ColumnNasir Naqvi

دریادلی کی منفرد مثال .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دنیامیں آنے والے کو واپس جانا ہی ہے۔خواہ وہ امیر ہے کہ غریب ،طاقت ور ہے کہ کمزور،نظام قدرت یہی ہے کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے،یعنی دنیا میں آنا ضروری نہیں لیکن جو آگیا ڈرے نہ ڈرے اسے مرنا ہی ہے۔دنیاوی زندگی عارضی ہے۔چاہے سامان سوبرس کا ہی کیوں نہ ہو؟اس آنے جانے میں بہت سے دوست رخصت ہوگئے۔ کچھ چلے گئے کچھ تیار بیٹھے ہیں۔اب تو اپنے سینئرز کے بعد ہم عصروں کی باری بھی آگئی ہے۔چند دن پہلے لاہور کے صحافی کے خواجہ فرخ سعید بھی دنیا چھوڑ گئے۔مرحوم انتہائی باہمت اور نظریاتی صحافی تھے، مختلف اداروںکے علاوہ قلم مزدوروں کی جدوجہد کے حوالے سے بھی انفرادی حیثیت کے مالک تھے۔ان کی رحلت صحافتی برادری کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا جارہا ہے۔وہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(دستور )کے صدربھی رہی لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے وفاقی اور صوبائی سطح پر پوری زندگی اقدارو روایات کی حامل صحافت کی اور نظریاتی قلم کار کی حیثیت پائی تو بے جا نہ ہوگا۔اس طرح صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے ان کی خدمات کو ایک عرصہ یاد رکھا جائے گا، ہم ان کی نظریاتی قلم کاری سے اتفاق سے نہیں کرتے تھے اس لیے ہر الیکشن میں ہم ایک دوسرے کے مدمقابل ہواکرتے تھے۔پھر بھی مرحوم دوست نوازی میں دوسروں سے مختلف تھے۔لہٰذا صحافی برادری کے انتخابات کے علاوہ ہم اکھٹے بھی دکھائی دیتے تھے۔ اچھے برے وقتوں میں،ان کی صحافتی خدمات بھی مسلم لیگ نون کے حمایتی اخبار میں زیادہ تھی۔اس لیے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ،قائد نواز شریف اور سینیٹر عرفان صدیقی نے خواجہ صاحب کے انتقال پر رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے انہیں دبستان صحافت کا نہ صرف ایک منفرد باب قرار دیابلکہ ان کا کہنا ہے کہ مرحوم نظریاتی صحافتی قبیلے کے ممتازسالار تھے جو اپنے نظریات اور وابستگیوں کے معاملے میں نہایت کھرے تھے۔یوں کہاجاسکتا ہے کہ صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی ایک طاقت ور آواز خاموش ہوگئی۔
مجھے اپنے گروپ میں نہ ہوتے ہوئے بھی وہ عزت و احترام دیاکرتے تھے۔انتقال کی خبر پر دل مچلاکہ مالک ایسے وضعدار لوگوں کی تو پہلے ہی کمی ہے اور تو نے ایک اور ساتھی واپس بلالیا۔ابھی مالک جان و جہان سے گلہ شکوہ جاری تھا کہ دل کے ساتھ ذہن بھی بول اٹھا کہ عقل کا دامن نہ چھوڑ آج نہیں تو کل تونے بھی تو جانا ہے،اور میں نے اناالله وانا الیه راجعون پڑھا، دوست کی جدائی کی خبر رات کو ملی پر ایسے میں کچھ بن نہ پڑاکندھا نہ دے سکا۔پھر بھی سوچتا رہا کہ اگر ایسا سبھی فیصلہ کرلیں تو اپنوں کو رخصت کرنے کون جائے گا۔پہلے میں نے کبھی ایسا نہیں سوچاتھا۔ میرے خیال میں اگر ہم اپنے
