفاد کے لیے نقصان دہ کیسے ہے، یہ سوال اہم ہے، جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا پچاس کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کرکے دس کروڑ بھی ہوسکتی ہے۔ ہمارا اعتراض نیب قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر اعتراض ہے، جس کے بعد وقت کی کمی کے باعث مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیف جسٹس پاکستان کی سربرا ہی میں قائم تین رکنی بنچ سماعت کررہا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جس اہم نوعیت کا معاملہ ہے عدالت عظمیٰ سے اتنا ہی اہم فیصلہ سامنے آئے گا اور اس کے بلاشبہ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ سابقہ حکومت کے دور سے قبل نیب صرف انتہائی نچلے درجے کے سرکاری ملازمین پر ہاتھ ڈالتا تھا پس یوں ظاہر ہوتا تھا کہ اِس ملک و قوم کی بربادی میں یہی کلرک، پٹواری، منشی ملوث ہیں لیکن سابق دور حکومت میں نیب نے نہ صرف سیاست دانوں بلکہ بڑے بیوروکریٹس پر ہاتھ ڈالا اور اِس تاثر کو زائل کیا کہ ملک میں مقدس گائے بھی ہیں جن پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور سارا سبزہ و ہریالی انہی کے لیے ہے، اگرچہ نیب اور سابقہ حکومت ہمیشہ نیب کی زد میں آنے والوں کے نشانے پر رہے اور نیب کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا اورسارا زوربڑی کرپشن پکڑنے کے دعووں پر ہی رہالیکن جو نتیجہ نکلا وہ سبھی کے سامنے ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت دعویٰ دار تھی کہ وہ برسراقتدار آکر نیب میں ترامیم لائے گی اور بادی النظر میں دیکھا جائے تو اِن تمام ترامیم کا فائدہ بعض اتحادی جماعتوں کو ہی پہنچا ہے کیونکہ اب آمدن سے زائد اثاثہ جات کا جرم ثابت ہونا اب نا ممکن ہے۔ نیب کو صدر مملکت سے لے کر وزارت داخلہ کے ماتحت کر دیا ہے اور اب نیب آزاد ادارے کی بجائے وزارت داخلہ کے ماتحت ہوگا پہلے نیب کسی کو جوابدہ نہیں تھا لیکن اب کم و بیش سبھی کو جوابدہ ہوگا اور نیب کے متعلق جو پہلے تاثر موجود تھا کہ نیب کے معاملے میں میں کوئی مداخلت یا اثر ورسوخ استعمال نہیں کر سکتا، اب ایسا نہیں کیا جاسکے گا۔ اگرچہ حالیہ بعض نیب ترامیم واقعی قابل تعریف ہیں کہ اگر نیب کسی کو پکڑتا ہے تو جرم بھی نیب ہی ثابت کرے نہ کہ گرفتار شخص سے کہا جائے ، ایسی کئی اور ترامیم ہیں جن کو سراہا جارہا ہے لیکن اِس کے برعکس ترامیم پر تنقید زیادہ کی جارہی ہے اور جیسا کہ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے جسے نیب قانون سے استثنیٰ نہ ملا ہو، تحصیل کونسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے فیصلے بھی مستثنیٰ ہوگئے ہیں۔ دیکھا جائے تو سال 2022 میں ہونے والی نیب ترامیم کا اطلاق 1985 سے کیا
گیا اور اِس کے نتیجے میں وہ تمام سزائیں بھی ختم ہوگئی ہیں جو شواہد کی بنیاد پر آئین و قانون کے مطابق سنائی گئی تھیں بلکہ ملزمان سے پلی بارگین کی شکل میں جو پیسے برآمد کیے گئے تھے وہ بھی واپس کرنا پڑیں گے اور بہتر تو یہی ہے کہ وہ لوگ جن سے سونے کی اینٹیں برآمد ہوئیں، غیر ملکی کرنسی برآمد، جنہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا انہیں برآمدہ تمام مال و دولت واپس کرکے اِن سے معذرت کی جائےکیونکہ نیب ترامیم کے بعد اب وہ مجرم نہیں رہے اور اب وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، پس ثابت ہوا کہ ماضی میں کبھی کرپشن ہوئی ہی نہیں اور ملک و قوم آج جن معاشی حالات سے دوچارہیں اِس کے واحد قصور وار عوام ہیں، عوام کی وجہ سے ہی ملک قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہے، معاشی مسائل اور عدم استحکام کی وجہ بھی عوام ہی ہیں کیونکہ ترامیم کے بعد کسی کو تو ملزم ٹھہرانا ہے؟ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں ایسا کیا ہے جو کسی کی نگاہوں سے ابھی تک اوجھل ہو، معصوم بچے انگلی پکڑ کر چلنا بعد میں سیکھتے ہیں اِس سے پہلے اُن کے ہاتھ میں موبائل فون ہوتا ہے اور وہ ایسا سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں جو قریباً ایک دہائی پہلے تصور بھی تھا نہیں، پس سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اب لوگ شعور رکھتے ہیں کہ منتخب نمائندے اُن کو جوابدہ ہیں اور پھر اُن کا طرز زندگی اپنے منتخب نمائندوں جیسا کیوں نہیں ہے، ہم کیوں محسوس کرنے سے قاصر ہیں وہ سب کچھ، جو ایک عام پاکستانی محسوس کررہا ہے، ہم وہ کیوں سننے سے قاصر ہیں جو ایک غریب پاکستانی کہہ رہا ہے، ہم کیوں وہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر ہیں جو حقیقت ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے توایسی ہی غفلت نظر آتی ہے۔ روم کے شہنشاہ ’’نیرو‘‘کے حوالے سے ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا‘‘ پس دیکھنا چاہیے کہ ملک و قوم کے بہتر مفاد میں کیا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ واقعی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے ؟۔ یقیناً وہ دن ضرور آئے گا جب پارلیمانی میں قانون سازی ہوگی کہ کوئی پاکستانی بھوکا نہ سوئے، کوئی تن ڈھانپے بغیر نہ ہو، تعلیم ، صحت اور انصاف گھر کی دہلیز پر ملیں، ہر طرف امن کا دور دورہ ہو، اقوام عالم میں ہماری عزت ہو ، ہمیں ملک چلانے کے لیے قرض مانگنا پڑے نہ ہی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جھولی پھیلانا پڑے لہٰذا ایسی ترامیم گر ناگزیر ہی تھیں جن کی وجہ سے انسانی حقوق سلب ہورہے تھے اور معیشت اور انتظامی امور کو بھی نقصان پہنچ تو رہا تو بلاشبہ ایسی ترامیم کرنے میں قطعی کوئی برائی نہیں تھی لیکن جیسا کہ سپریم کورٹ میں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے حکمران جماعت اور اتحادیوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور درحقیقت حکومت کی تبدیلی کا سارا معاملہ ہی اس موقف کے ساتھ بارہا جوڑا جارہا ہے، اِس لیے دیکھاجانا چاہیے کہ عوام میں اس بیانیے کو کتنی تقویت ملے گی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے اور جہاں تک احتساب کا معاملہ ہے تو ہمیں اقوام عالم بالخصوص اپنے دین میں بھی دیکھنا چاہیے کہ انصاف کا کیا معیار مقرر کیاگیا ہے اور انصاف میں تاخیر کو انصاف کی موت قراردیاگیا ہے، اِس لیے سپریم کورٹ میں زیر سماعت اِس معاملے کا مفصل فیصلہ آنے کا انتظار کرناچاہیے کیونکہ تبھی قوم کی صحیح رہنمائی ہوگی کہ اصل میں معاملہ کیا ہے اور اِس کے کیا اثرات ہوں گے کیونکہ کوئی اِس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ جہاں انصاف نہیں ہوتا یا انصاف کا دوہرا معیار ہوتا ہے وہاں ترقی ہوتی ہے اور نہ ہی خوشحالی اور پھر ایسی قومیں اقوام عالم کے لیے مثال بن جاتی ہیں، لہٰذا ہمیں مطمئن رہنا چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اِس معاملے پر ہماری درست رہنمائی کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button