آپ کو زندوں میں شمار کرتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں کا ثبوت جانے والوں کو رخصتی پر کندھا دے کر ضرور کرنا چاہیے،لیکن کرونااور ڈینگی کے جھٹکوں نے پہلے سی ہمت باقی نہیں رہنے دی۔ پھر بھی ہم دوسرے روز سوئم کی دعامیں پہنچ گئے۔خواجہ صاحب کا حلقہ دوستاں خاصا وسیع تھا اس لیے سوگواروں کی بھاری تعداد موجود تھی صحافتی سیاسی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ جمع تھے۔ایصال ثواب کے لیے بہت کچھ پڑھا گیا درجات کی بلندی کے لیے دعابھی کی گئی۔ نماز مغرب پر اس دعائیہ تقریب کا اختتام ہوا تو خواجہ صاحب کے صاحبزدگان سےہرکوئی تعزیت کررہاتھا اور بچے لوگوں کی شفقت پیار اور محبت پر ہر کسی کا شکریہ ادا کررہے تھے۔پھر نواز رضا اور مجیب الرحمان شامی نے مرحوم کی بیماری کی کہانی چھیڑدی بچوں نے بتایا ہم تو کچھ اورہی سمجھتے تھے لیکن اچانک موذی کینسر نے سراٹھا لیا۔پھر وہ وبال جان بن گیا۔ مہنگے ترین علاج نے کمرتوڑ دی کسی نے لقمہ دیا سرکار نے کوئی تعاون نہیں کیا۔بڑابیٹا بولا وزیراعظم شہباز شریف نے دریا دلی کی منفرد مثال قائم کردی۔شامی صاحب نے تعریفی انداز میں کہا اچھا؟بیٹا،جی ہاں ہسپتال میں ابوجی رحلت کے بعد تعزیتی پیغام میں اطلاع دی گئی کہ وزیراعظم نے میت کو گھر لے جانے کے لیے ایمبولینس فری کردی۔بیٹے نے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم تعزیت کے لیے آئے تو اس دریا دلی پر ان کا شکریہ ضرور ادا کروں گا۔
نواز رضا صاحب نے اسے تسلی دیتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ میں بات کروں گا۔بیٹا بولا انکل مشکل وقت گزر گیا ہم تو باپ کو کھو بیٹھے ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔سوشل میڈیا کے دور میں روزانہ کچھ نہیں بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔زندگی کی اس آنکھ مچولی کے مطابق یہ ایک تحریر دوست نے بھیجی ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
وقت چلا،لیکن کیسے چلا
پتا ہی نہیں چلا
زندگی کی ،آپادھاپی میں،
کب نکلی عمر ہماری یارو
پتا ہی نہیں چلا
کندھے پر چڑھنے والے بچے،
کب کندھے تک آگئے؟
پتا ہی نہیں چلا
کرائے کے گھر سے،
شروع ہواتھا،سفراپنا
کب اپنے گھر تک آگئے
پتا ہی نہیں چلا
سائیکل کے پیڈل مارتے
ہانپتے تھے ہم،اس وقت
کب سے ہم،کاروں میں آگئے
پتا ہی نہیں چلا
کبھی تھے ہم،ذمہ دار،ماں باپ کے
کب بچوں کے لیے ہوئے ذمہ دار
پتا ہی نہیں چلا
اک دور تھا،جب دن میں
بے خبر سوجاتے تھے
کب راتوں کی،اڑگئی نیند
پتا ہی نہیں چلا
جن کالے گھنے بادلوں پر
اتراتے تھے کبھی ہم
کب سفید ہوناشروع ہوگئے
پتا ہی نہیں چلا
دردربھٹکتے تھے،نوکری کی خاطر
کب ریٹائرڈ ہوگئے
پتا ہی نہیں چلا
بچوں کے لیے کمانے بچانے میں
اتنے مشغول ہوئے ہم
کب بچے ہوئے ہم سے دور
پتا ہی نہیں چلا
اب سوچ رہے تھے
اپنے لیے بھی کچھ کریں پر
جسم نے ،ساتھ دینا،بندکردیا کب
پتا ہی نہیں چلا
وقت چلا،پرکیسے چلا
پتا ہی نہیں چلا
جو وقت باقی ہے بڑا قیمتی ہے دوستو
جب واپس پہنچیں گے خدا کے سامنے
تو کہیں یہ کہنا نہ پڑجائے کہ مالک
زندگی اتنی مختصر تھی پتا ہی نہیں چلا
حالات ایسے ہی ہیں پل کی کسی کو خبرنہیں صاحب اقتدار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے جب بچے گلہ کریں گے تو ان کے پاس بہت سی تاویلیں ہونگی۔جن میں بڑی بات یہی ہوگی۔اچھا ایسے کیسے ہوا؟پتا ہی نہیں چلاخواجہ صاحب تومنفرد تھے۔محنتی اور نظریاتی ان کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہو نا چاہیے تھا۔پتا ہی نہیں چلا اور ان کے بچے کہیں گے کہ آپ کی دریا دلی کی منفرد مثال سے ہم کو سب کچھ پتا چل گیا آپ کا اقبال بلند ہو سلامت رہیں جو ہو نا تھا ہوگیا۔ہماری قسمت۔ہم یتیم ہوگئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button